ظالم اور مظلوم

نواز شریف‘ وزیر اعظم کی حیثیت سے دوسری بار واشنگٹن میں تھے اوران کے چار دن کے سرکاری دورے سے بڑی بڑی امیدیں وابستہ کی جا رہی تھیں۔ اس سفر سے دونوں ملکوں کے تعلقات مبینہ طور پر اور زیا دہ مضبوط ہوئے مگر ڈرون حملوں کو بند کرنے اور کشمیر کے مسئلے کے حل میں امداد کی امریکی یقین دہانی کا خواب شرمندۂ تعبیر نہ ہوا؛ تاہم چودہ سال پہلے جب نوازشریف‘ یوم آزادی کی تعطیلات کے دوران امریکہ آ ئے تو کلنٹن وائٹ ہاؤس نے انہیں ظالم سمجھا تھا جب کہ اوباما وائٹ ہائوس نے انہیں مظلوم جانا ہے ۔ وزیر اعظم شریف اور صدر اوباما کی ملاقات کوئی دو گھنٹہ جاری رہی۔اوباما نے ’’فی البدیہہ‘‘ بات چیت کا خلاصہ ا خبار نویسوں کے سامنے رکھا اور شریف نے لکھے ہوئے تاثرات پڑھ کر سنائے مگر دونوں نے سوالوں کے جواب دینے سے معذرت کی؛ البتہ تھوڑی دیر بعد نوازشریف نے اردو میں صدر اوباما سے اپنے مذاکرات کا نتیجہ بتایا اور واپسی کی جلدی کا حوالہ دیتے ہوئے ایک دو سوالوں کے جواب دینے پر اکتفا کیا۔ اُن کے بیان سے ظاہر ہوتا تھا کہ صدر سے گفتگو کے دوران انہوں نے کشمیر‘ ڈرون اور عافیہ صدیقی سمیت وہ تمام مسائل اٹھائے جو اہل پاکستان کو عزیز تھے مگر کھل کر یہ نہیں بتایا کہ اوباما کا جواب کیا تھا ۔عمومی طور پر وزیراعظم کا کہناتھا کہ بات چیت مثبت رہی اور امریکہ نے پاکستان کی علاقائی سالمیت اور خود مختاری کے احترام کا یقین دلایا ہے ۔ مورخ ٹیلر برانچ نے صدر کلنٹن سے 79نشستوں میں انٹرویو کرنے کے بعد The Clinton Tapesکے نام سے 620 صفحے کی جو کتاب لکھی ہے اس میں وہ کہتے ہیں۔ ’’صدر نے کشمیر کے بارے میں میرے سوال کو تلپٹ کر دیا ۔نہیں‘ اخباری اطلاعات کے برعکس انہوں نے نواز شریف کو مدعو نہیں کیا تھا مگر سنگین مذاکرات پر واشنگٹن پوسٹ کی ایک خبر‘ ہولناک صداقت کا واضح عندیہ تھا۔ نوازشریف نے ہنگامی صلاح مشورے کے لیے خود کو مدعو کیا تھا اور کلنٹن نے دو ٹوک الفاظ میں انہیں ہدایت کی تھی کہ وہ نہ آئیں۔ ’’آپ کی فوج غلط جگہ پر ہے‘‘ انہوں نے شر یف کو بتا یا تھا کہ وہ‘ دونوں متحارب فریقوں کی رضا مندی کے بغیر ‘کشمیر کے معاملے میں ثالثی نہیں کر سکتے تھے اور بھارتیوں کے نزدیک ثالثی کے لئے کچھ نہیں تھا۔ وہ فوجی لحاظ سے جیت رہے تھے اور کشمیر ہندوستان کا جزو تھا ۔بس‘‘ یہ بیان ہے کارگل پر جنرل پرویز مشرف کی فوج کشی کا جنہوں نے چند ماہ بعد وزیر اعظم نواز شریف کوبرطرف کرکے ملک کا اقتدار سنبھال لیا تھا اور یہ بحث اٹھ کھڑی ہوئی تھی کہ کارگل پر حملہ‘ جس نے دونوں ملکوں کو ایٹمی جنگ کے دہانے پر لا کھڑا کیا‘ نوازشریف کی اجازت سے کیا گیا تھا۔ برانچ لکھتے ہیں۔ ’’وائٹ ہاؤس میں استقبال کرنے کی بجائے کلنٹن نے سڑک کے پار بلیئر ہاؤس کی لائبریری میں نوازشریف سے ملاقات کی اور اپنا موقف کند طریقے سے سامنے رکھ دیا اگر نوازشریف نے کشمیر سے اپنی فوجیں واپس بلائیں تو امریکہ اس اقدام کی تعریف کئے بغیر صورت حال پر اطمینان کا اظہار کرے گا۔ بالآخر کلنٹن نے دونوں طرف کے مدد گاروں کو باہر نکا لا اور تنہائی میں نوازشریف سے نبرد آزما ہوئے۔ انہوں نے کہا: ’’یہ سرحدی جھڑپوں سے بد تر ہے‘ کشمیر اب بھی بڑی حد تک کرہ ارض پر جوہری جنگ کے لئے دھماکہ خیز Flash Point ہے 1962ء کے کیوبا میزائل بحران سے بھی بڑھ کر جب امریکہ اور سوویت یونین نے دنیا کو تقریباً بھک سے اڑا دیا تھا ۔اس وقت لیڈروں کو ایک دوسرے کی جوہری صلاحیتوں کا علم تھا جب کہ آج پاکستان اور ہندوستان کو ایک دوسرے کی حربی طاقت معلوم نہیں۔ نوازشریف نے کشمیر کا سارا ملبہ مشرف پر ڈال دیا ‘‘۔ نواز شریف نے واشنگٹن کے سفر پر روانہ ہوتے ہوئے کہا تھا: اگر امریکہ چاہے تو وہ کشمیر کے مسئلے کے حل میں امداد کر سکتا ہے۔ جب پاکستان نے شملہ میں اسے دو طرفہ معا ملہ مانا اور اس کے عوض بھارت نے اسی ہزار جنگی قیدی رہا کئے‘ امریکہ اس مسئلے کے حل میں امداد کی پیش کش کیوں کر ے گا ؟ لائن آف کنٹرول پر ایک بار پھر کشیدگی ہے اور امریکہ اس پر تشویش کا اظہار کر چکا ہے ۔اسے اطمینان ہے کہ اس کشیدگی کو دور کرنے کے لئے دونوں ملکوں کے فوجی حکام ملاقات کر رہے ہیں۔ نوازشریف ایک کاروباری شخصیت ہیں ۔وہ بھارت سے جنگ پر تجارت کو ترجیح دیں گے اور انہوں نے اوبامہ سے ملاقات میں اپنا مقولہ ’’ایڈ نہیں ٹریڈ‘‘ دہرایا۔ شریف کا سب سے بڑا مسئلہ امن و امان سے تعلق رکھتا ہے سلامتی و حفاظت کی یقین دہانی کے بغیر سرمایہ کاری ممکن نہیں اور سرمایہ کاری کے بغیر موجودہ اقتصادی بحران سے نجات پانا محال ہے ۔ امریکہ نے شریف کے خیر مقدم میں پاکستان کی سول اور فوجی امداد بحال کر دی ہے مگر کشمیر میں ثالثی اور ڈرون حملوں کو روکنے سے متعلق وہ ان کے مطالبات تسلیم کرنے کا اعلان کرنے سے قاصر رہا۔صدر اوباما سے شریف کی ملاقات سے ایک دن پہلے دو رپورٹیں شائع ہوئیں جو ڈرون ٹیکنالوجی کے امریکی استعمال کے خلاف پاکستان کا کیس مضبوط کر تی تھیں ۔ ہیومن رائٹس واچ نے یمن اور ایمنسٹی انٹرنیشنل نے پاکستان میں اس ٹیکنالوجی کے استعمال پر نکتہ چینی کی تھی اور کہا تھا کہ اس کے ذریعے سویلین جانی نقصان قانون کے منافی ہے ۔وائٹ ہاؤس نے شام ہونے سے پہلے امریکی تھنک ٹینکس کی ان رپورٹوںکو رد کر دیا ۔امریکہ ایسی کسی رپورٹ یا قرارداد کو تسلیم نہیں کرتا جسے وہ اپنے مفاد کے منافی خیال کرتا ہے ۔ وہ اقوام متحدہ کی اس فوجداری عدالت کو بھی نہیں مانتا جو دوسرے ملکوں میں امریکی سپاہیوں کی سرگرمیوں کی بنا پر مقدمے چلا سکتی ہے ۔ البتہ وہ‘ افغانستان سے نکلنے سے پہلے طالبان سے امن کی بات کرنا چاہتا ہے اور اس معاملے میں پاکستان کے تعاون کا خواستگار ہے۔ نوازشریف نے آل پارٹیز کانفرنس کے حوالے سے اوباما کو بتایا ہے کہ پاکستان طالبان سے امن کی بات کرے گا ایسا لگتا ہے کہ نوازشریف اتمام حجت چاہتے ہیں اور خیبر پختونخوا کے لیڈر عمران خان اور دوسرے مذاکرہ پسند بھی بالآخر باغیوں کی سر کوبی میں ان کا ساتھ دیں گے ۔ برانچ کے بیان سے ظا ہر ہوتا ہے کہ امریکی پروٹوکول کی علامات معنی خیز ہیں ۔صدر اوباما اور نواز شریف کی بات چیت کے بعد دونوں ملکوں کی جانب سے کوئی مشترکہ اعلامیہ جاری نہیں کیا گیا نہ پاکستانی مہمان کو وائٹ ہاؤس میں سٹیٹ ڈنر دیا گیا۔ کیری کا لنچ اور نائب صدر جو بائڈن کا ناشتہ ایک ریاستی ضیافت کا نعم البدل نہیں تھا ۔کانگرس کے دونوں ایوانوں کے مشترکہ اجلاس سے نوازشریف کا خطاب تو دُور کی بات تھی انہیں ایوان کی خارجہ تعلقات کی کمیٹی کا فورم مل گیاجس کے ارکان نے وزیراعظم پر سوالوں کی بوچھاڑ کر دی ۔ وہ ڈاکٹر شکیل آفریدی کی رہائی چاہتے تھے ۔وہ جاننا چاہتے تھے کہ پاکستان ان فوجیوں کو روکنے کے لئے کیا کر رہا ہے جو ڈیورنڈ لائن پار کرکے افغانستان میں داخل ہوتے ہیں اور نیٹو پر حملے کرکے واپس اپنی امان گاہوں میں آ جاتے ہیں ۔ امریکہ کو معلوم ہے کہ افغانستان میں ملا محمد عمر کی حکومت کو تسلیم کرنے کے با وصف‘ پاکستان ان سے ڈیورنڈ لائن کو بین الاقوامی سر حد نہیں منوا سکا ۔جان کیری نے محکمہ خارجہ میں نواز شریف کے اعزاز میں جو ڈنر دیا اس میں ڈرون حملوں کی ذمہ دار سول ایجنسی (CIA)کے سربراہ جان برینن موجود تھے۔ عین اسی وقت دہشت پسندوں نے جعفر ایکسپریس میں دھماکہ کرکے سات مسافروں کو مار ڈالا اس لئے امریکی وزیر خارجہ اور پھر صدر کا پاکستانی وزیراعظم سے یہ کہنا کہ ہم دہشت گردوں کے خلاف مل کر اقدامات کرتے رہیں گے‘ بے جا نہیں ہو سکتا۔ امریکہ مانتا ہے کہ ڈرون حملوں سے انتہا پسندوں کے علاوہ بہت سے سویلین بھی مارے گئے ہیں مگر وہ ان کارروائیوں کو کم کرنے اور ان میں غیر جنگجو افراد کا جانی زیاں محدود کرنے کے سوا کچھ نہیں کر سکا۔ اسے معلوم ہے کہ دہشت گردی کے خلاف کارروائیوں میں ہزاروں پاکستانی جاں بحق ہوئے اور ہو رہے ہیں اس لئے وہ پاکستان کے وزیر اعظم کو مظلوم گردانتا ہے اور پاکستان کو دہشت کاری کے خلاف لڑنے والے اتحادیوں میں شمار کرتا ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں