بھاگ ملِکھا بھاگ

ملکھا سنگھ لائل پور (فیصل آباد) کے مضافات میں پیدا ہوا تھا مگر بھارتی دوڑاک کی زندگی پر بننے والی فلم میں اس کی پیدائش کوٹ ادو مظفر گڑھ میں دکھائی گئی ہے ۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ فلمساز ہدایت کار راکیش اوم پرکاش مہرہ نے اپنی مصلحتوں اور تماشائیوں کی ضرورتوں کو مد نظر رکھا ہے مگر یہ ایک زمینی حقیقت ہے کہ 1960ء میں لاہور سٹیڈیم (قذافی سٹیڈیم) میں اس نے پاکستان کے گولڈ میڈلسٹ عبدالخالق کو سو میٹر کی دوڑ میں پچھاڑ کر صدر محمد ایوب خان سے The Flying Sikh کا خطاب حاصل کیا تھا جو بھارت میں اس کا nickname بن گیا اور یہ بیان فلم میں شامل ہے ۔ ملکھا سنگھ کا کردار فرحان اختر نے ادا کیا ہے اور اپنے ڈنٹر پٹھوں کے علاوہ جوہر قابل کا مظاہرہ بھی ۔فلم کا ٹائٹل ملکھا سنگھ کے باپ کے الفاظ ہیں جو مبینہ طور پر اس نے فرقہ ورانہ فسادات میں قتل ہونے سے پہلے کہے تھے۔ پنجابی اور ہندی (اردو) میں یہ فلم جس پر انگریزی ٹائٹل بھی تھے میں نے سنٹرل ول فیر فیکس میں دیکھی ۔شاید آپ کو یقین نہ آئے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ سنیما ہال میں میرے سوا کوئی نہیں تھا۔ جب میں ہال میں داخل ہوا تو فلم شروع ہوئے دس منٹ گزر چکے تھے ۔گویا فلم کا آغاز ناظرین کے بغیر ہوا تھا ۔حالانکہ فلم اتنی برُی نہیں تھی ۔اس علاقے میں بہت سے خوشحال بھارتی اور پاکستانی تا رکین وطن رہتے ہیں مگر سنیما والوں نے بتا یا کہ وہ غا لباً منگل سے آنا شروع کریں گے جب داخلے کا ٹکٹ تقریباً آدھا رہ جائے گا ۔ ملکھا سنگھ کے بارے میں بہت سے لطیفے عام ہیں ۔کہتے ہیں کہ ایک دوست نے اسے جمنا کے پُل پر دوڑتے ہوئے دیکھا تو روک کر پوچھا۔ ’’کیوں بھاگ رہے ہو ملکھا سیاں‘‘۔ اس نے جواب دیا۔ ’’ایک چور کا پیچھا کر رہا ہوں جو میرے کپڑے لے کر بھاگ گیا ہے‘‘ ۔ ’’اور چور کہاں ہے؟‘‘ دوست نے استفسار کیا۔ ’’وہ تو کہیں پیچھے رہ گیا ہے‘‘۔ ملکھا سنگھ نے جواب دیا۔ مصنف پراسون جوشی نے یہ تو نہیں ایک اور لطیفہ سکرین پلے میں شامل کر دیا ہے ۔ملبورن اولمپکس کے دوران ایک آسٹریلوی حسینہ نے انگریزی زبان میں ملکھا سنگھ سے پو چھا۔ ’’آج تو relaxing ہے؟‘‘ ملکھا نے جواب دیا۔ ’’جی نہیں‘ ملکھا سنگھ ای ایم ای سکندرآباد‘‘ اس پر کوچ نے ٹہوکا دیا۔ ’’وہ تمہارا نام اور سروس نہیں پوچھ رہی‘‘۔ وہ تیرہ سال کی عمر میں پاکستان سے بھاگا تھا اور چھبیس سال کی عمر تک بھاگتا رہا ۔اگرچہ ہدایت کار اسی تیرہ سال کی زندگی کو پیش کرنے کا دعویدار ہے مگر اس نے بر صغیر کے خونریز بٹوارے کو subplot بنا لیا ہے اور ملکھا سنگھ کی زندگی کو اسی کا نتیجہ قرار دیا ہے ۔حالانکہ یہ وہ وقت تھا جب نو زائیدہ سرحد کی دونوں جانب انسانوں نے بھیڑیوں کا روپ دھار لیا تھا اور یہ کہانی سعادت حسن منٹو‘ فیض احمد فیض‘ احمد ندیم قاسمی‘ احمد راہی‘ شوکت صدیقی‘ راجندر سنگھ بیدی‘ ساحر لدھیانوی‘ ابوالفضل صدیقی‘ کرشن چندر اور دوسرے اہل قلم نے معروضیت سے بیان کی ہے ۔مہرہ صاحب غیر جانبداری بر قرار رکھنے کی کوشش کرتے دکھائی دیتے ہیں ۔اسی ضمن میں وہ وزیر اعظم جواہر لعل نہرو کو صدر ایوب کا ایک ٹیلیفون وصول کرتے دکھاتے ہیں جس میں وہ پاکستان اور بھارت کے درمیان فرینڈشپ گیمز کا ’’پرستاؤ‘‘ منظور کرتے ہیں۔ لاہور میں بین الاقوامی کھیلوں کا اہتمام ہوتا ہے ۔ بھارتی ٹیم فلیٹیز میں قیام کرتی ہے ‘ ملکھا سنگھ پریس کانفرنس میں اپنی کرسی خالی چھوڑ کر ایک موٹر سائیکل پر اپنے آبائی گا ؤں پہنچتا ہے اور اپنے یارسے ملتا ہے جسے ایک مولوی صاحب نے پالا ہے اور شادی کی ہے۔ دوست‘ دوست سے کہتا ہے لوگ نہیں بعض اوقات حالات بُرے ہوتے ہیں ( اور سن سنتالیس جیسا قتل عام اور تبادلہ آبادی ہو تا ہے ) چند سال قبل میں نے واشنگٹن سے نئی دہلی فون کیا اور خوشونت سنگھ سے پوچھا ۔آپ لاہور میں منظور قادر کے ہمراہ قانون کی پریکٹس کرتے تھے ۔کیا کانگرس اور مسلم لیگ کے لیڈروں کے علم میں تھا کہ اس بڑے پیمانے پر تبادلہ آبادی ہونے والا ہے تو انہوں نے نفی میں جواب دیا ۔کہنے لگے ۔محمد علی جناح میرے والد کے دوست تھے۔ انہوں نے مشورہ دیا تھا کہ خوشونت بیرسٹری کرکے وطن واپس آئے تو اسے لاہور میں رہنے دینا۔پاکستان بننے والا ہے ۔ہم اس سے کچھ کام لینا چاہیں گے۔میں 2007ء میں نئی دہلی گیا تو سجھان سنگھ پارک میں خوشونت کے گھر بھی گیا اور انہوں نے ایک بار پھر اپنے بیان کی تصدیق کی مگر زیر نظر فلم کے بر عکس دونوں ملکوں میں ’’فرینڈشپ گیمز‘‘ کا دور نہایت مختصر رہا اور ہمسایہ قوموں میں دو بڑی جنگیں ہوئیں جو ظاہر ہے اس فلم کا موضوع نہیں ہو سکتی تھیں ۔ فلم میں غیر مسلموں کے قتل‘ لاشوں میں چُھپ کر ملکھا سنگھ کا فرار‘ شرنارتھی کیمپوں میں اس کی آوارگی‘ چوری اور مار دھاڑ کی وارداتوں میں شرکت‘ ننگے پاؤں بھاگنے کی عادت‘ بہن کا پیار‘ سرکاری نلکے پر پانی بھرنے میں مصروف ایک لڑکی سے اس کا عشق‘ اس کے کہنے پر جرائم سے توبہ‘ انڈین آرمی کے بلیزر کی چاہت‘ گاندھی جی کے یوم پیدائش کی طرح اپنی کامیابی پر قومی تعطیل کے اعلان پھر ٹوکیو‘ کارڈفف‘ روم‘ ملبورن اور لاہور میں اس کی کامیابیوں کے واقعات تفصیل سے بیان کئے گئے ہیں ۔ اس کا ماٹو ہے۔ ’’زندگی سے مت بھاگو‘ زندگی کے ساتھ بھاگو‘‘۔ یہ بالی وڈ میں پاکستانی گلوکارہ ’ ماڈل’ اداکارہ میشا شفیع کا آغاز بھی ہے جس نے انڈین جل پری (اولمپک تیراک)کا مختصر کردار ادا کیا ہے ۔ ایک گانے میں عارف لوہار کی آواز بھی سنی جا سکتی ہے ۔جونئیر ملکھا سنگھ کا کردار بھی بڑی اہمیت رکھتا ہے جو ماسٹر جبتیج سنگھ نے بچگانہ مہارت سے پیش کیا ہے ۔ پاکستان آرمی کے عبدالخالق کا کردار ایک بھارتی اداکار دیو گلِ ادا کرتے ہیں ۔ یادش بخیر ’ عبدالخالق نے (منیلا اور ٹوکیو) 1954 ء اور1958 ء کے ایشیائی کھیلوں میں حصہ لیا اور سونے کے دو‘ چاندی کے دو اور کانسی کا ایک تمغہ جیت کے لایا ۔ اسے ایشیا کا تیز ترین انسان سمجھا جاتا تھا۔ اس نے ملبورن اور روم اولمپکس میں بھی پاکستان کی نمائندگی کی تھی مگر ملکھا سنگھ کی طرح نا کام رہا تھا۔ بین الاقوامی کھیلوں کے مقابلے نظر نواز ہیں اور ان کی فٹ ایج بڑی خوبصورتی سے کہانی میں مدغم کی گئی ہے۔ ملکھا سنگھ اب تک واحد بھارتی مرد ہے جس نے کامن ویلتھ گیمز میں ایک انفرادی مقابلے میں سونے کا تمغہ جیتا ہے ۔وہ ٹوکیو اور جکارتہ کے ایشائی کھیلوں میں بھی بھارت کے لیے سونا لایا ہے ۔ چار سو میٹر کی دوڑ میں حصہ لینے کے لیے وہ ملبورن اولمپکس میں شامل ہوا مگر وکٹری سٹینڈ تک پہنچنے میں ناکام رہا۔ فلم میں ہم اسے اپنے منہ پر چپت مارتے اور مداحوں سے بیزاری کا اظہار کرتے دیکھتے ہیں ۔ تاہم وہ مانتا ہے کہ اس ایونٹ میں اول رہنے والے امریکی چارلس جنکنز سے اس نے بہت کچھ سیکھا ۔اس نے روم اولمپکس میں بھارت کی نمائندگی کی اور نئی دہلی نے اسے پدما شری سے نوازا جو بھارت کا چوتھا بڑا سویلین ایوارڈ ہے مگر اس نے ارجن ایوارڈ لینے سے انکار کر دیا۔ اس کے الفاظ تھے کہ یہ اعزاز نوجوان کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کے لیے ہے اور اُس کی عمر کے کھلاڑیوں کی عزت میں اضافہ نہیں کرتا۔ یہ اپنی قدر کھو چکا ہے۔ فلم میں ایسے منفی تاثرات کی گنجائش نہیں تھی ۔ فلمی ملکھا سنگھ ایک ماہر رقاص اور ایک مشاق گلو کار ہے ۔وہ آئٹم سانگ بھی کرتا ہے جو ہندوستانی سیکولر ازم کی بھرپور ترجمانی کرتا ہے۔ ’’میرا یار ہے رب ورگا‘ دلدار ہے رب ورگا‘ عشق کروں یا کروں عبادت‘ اکو ای گل اے۔ میں مسجد کیوں جاواں‘ میرا یار ہے رب ورگا‘ میں مندر کیوں جاواں‘ میرا یار ہے رب ورگا۔ الف اللہ‘ اللہ‘ اللہ ہُو‘‘۔ جب میں سنیما ہال میں داخل ہوا ملکھا سنگھ مردانہ رقص کے ایک گانے کی قیادت کررہا تھا۔ ’’ہون کُنڈ مستوں کا جُھنڈ‘‘ خبریں بتاتی ہیں کہ گوا میں کچھ ہندو تنظیموں نے اس گیت کے خلاف مظاہرے کیے اور اس میں ہون کنڈ کے الفاظ کا استعمال اور ہیرو کی حرکات کو فحش قرار دیا ۔ یہ فلم بارہ جولائی کو امریکہ‘ ہندوستان اور باقی دنیا میں ریلیز کی گئی اور میں نے اس کا دوسرا شو دیکھا ۔خبروں سے پتہ چلتا ہے کہ مسز سنگھ (نرمل کور ) نے ویل چیر پر یہ فلم دیکھی ۔وہ ہندوستانی والی بال ٹیم کی سابق کپتان ہیں ۔ جوڑے نے تین بیٹیوں اور ایک بیٹے کو جنم دیا اور ایک بیٹا گود لیا ۔جیو ملکھا سنگھ نے اس فلم کی تشکیل میں فلمساز ہدایتکار کی امداد کی۔ ملکھا سنگھ‘ پنجاب گورنمنٹ کے سپورٹس بورڈ کے ڈائریکٹر رہے ہیں ۔اب وہ چنڈی گڑھ میں ریٹائرڈ زندگی گزار رہے ہیں ۔سکرپٹ رائٹر نے صحیح کہا ۔یہ فلم ملکھا سنگھ کی زندگی کی عکاس نہیں‘ ان کی زندگی کی تا ویل ہے۔ پاکستانی امریکی محسن حمیدکے ناول The Reluctant Fundamentalist اور بھارتی برطانوی سلمان رشدی کی تحریرMidnight\'s Children پر مبنی بالی وڈ فلموں کی نمائش کے بعد یہ تیسری بھارتی فلم ہے جوتین ماہ کے اندر عام امریکی سنیما گھروں میں نمائش کے لئے پیش کی گئی ہے۔ بھارت جو فلمسازی میں ہالی وڈ کو پیچھے چھوڑ گیا ہے اب امریکی فلم مارکیٹ پر تسلط جمانے کی کوشش کر رہا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں