بہرحال اقلیتی رپورٹ منظر عام پر لائی گئی، دیگر دو افسران یعنی انوار الحق اور جہانگیر احمد کے اختلافی نوٹ ہر گز پبلک نہ کیے گئے، رپورٹ پر دستخط کرنے کیلئے باقی دونوں افسران پر کس نے اور کیوں دبائو ڈالا؟ دبائو کے باوجود ان نوجوان افسران نے دستخط کرنے سے انکار کیوں کیا؟ کاش وزیراعظم ان دونوں افسران کو بلا کر ایک بار پوچھ لیں۔ حیرت انگیز طور پر یک رکنی رپورٹ کے خالق گلزار شاہ نے رپورٹ تیار کرتے ہوئے مرکزی کردار سے قطعاً کوئی رابطہ، سوال جواب یا ملاقات کرنے کی زحمت نہیں کی اور نہ ہی کسی موقع پر ان کا کوئی بیان ریکارڈ کیا گیا۔ اس سوال پر پنجاب سرکار جواب دینے سے تاحال انکاری ہے۔ وزیراعظم اگر واقعی کُھرے تک پہنچا چاہتے ہیں تو اختلافی نوٹ لکھنے والے دو افسران، سبکدوش کمشنر راولپنڈی، اسلام آباد سے گلگت بلتستان میں ٹرانسفر ہوئے نوجوان افسر وسیم احمد، سابق ڈی جی آر ڈی اے عمارہ خان اور آر ڈی اے سے ہی تبدیل ہوئے افسر ستار عیسانی سے صرف ایک ملاقات کر لیں، دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ وہ کون بااثر لوگ ہیں جو وزیراعظم کی ان افسران سے ملاقات نہیں ہونے دے رہے؟ بہرحال وزیراعظم کوشش کریں تو فوری حقائق ان کی میز پر دستیاب ہو سکتے ہیں۔
اب آتے ہیں منصوبے کے اس پہلو کی جانب جس پر زیادہ فوکس کیا جا رہا ہے، یعنی زمینوں کی خریدو فروخت میں ہوئے مبینہ گھپلے، لیکن اس نکتے کو سمجھنے کے لئے پہلے ہمیں سابق ڈپٹی کمشنر راولپنڈی کیپٹن (ر) انوار الحق کے اختلافی نوٹ کے آخری پیراگراف کا جائزہ لینا ہوگا جہاں وہ لکھتے ہیں ''رنگ روڈ پہلے پلان کے تحت بنے یا دوسرے یا کسی بھی نئے ڈیزائن کے ساتھ‘ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ ہر پلان سے آس پاس کی زمینوں کو فائدہ ضرور پہنچتا ہے‘‘۔ دستیاب دستاویزات کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اصل الائنمنٹ کے مطابق رنگ روڈ کے آس پاس صرف پانچ ہائوسنگ سوسائٹیز ہی بن پاتیں، تبدیل شدہ اور آخری الائنمنٹ کے ذریعے پچیس سوسائٹیز کا قیام عمل میں آنا تھا۔ یہاں دو معاملات انتہائی اہمیت کے حامل ہیں یعنی، ''انسائیڈ ٹریڈنگ‘‘ اور ''رینٹ سیکنگ‘‘ کے دھندے، انسائیڈ ٹریڈنگ سے مراد یہ ہے کہ کسی جگہ سے سڑک گزرنے کا علم ہو تو وہاں منصوبہ شروع ہونے سے پہلے ہی زمینیں خرید لی جائیں۔ رینٹ سیکنگ یہ کہ رنگ روڈ جیسا منصوبہ بنتے ہی انڈسٹریل زونز کی منظوری کروائی جائے تاکہ قریبی صنعتکاروں کو فائدہ پہنچ سکے۔ یہ دونوں معاملات وائٹ کالر کرائم کی کیٹیگری میں شمار ہوتے ہیں لہٰذا ان مدعوں میں کھرے تک پہنچنا ہمارے ہاں قدرے مشکل ہوتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ سبکدوش ہوئے ایک مشیر کا تعلق انہی دو معاملات سے ثابت کرنے کی کوشش کی گئی۔
نئے پلان کے تحت رنگ روڈ، جی ٹی روڈ، ایم ون، ایم ٹو، سی پیک کیلئے ہاکلہ ڈی آئی خان جنکشن، مارگلہ روڈ اور سپر ہائی وے سے جڑتی جس سے مری اور سیاحتی علاقوں میں جانے والے مسافر راولپنڈی اور اسلام آباد میں داخل ہوئے بغیر اپنی منزل کی جانب روانہ ہوتے، جی ٹی روڈ کی بھاری ٹریفک شہر میں داخل ہوئے بغیر رنگ روڈ کے ذریعے مورت کے مقام پر دوبارہ جی ٹی روڈ پر جا چڑھتی۔ اس پلان کے تحت مارگلہ ہائی وے بھی رنگ روڈ سے آن جڑتی، اس کی منظوری باقاعدہ وزیراعظم کی زیر صدارت اجلاس میں دی گئی جہاں وزیراعظم نے اس پلان کی برملا تعریف بھی کی۔ گویا یہ تین سو ساٹھ ڈگری سرکل کی صورت میں باقاعدہ ایک رنگ روڈ تھی جو مجموعی طور پر ایک سو پچپن کلومیٹر طوالت کی حامل تھی۔ اس ترمیم شدہ اور حتمی پلان تک پہنچنے کیلئے متعلقہ اداروں اور ذمہ داران کے درمیان بہتّر سے زائد ملاقاتیں ہوئیں جن کے میٹنگ منٹس ریکارڈ کا حصہ ہیں، ڈیڑھ سال کے اندر اندر پلان کیلئے بڈنگ کا عمل مکمل ہوا حالانکہ لاہور رنگ روڈ کی بڈنگ کیلئے تین برس لگے تھے، بتیس محکموں سے این او سی لئے گئے اور اہم سکیورٹی اداروں کی کلیئرنس بھی ہر لمحہ شامل حال رہی۔ ملکی تاریخ کا یہ پہلا منصوبہ ہے جس میں سترہ افراد نے بولی خریدی، حالانکہ کسی بھی بولی میں گنتی ایک دو یا تین تک ہی جاتی ہے۔ رنگ روڈ میں نو انٹر چینج، دو سپیشل اکنامک زون، دو لاجسٹک حب، ڈرائی پورٹ اور دو درجن سے زائد ہائوسنگ سوسائٹیز کا قیام عمل میں لایا جانا مقصود تھا جس سے کاروبار پھیلتا، روزگار کے اَن گنت مواقع دستیاب ہوتے اور سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہوتا۔ منصوبے نے تیس جون 2023ء تک مکمل ہونا تھا اور یہ یقینی طور پر تحریک انصاف کیلئے الیکشن کے سال میں فلیگ شپ پروجیکٹ تصور ہوتا۔
رہ گئی بات یہ کہ نئی الائنمنٹ میں کس کی زمینیں آتی ہیں تو عرض ہے کہ ہر پوائنٹ پر کسی نہ کسی سیاسی، حکومتی، سرکاری، غیر سرکاری یا ریٹائرڈ افسر کی زمین ضرور پائی جاتی ہے۔ یہ محض بدقسمتی نہیں کہ یہ منصوبہ 1997ء میں سوچا گیا لیکن آج چوبیس برس بعد جب منصوبے پر عملی طور پر کام شروع ہونا تھا تو منصوبہ متنازع بنا دیا گیا۔ منصوبہ کس نے اور کیونکر متنازع بنایا؟ منصوبہ متنازع بنانے سے سرمایہ کاروں کے اربوں روپے تو ڈوبیں گے ہی لیکن اس کے بدلے میں مارکیٹ ویلیو کن افراد یا سوسائٹیز کی بہتر ہوگی؟ میڈیا میں ایسی کئی تحریریں مل جائیں گی جن کا موازنہ کرکے آپ کافی حد تک صاحبِ رائے قرارپائیں گے۔
جناب وزیراعظم! اگر اب بھی آپ کو کوئی غلط فہمی ہے تو اس کیلئے ایک اور واقعہ کافی رہے گا، ایسا واقعہ بیان کرنا کافی ہو گا جو آپ کے علم میں رہا۔ گزشتہ برس ستمبر‘ اکتوبر میں ایک پاکستانی شہری نعمان حنیف کو دبئی سرکار کے حوالے کرنے کا معاملہ کابینہ کے علم میں لایا گیا، مذکورہ شہری چھ ہزار درہم کا فراڈ کر کے کراچی بھاگ آیا تھا، یو اے ای حکومت نے اس پر الزام ثابت ہونے کے بعد اسے ''ایکسٹراڈکٹ‘‘ کرنے کی ریکوسٹ بھیجی، پاکستان اور یو اے ای کے مابین اس بابت معاہد ہ برسوں سے قابل عمل ہے۔ دفتر خارجہ کے ذریعے یہ معاملہ آپ کے سامنے کابینہ تک پہنچا، جہاں آپ ہی نے ایڈیشنل کمشنر اسلام آباد وسیم احمد کو معاملے کی انکوائری اور مشاورت کیلئے نامزد کیا۔ یہ صاحب اس کیس میں انیس سو بہتر کے ایکسٹراڈیشن ایکٹ کے تحت انکوائری مجسٹریٹ بھی کہلائے، چونکہ مذکورہ شہری دبئی کی عدالت میں مجرم ثابت ہو چکا تھا اور دونوں ملکوں کے درمیان معاہدہ پاکستان کو پابند کرتا تھا کہ وہ مجرم کو دبئی کے حوالے کرے لہٰذا وسیم احمد قاعدے کے مطابق جب پروسیڈنگ کر رہے تھے تو انہیں کس اہم حکومتی مشیر نے بالترتیب تئیس اکتوبر اور چھبیس اکتوبر 2020ء کو بلا کر معاملہ روکنے اور اس میں روڑے اٹکانے کی کوشش کی؟ قاعدے کی رو سے چلنے والے نوجوان افسر نے قانون کے مطابق جب جواب دیا تو کس نے اُسے کہا کہ جو کہہ رہا ہوں‘ وہ کرو اور اس کیس کو سپیئر کر دو؟ اور پھر جب اس افسر نے غیر قانونی احکامات ماننے سے انکار کیا تو انہیں گلگت بلتستان کس نے اور کیوں ٹرانسفر کیا؟ واقفانِ حال کے مطابق‘ وزیراعظم کھرے تک تقریباً جا پہنچے تھے لیکن رپورٹ پر رپورٹ اور ایک سے زائد قریبی لوگوں کو رپورٹ مارک کرنے کی وجہ سے کہانی الجھ گئی۔ تازہ خبر البتہ یہ ہے کہ وزیراعظم اس ساری پیشرفت پر قدرے رنجیدہ ہیں اور دوبارہ غور و فکر کر رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ زلفی بخاری کا استعفیٰ تاحال تک منظور نہیں کیا گیا۔
جناب وزیراعظم ! آپ انصاف کے داعی ہیں‘ گزارش ہے کہ ''افیئرز ان آرڈر‘‘ کر لیجئے۔ ایک آزادانہ جوڈیشل کمیشن تمام تر کرداروں کی نشاندہی کر سکتا ہے۔ اس سلسلے میں پہلا قدم اٹھا لیجئے، بڑے نقصان سے بچ جائیں گے وگرنہ لئی ایکسپریس منصوبہ بھی ایسے ہی ان گنت تنازعات لیے احتساب کے دروازے پر دستک دے رہا ہے۔