دلدوز تصویریں

جس روز ریاض سے یہ خبر آئی کہ سعودی عرب میں عورتوں کی ڈرائیونگ پر پابندی شریعت اسلامی کاجز ونہیں بلکہ معاشرتی تقاضوں کا شاخسانہ ہے واشنگٹن میں سعودیہ کی پہلی فیچر فلم ’’وجدہ‘‘ نمائش کے لئے پیش کی گئی جو ظاہر کرتی ہے کہ عرب معاشرہ بدل رہا ہے ۔اواخر ہفتہ کوئی ساٹھ سعودی عورتوں نے ڈرائیونگ پر پابندیوں کے خلاف مظاہرہ کرتے ہوئے ڈرائیونگ کی۔ان میں سے سولہ کو پکڑا گیا اور جرمانے کی سزا دی گئی ۔ مجلس شوریٰ کی رکن تین خواتین اس مظاہرے کی حمایت کر رہی ہیں ۔اس سال انسانی حقوق کے سات کارکنوں کی سزا یابی بھی عرب معاشرے کے اندرونی خلفشار کا پتہ دیتی ہے ۔اسی دوران تبدیلی کی ایک اورخبر آگئی۔ ’’سعودیہ میں پہلی خاتون کو عدالت میں قانون کی پریکٹس کرنے کا لائسنس جاری کر دیا گیا ہے‘‘۔ پہلی بار سلامتی کونسل کی ایک عارضی نشست جیتنے کے بعد جگہ سنبھالنے سے سعودی انکار میں بھی تبدیلی کا امکان دیکھا گیا ہے۔ وہ امریکہ سے اُس کی ایران اور شام کی پالیسیوں پر ناراض ہے۔ ’’وجدہ‘‘ سعودی فلم کی دس سالہ ہیروئن کا نام ہے جو بہت سے ایسے کام کرتی ہے جو اس کے ملک میں ممنوع ہیں‘ مثلاً لڑکی ہو کر لڑکوں کے ساتھ کھیلنا‘ عبایا پہنے بغیر سکول جا نا یا سر کے بال کھولے گھر سے باہر نکلنا‘ ناخن پر نیل پالش لگانا اور ایک بائیسکل کی خواہش کرنا ۔ اس خواہش کی تکمیل کے لئے وہ چیزیں بناتی ہے اور بیچتی ہے۔ سہیلیوں سے قرض لیتی ہے اور ماں کے چھپائے ہوئے ریال ڈھونڈ نکالتی ہے مگر چوری کے ڈر سے انہیں واپس رکھ دیتی ہے ۔ اس کا معصوم دوست عبداللہ اسے اپنی سائیکل چلانے کے مواقع مہیا کرتا ہے مگر اس کی تشفی نہیں ہوتی ۔ وہ نئی سائیکل کی واحد مالک بننا چاہتی ہے ۔وہ کوئی اچھی طالبہ نہیں ہے پھر بھی سائیکل کی حسرت میں سبق پر دھیان دیتی ہے اور قرأنی علوم کا ایک مقابلہ جیت لیتی ہے ۔ جب مقابلے کی منتظمہ وجدہ سے پوچھتی ہے کہ وہ انعامی رقم کا کیا کرے گی؟ تو وہ اسے اپنی خواہش سے آگاہ کرتی ہے ۔منتظمہ کہتی ہے ’’ہمارا خیال تھا کہ تم یہ رقم بے گھر فلسطینیوں کے فنڈ میں دے دو گی‘‘۔ بادل نخواستہ وہ ایسا ہی کرتی ہے مگر گھر پہنچنے پر اسے باپ کا پیار ملتا ہے اور ماں جذباتی ہو کر اسے نیا بائیسکل خرید دیتی ہے ۔فلم کا آخری منظر دل گداز ہے ۔ وجدہ اور عبداللہ ’ سعودی شہر میں اپنی اپنی سائیکل دوڑاتے دکھائی دیتے ہیں ۔ عرب معاشرے بالخصوص اس کی خواتین پر کئی فلمیں ’ مغرب میں ریلیز ہوچکی ہیں مگر وجدہ پہلی فلم ہے جو سعودی مصنف اور ہدایت کار حیفہ المنصور نے اپنے ملک میں بنائی اور شوٹنگ کے احکامات ایک ٹرک میں چھپ کر دیے کیونکہ عرب مرد ایک عورت کو ہدایات دیتے گوارا نہیں کر سکتے تھے ۔ وجدہ کی آرزو علامت ہے ٹرانسپورٹ کے معاملے میں عورتوں کے خود کفیل ہونے کی ۔حیفہ نے کہانی میں وجدہ کے باپ کی طرف بھی اشارہ کیا ہے جو کبھی کبھار اپنے گھر آتا ہے اور بیوی سے کہتا ہے کہ وہ اسے اولاد نرینہ کیوں نہیں دیتی؟ آخری منظر میں جب وجدہ کی ماں’ بیٹی کی سر فرازی پر جذباتی ہو رہی ہوتی ہے وہ اپنے شوہر کی دوسری شادی کی طرف بھی اشارہ کرتی ہے جسے پہلی بیوی اچھی سعودی عورتوں کی طرح چپ چاپ برداشت کرتی ہے ۔ واد محمد (وجدہ) ریم عبداللہ (ماں) اور عبداللہ (عبدالرحمان الجوہانی) وغیرہ سب عربی اداکار ہیں اور اس فلم کو حکمرانوں کی خاموش منظوری بھی حاصل ہے ۔متحدہ عرب امارات کے وزیر اعظم محمد بن رشید المکتوم کے صاحبزادے شیخ منصور نے دوبئی کے بین الاقوامی فلمی میلے میں اول رہنے پر واداور ریم کو ایوارڈ پیش کئے۔ یہ فلم بہت سے بین الاقوامی ایوارڈ جیتنے کے بعد امریکی دارالحکومت میں ریلیز کی گئی ہے۔ فلم کی زبان عربی ہے جس کا انگریزی ترجمہ ساتھ ساتھ چلتا ہے۔ قران حکیم کی تلاوت بالخصوص سورۃ نسا ٔکی تجوید مسلم سینما بینوں کے فہم کی رسائی میں ہے ۔فلم سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستانی تارکین وطن سعودی معاشرے کا لازمی جزو ہیں اگرچہ اب ان کے اقامہ کی میعاد دو سال سے گھٹا کر ایک سال کردی گئی ہے ۔ ہر چند کہ سعودی عرب میں تیل کے مشرقی صوبے منطقۃ الشرق میں ایک دو سینما گھروں کے سوا کوئی نمائش گاہ نہیں‘ واشنگٹن میں یہ فلم تین ماہ سے چل رہی ہے ۔ دوسری فلم جو واشنگٹن میں دیکھی گئی دستاویزی ہے اور پاکستان کے ایک معاشرتی مسئلے کا احاطہ کرتی ہے۔Outlawed In Pakistan ہندوستان کا مسئلہ بھی ہے ۔ یہ عورتوں سے اجتماعی زیادتی سے تعلق رکھتی ہے۔ یہ کائنات سومرو کی کہانی ہے جسے چار مردوں نے ہوس کا نشانہ بنا یا اور جو چپ رہنے کی بجائے اپنا مقدمہ عدالتی نظام کے سامنے لے گئی ۔وہ کہتی ہے کہ ’’جینے کو دل نہیں چاہتا۔ یونہی مر گئی تو لوگ کہیں گے کہ لڑکی خراب تھی ۔میں ان لوگوں کو سزا دلوانا چاہتی ہوں‘‘۔ یہ دستاویزی فلم سین ڈیگو کیلے فورنیا کے فلم فیسٹیول کے Sundance مقابلے میں پیش کی گئی تو اس کو زبردست پذیرائی ملی۔ فلمساز حبیبہ نوشین اور ہائک شلمن کہتی ہیں کہ ہم نے انصاف کے اس سفر میں کائنات کا تعاقب کیا مگر یہ دیکھ کر حیران اور پریشان ہوئیں کہ اسے انصاف نہ ملا۔ Saving Faceگو کسی سنیما گھر میں دکھائی نہیں دی مگر بہت سے مغربی ٹیلی وژن نیٹ ورکس نے اس دستاویزی فلم کو نشر کیا ہے۔ یہ ایک اور مسئلے کا احاطہ کرتی ہے ۔ہر سال سینکڑوں عورتوں کے چہرے پر تیزاب پھینک کر انہیں عمر بھر کے لئے بدصورت اور ا پاہج کر دیا جا تا ہے۔ مجرم قصور وار ثابت ہونے پر بھی معمولی سزا پاتا ہے ۔شرمین عبید چنائے نے اس موضوع پر یہ فلم بنائی اور اس نے2012 ء کا اکیڈمی ایوارڈ جیت لیا ۔پاکستان میں با لعموم غیرت کے نام پر عورتوں کا چہرہ مسخ کیا جاتا ہے ۔ باپ‘ شوہر‘ بھائی یا کوئی اور قریبی رشتے دار غیرت کے نام پر خود کُشی کرنے کی بجائے نہتی عورت پر حملہ کرتا ہے ۔ ملالہ یوسف زئی‘ جسے صدر اوباما نے وزیر اعظم نواز شریف سے پہلے ملاقات کا موقع دیا‘ بہت سی دستاویزی فلموں کا موضوع ہے۔ اسے امن کے نوبل انعام کے لئے نامزد کیا گیا تھا ۔وہ یہ انعام جیتنے میں ناکام رہی۔ اس کی ناکامی پر مسرت کا اظہار صرف طالبان نے کیا ۔ حملے سے جانبر ہونے پر وہ ساری دنیا کی آنکھ کا تارا بن گئی ہے کیونکہ وہ لڑکیوں کی تعلیم کا پرچار کرتی ہے ۔طالبان اس کے مشن کو خلاف اسلام قرار دیتے ہیں مگربختاور بھٹو زرداری نے ٹویٹ کیا کہ وہ ملالہ کو اپنا آئندہ وزیر اعظم دیکھنا چاہیں گی اور فاطمہ بھٹو نے ملالہ کی کتاب پر برطانوی اخبار گا رڈین میں تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ عربی زبان میں اسم ’’الثورۃ (انقلاب)‘‘ کا صیغہ تانیث ہے ۔ ملالہ نے بڑے اعتماد سے اقوام متحدہ سے خطاب کیا اور یورپی یونین کا انسانی حقوق کا ایوارڈ جیتا ۔اس نے اپنی سوانح عمری‘ ملکہ برطانیہ کو بھی پیش کی ۔وہ پہلے ہی کہہ چکی تھی کہ نوبل انعام اس کے قد سے بڑا ہے ۔اس کے مقابلے میں تین روسی عورتیں اور یورپ کی ایک سابق وزیر اعظم تھیں ۔افریقہ‘ چین اور لاطینی امریکہ کے آدمی تھے۔ نوبل انعام کیمیائی ہتھیاروں کے وجود کی مخالفت کرنے والی بین الاقوامی تنظیم کو دے دیا گیا جس نے حال ہی میں شام کے اندر بے پناہ کامیابی حاصل کی اور خانہ جنگی میں مبتلا مشرق وسطی کے ملک میں امریکی فوجی مداخلت کا راستہ روکا ہے۔ 9 اکتوبر 2012 ء کو سکول سے گھر جاتے ہوئے وین میں ملالہ پر جو فائرنگ ہوئی۔ اس سے اس کی دو سہیلیاں بھی زخمی ہو گئی تھیں ۔ شازیہ رمضان (15) اور کائنات ریاض (17) کو بھی برطانیہ نے سیاسی پناہ دی ہے اور ویلز کے ایک تاریخی کالج میں فل سکالرشپ پر میڈیکل میں ان کی تعلیم کا بندوبست کر دیا ہے ۔ملالہ کہتی ہے کہ وہ بھی لڑکیوں کی تعلیم کے فروغ کی مہم میں شریک ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں