اداروں کا تصادم

سپریم کورٹ کی ایک رولنگ کے بعد امریکہ میں بھی وہ کیفیت پیدا ہو گئی ہے جسے پاکستان میں اداروں کا ممکنہ تصادم کہا جاتا ہے یا کم از کم ری پبلیکن جو ایوان اقتدار میں اکثریت کے حامل ہیں اس فیصلے کو اسی نظر سے دیکھتے ہیں۔عدالت عظمیٰ نے بظاہر آئین کی تشریح کرتے ہوئے قرار دیا ہے کہ مرد مرد سے اور عورت عورت سے باضابطہ طور پر شادی کرتے ہیں تو انہیں وہ تمام وفاقی فوائد حاصل ہونے چاہئیں جو کسی روائتی شادی شدہ جوڑے کو حا صل ہوتے ہیں۔ان فوائد میں وراثت‘ قریب المرگ ساتھی کی زندگی اور موت پر مشورہ دینے کا حق‘ صحت اور زندگی کے بیمے‘ غرض اس کے خاندان کا فرد ہونے کے سب حقوق شامل ہیں۔ڈیمو کریٹک صدر باراک اوبامہ نے اس قانونی کامیابی پر ہم جنسوں کو مبارکباد پیش کی ہے ۔شادی ایک ریاستی سبجیکٹ ہے۔ پچاس میں سے تیرہ ریاستیں پہلے ہی ہم جنسی کی شادی کو تسلیم کرتی ہیں مگر ملک کی سب سے بڑی ریاست کیلے فورنیا ان میں نہیں ہے۔ اس نے قرارداد آٹھ کے تحت ایسی شادی کو ناجائزقرار دیا تھا جسے عدلیہ نے کالعدم کر دیا ۔یہ قوم کو دو لخت کرنے کے مترادف ہے جو پہلے ہی اسقاط حمل‘ گن کنٹرول اور نقل وطن جیسے مسائل پر تقسیم ہو چکی ہے۔ ری پبلیکن لیڈر ایوان سے اٹھ کر پریس گیلری میں آئے اور انہوں نے سی سپین ( کانگرس کا ٹیلی وژن) کے ما ئک پر سپریم کورٹ کے فیصلے کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا ۔ سب نے کہا کہ کنبہ اس معاشرے کا اساسی یونٹ ہے اور عدلیہ نے اسے تباہ کرنے اور قوم کا مستقبل تاریک کرنے کی کوشش کی ہے ۔ اس ضمن میں معدودے چند لیڈروں نے خدا کا نام لیا اور ہم جنسی کوخلاف وضعِ فطری قرار دیا۔ صاف ظاہر ہے کہ وہ آئین اور معاشرتی دباؤ کے زیر اثر تھے۔ ہم جنسوں نے یہ کامیابیاں مسلسل پُر امن جدو جہد سے حاصل کی ہیں۔ وہ تیزی سے کلا زٹ سے باہر آ رہے ہیں یعنی کھلے بندوں اپنی اصل طبعی ساخت کا اعتراف کر رہے ہیں ۔ان میں لڑاکا فوجی بھی شامل ہیں ۔حال ہی میں بوائے سکاؤٹ تحریک نے اپنی صفوں میں ہم جنسوں کو جگہ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کا خیر مقدم کرنے والوں میں میسا چوسٹس کے ریٹائرڈ کانگرس مین بارنی فرینک ( ڈیمو کریٹ)بھی شامل تھے جو کلازٹ سے باہر آکر ہم جنسوں کی تحریک کی قیادت کرنے والے قانون سازوں میں سے ایک ہیں ۔وہ اپنے ساتھی کو اپنا شوہر کہتے ہیں۔ ری پبلیکن قانون سازوں نے سوال اٹھا یا کہ ایک جمہوریت میں ’’غیر منتخب‘‘ افراد نے رائے دہندگان پر فوقیت کیونکر حاصل کی؟ کیلے فورنیا کے عوام نے تو 2008 ء میں شادی کو ایک مرد اور ایک عورت کا بندھن قرار دینے کے لئے ریاست کے آئین میں ترمیم کی تھی ۔ججوں کو عوام کا فیصلہ منسوخ کرنے کا اختیار کس نے دیا ؟ ججوں نے یہ کہہ کر قرارداد آٹھ پر رولنگ دینے سے احتراز کیاکہ جن لوگوں نے ترمیم کی تنسیخ کے لیے زیریں عدالت کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کی‘ انہیں ایسا کرنے کا قانونی حق نہ تھا ۔یوں عدالت عظمیٰ نے کیلے فورنیا میں ہم جنسوں کی شادی میں رکاوٹیں دور کر دیں ۔ دوسری جانب عدالت نے ادارہ شادی کے بچاؤ کے قانون DOMA کے ایک ضروری حصے کو قلمزد کر دیا۔ وفاقی قانون ساز ادارے (کانگرس) نے یہ قانون 1996ء میں منظور کیا تھا اور اس کی رو سے شادی کو ایک مرد اور ایک عورت کا ازدواجی رشتہ قرار دیا گیا تھا۔ عدلیہ نے ایسے ہم جنسوں کو جو ریاستی قوانین کے مطابق ’’شادی شدہ‘‘ ہیں وفاقی فا ئدے حاصل کرنے کے قابل بنا دیا ہے۔ ری پبلیکن عناصر نے سپریم کورٹ کو عدالتی فعالیت (judicial activism)کا طعنہ بھی دیا ہے۔ اعلیٰ عدلیہ‘ جو مسلمہ طور پر غیر منتخب ہے اور جس کا کام آئین کی تشریح و توضیح کرنا ہے‘ سپریم کورٹ آف پاکستان کی طرح از خوداقدامات (suomoto) بھی کرتی ہے مگر اسی صورت میں جب وہ یہ محسوس کرے کہ حکومت یا اس کے عمال زیر نظر معا ملے سے نمٹنے میں دلچسپی نہیں رکھتے اور انسانی حقوق کی حفاظت اس کا فریضہ منصبی ہے ۔ امریکی عدالت عظمیٰ نے یہ فیصلے‘ عذرداری کی سماعتوں کے بعد دیئے ہیں۔ ایک بالغ مرد یا ایک عورت’ یا دو مرد اور دوعورتیں اپنے بیڈ روم کی خلوت میں جو کچھ کرتے ہیں‘ امریکی آئین اور قانون اس سے تعرض نہیں کرتا مگر وہ یہ ضرور دیکھتا ہے کہ کسی کی حق تلفی نہ ہو۔ سپریم کورٹ کے یہ فیصلے بظاہریہی اہتمام کرتے ہیں ۔عدالت عظمیٰ کے جج‘ جو ساری زندگی کے لیے تعینات کیے جاتے ہیں‘ گو صدر مملکت اور مقننہ (حکومت) کی صوابدید کا ثمر ہوتے ہیں مگر عدالت میں آکر وہ اپنی رائے کا اظہار آزادانہ کرتے ہیں ۔مثلاً چیف جسٹس جان رابرٹس نے جنہیں ری پبلیکن صدر جارج بش نے نامزد کیا تھا‘ DOMA کی منسوخی میں اکثریت (نو میں سے پانچ) کا ساتھ نہیں دیا مگر قرارداد آٹھ کو غیر آئینی قرار دینے میں اکثریت کا سا تھ دیا۔ اسی طرح جسٹس سونیا سو ٹو مائر نے‘ جنہیں صدر اوبامہ نے مقرر کیا تھا‘ قرارداد آٹھ کے معا ملے میں اکثریت کا ساتھ نہیں دیا لیکن شادی کے دفاع کے قانون کی منسوخی میں اکثریت کا ساتھ دیا۔ ہم جنسی پرستی گو تمام سامی (ابراہیمی) مذاہب میں گناہ کبیرہ ہے اور ہندو مت بھی اسے بُرا سمجھتا ہے مگر امریکہ میں ایسے لوگ اپنے ووٹ کے بل پر سیاسی فتوحات حاصل کر رہے ہیں ۔آج وہ ہر شعبہ زندگی میں کام کر تے ہیں۔ وہ ملک کی مسلح افواج میں بھی موجود ہیں ۔اگرچہ کئی کمانڈر ان کا منہ بند رکھنے کے طرفدار تھے مگر حکومت نے DO NOT ASK DO NOT TELL پالیسی ترک کر دی اور وہ سب میدان میں آگئے ۔ پاکستان میں چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے ’’تیسری جنس‘‘ کے انسانی حقوق کا پاس کیا ہے اور ایسے افراد کو جو خواجہ سرا کہلاتے ہیں ووٹ کا حقدار قرار دیا ہے ۔انہوں نے حکومت کو بھی ہدایت کی ہے کہ جو مراعات اور سہولتیں عام شہر یوں کو مہیا کی جاتی ہیں‘ وہ خواجہ سراؤں کو بھی دی جائیں مگر یہ لوگ اب تک معاشرتی تضحیک کا نشانہ ہیں ۔امریکہ میں بھی ایسے لوگوں کو تشدد کا سامنا ہو تا ہے اور قانون ان کی داد رسی کرتا ہے ۔سپریم کورٹ کی رولنگ کے بعد واشنگٹن ( قومی دارالحکومت) میں گے اور ٹرانس جنڈر لوگوں پر کئی حملے ہوئے ۔ایک کو قتل کیا گیا‘ ایک کو گولی کا نشانہ بنایا گیا‘ ایک جنسی تشدد کا شکار ہوا اور ایک کو چاقو گھونپ دیا گیا ۔جنسی تشدد کی مزاحمت کر نے والی تنظیم کے نائب صدر حسن نویدکہتے ہیں کہ ایسے واقعات کی تشہیر ضروری ہے۔ لوگ ایسے لوگوں پر حملے کریں گے جن کو وہ کمزور خیال کریں گے۔ جو لوگ ہوش سنبھالنے پر جنسی طور پر اپنے آپ کو پیدائش سے مختلف پاتے ہیں عام طور پر transgender کہلاتے ہیں ۔انہیں قانونی تحفظ دیا جا رہا ہے ۔ ایسے مرد بھی پائے جاتے ہیں جو عورتوں کا لباس پہن کر شبینہ کلبوں اور نجی محفلوں میں ناچتے اور گاتے ہیں اور drag queen کہلاتے ہیں۔ ایک بار مقبول شریف مرحوم اپنی اہلیہ کے ہمراہ میرے ہاں آئے۔ چند روز قیام کے بعد میاں بیوی شکاگو جانے لگے تو میں نے تجویز کیا کہ وہاں افتخار (افتی) نسیم آباد و شاد ہیں ان سے مل لینا۔ اس پر مقبول نے افتی کو موٹی سی گالی دی اور بولے ۔میں ایسے لوگوں سے نہیں ملتا ۔افتی 1970ء کے شروع میں امریکہ آ گئے تھے۔ یہاں انہوں نے ہم جنسی کی تحریک میں نمایاں حصہ لیا۔ افسانے اور شعر لکھے ۔پاکستانی ادیبوں اور شاعروں کی میزبانی کی اور دو سال قبل حرکت قلب بند ہونے سے چل بسے ۔شکاگو میں وہ مرسیڈیز کاریں بیچتے تھے۔ ایک سکھ کے ساتھ رہتے تھے اور اسے اپنا لائف پارٹنر کہتے تھے مگر خواجہ سراؤں کی طرح انہوں نے کبھی زنانہ لباس نہیں پہنا ۔ایک بار انہوں نے کہا تھا۔ہماری تحریک بچوں سے زیادتی کرنے والوں کو تحفظ نہیں دیتی ۔ (تفصیل کے لیے دیکھیے ان کی کتاب ’’نرمان‘‘ شائع کردہ ’’ہم خیال‘‘ فیصل آباد)۔ ایف بی آئی کے ڈائرکٹر جے ایڈگر ہوور‘ جن سے ملک کے صدر بھی خوف کھاتے تھے‘ زنانہ صفات کے حامل سمجھے جاتے تھے اور کہا جاتا تھا کہ سونے سے پہلے وہ زنانہ لباس زیب تن کرتے اور آئینے میں اپنا دوسرا سراپا دیکھتے تھے۔ انہوں نے عمر بھر کوئی روائتی شادی نہیں کی۔ اب امریکہ میں تیسری جنس یا عورت مرد کا امتیاز اٹھتا جا رہا ہے اور زنخوں کو شادی بیاہ کے موقعوں پر بھیک مانگنے کی ضرورت نہیں ہے ۔بلکہ کسی کو زنخہ کہنا ہی قابل دست اندازی پولیس جرم ہے۔ ایک امریکی جس شکل اور لباس میں سامنے آئے وہ انسان اور معاشرے کا ایک قابل قدر رکن ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں