دل برداشتہ ‘داؤد رہبر

داؤد رہبر(2013ء۔1926ء) ‘ مذاہب کے تقابلی مطالعے کے استاد تھے ۔ وہ انگلستان‘ کینیڈا اور ترکیہ کے علاوہ ہارٹ فورڈ سیمنری اور بوسٹن یونیورسٹی میں پڑھاتے رہے مگر جب لمز (Lahore University of Management Systems)نے انہیں اس مضمون پر لیکچر کی دعوت دی تو طرح دے گئے ۔مضامین کے مجموعے ’’تسلیمات‘ حصہ اول‘‘ میں لکھتے ہیں۔ ’’جس آزاد خیالی سے یورپ اور امریکہ کی یونیورسٹیوں میں مذاہب کا تقابلی مطالعہ کیا اور کرایا جاتا ہے پاکستان تو کیا‘ بھارت کی یونیورسٹیاں بھی ابھی اس کے لئے تیار نہیں‘‘۔ ان کے بیان کی تصدیق‘ پروفیسر ڈاکٹر عبدالرشید کے مقالے سے ہوتی ہے جو کراچی یونیورسٹی کے شعبہ علوم اسلامی کے چیئرمین تھے ۔پانچ سو چوالیس صفحات پر مشتمل‘ ادیان و مذاہب کا تقابلی مطالعہ‘ جو کراچی سے شائع ہوا‘ یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ مصنف کا عقیدہ ہی سب مذاہب سے افضل و اعلیٰ ہے ۔بلا شبہ ہر فرد کو اپنا مذہب دوسرے تمام ادیان سے زیادہ عزیز ہوتا ہے مگر یہ مذاہب کے تقا بلی مطالعے کا موضوع نہیں ہو سکتا ۔ رہبر نے چھپن سال پہلے لکھا تھا۔ ’’ہمیں ا حساس کرنا چاہیے کہ تمام دنیا میں مذہب‘ خواہ وہ کسی شکل میں ہے‘ وجودِ انسانی کے مفید ترین لوازم میں سے ہے اور جب ہم اسلام کی فضیلت کی تثبیت کرتے ہیں تو ہمارا فرض ہے کہ ہمارا موازنہ دوسرے مذاہب کے علم پر مبنی ہو نہ کہ ان کے متعلق بے خبر رہ کر‘‘۔ مسلمانوں میں مسلک پر سوال اٹھانے والے شروع ہی سے موجود رہے ہیں جو معتزلہ کہلاتے ہیں اور امریکی اصطلاح کے مطابق انہیں Conscientious Objectors کہا جائے گا ۔ان میں منصور‘ سرمد‘ شمس اور رومی سے لے کرسر سید احمد خان‘ سر محمد اقبال‘ ابو الکلام آزاد اور محمد علی جناح تک ہزاروں لوگ شامل ہیں ۔اردو‘ فارسی اور عربی کے کئی شعرا نے تو کھلم کھلا نظریاتی بغاوت کا اعلان کیا ۔ ڈاکٹر رہبر کی علمی زندگی میں 2جنوری 1958 ء بڑی اہمیت رکھتی ہے ۔اس روز لاہور میں بین الاقوامی اسلامی مذاکرہ ’Colloquium‘ ہوا اور انہوں نے اہل علم کے اس عالمی اجتماع میں ایک مقالہ پڑھا جس کا عنوان تھا \'The Challenges of Muslim Ideas and Social Values to Muslim Society\'اس پر علامہ علائو الدین صدیقی اور بعض دوسرے شرکاء بھڑک اٹھے اور انہوں نے مقالہ نویس کو ڈائس پر واپس جاکر اپنے نکات کی وضا حت کا موقع تک نہ دیا ۔ان برسوں میں یہ تاریکی اور بڑھی ہے اور قانون ساز ادارے انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین میں ترمیم کی مخالفت کرتے ہیں ۔یہ مقالہ ان کی اردو تصنیف’ تسلیمات 2‘ میں شامل ہے ۔یہ مضمون دقیق‘ تکنیکی زبان میں لکھا گیا ۔اس میں انہوں نے قرآن حکیم کا ایک ایسا متن بنانے کی اہمیت پر زور دیا تھا جس میں سورتوں کی ترتیب‘ ان کے نزول کی تاریخوں کے مطابق ہو تاکہ وہ پیغمبر اسلامﷺ کی حیات ستودہ صفات پر زیادہ بہتر روشنی ڈال سکے اور آج کل کے مورخین کا راہنما ہو۔ ڈیر فیلڈبیچ‘ فلوریڈا کی ایک محفل میں ڈاکٹر رہبر سے تا دیر باتیں ہوئیں ۔ وہ رنجیدہ تھے کہ خدا نے اجتہاد کی تلقین کی مگر بیشتر مسلمان لکیر کے فقیر ہونے کو ترجیح دیتے ہیں۔ ڈاکٹر داؤد رہبرپرانی وضع کے جدید عالم تھے۔ فلسفی‘ شاعر‘ نثر نگار‘موسیقار اور معلم رہبر نے نظم و نثر کی کوئی نصف درجن سے زیادہ کتابیں اپنے پیچھے چھوڑی ہیں جو ظاہر کرتی ہیں کہ ہلکے پھلکے انداز میں وہ گہری باتیں کہنے کا ڈھنگ جانتے تھے۔ گزشتہ سال میرے نام ایک خط میں لکھتے ہیں۔ ’’چند برس پہلے ایک سفر میں ہوائی جہاز پر ایک امریکی بی بی کی ہم نشینی میسر آئی۔ وہ ایک نوٹ بک پر تیزی سے قلم چلا رہی تھی ۔میں نے پوچھا۔کیا لکھا جارہا ہے ؟ اس نے جواب دیا میں سکول ٹیچر ہوں‘ سکول کے میگزین کے لئے ایڈیٹوریل لکھ رہی ہوں ۔میں نے سُر ملانے کو کہا کہ میں بھی قلمکار ہوں‘ اپنی زبان (اردو) میں لکھتا ہوں‘ اردو کی دو تصنیفوں پر مجھے پاکستان کی ادبی اکیڈمی نے انعام دیے ہیں ۔ایک چھوٹے ملک میں تھوڑی سی ناموری حاصل ہو بہتر ہے اس سے کہ ایک عظیم ملک میں آدمی بے ننگ و نام رہ کر مر جائے۔ اس بی بی کو یہ قول مزیدار لگا‘ خوب ہنستی رہی‘ امریکہ اور یورپ میں اب ہر فن کے مشاہیر ایسی کثرت سے ہیں کہ نقار خانے کی صورت پیدا ہو گئی ہے‘‘۔ 1991ء میں بائیس سال کی رفاقت کے بعد بوسٹن یونیورسٹی سے ریٹائر ہونے کے بعد وہ فورٹ لاڈر ڈیل کے مضافات میں بس گئے تھے ۔ان کا لیونگ روم کتابوں سے اٹا ہوا تھا‘ ہر چند کہ انہوں نے اپنے ذخیرۂ کتب کا بڑا حصہ یونیورسٹی کو عطا کر دیا تھا۔ اس طرف ایک اشا رہ ان کے ایک اور خط میں ملتا ہے۔ ’’میں نے جب اپنی ذاتی اردو لائبریری بوسٹن یونیورسٹی کو بھیجی تو اپنی پسند کی چند کتابوں کی فوٹو کاپیا ں دوستوں کو بھیجنے کے لئے بنا لیں ۔ان میں سے ایک آپ کو بھیجی جارہی ہے۔ اخترالایمان نے آپ بیتی روا روی میں لکھی لیکن اس میں مزہ اس لئے ہے کہ یہ ایک مخلص اور باہمت انسان کی رو داد ہے‘‘۔ میں واشنگٹن سے ان کے لئے پنڈت ہری پرشاد چورسیا کی بانسری کا کیسٹ لے گیا تھا جو اجنتا اور ایلورا کے غاروں میں بنایا گیا تھا ۔انہوں نے الماری سے کوئی کتاب نکالنے کی بجائے طبلے کی ایک جوڑی سنبھا لی اور کلاسیکی موسیقی کا ایک ٹیپ لگا کر گانا شروع کر دیا ۔لمز کے طلبہ کے لئے ان کی تجویز یہ تھی۔ ’’دو دو گھنٹوں کی چار نشستیں رکھی جائیں‘ ان میں سے دو وقت سحر اور دو شام کو تاکہ صبح و شام کی راگنیاں سمجھائی جاسکیں‘‘۔ تجویز رد کر دی گئی اور ’’میں سوچتا رہا کہ مہذب ملک کے نوجوان اپنے دیس کی موسیقی کے اصول سے نا بلد رہیں‘ کیسی افسوس کی بات ہے‘‘۔ داؤد ر ہبر 5اکتوبر کو ایک نرسنگ ہوم میں پڑے پڑے مر گئے تو نیو یارک کے ایک ہفتہ وار اردو اخبار کی سرخی تھی۔ ’’علامہ اقبال کے صاحبزادے داؤد رہبر فلوریڈا میں انتقال کرگئے‘‘۔ اس غلط فہمی کے ازالے کے لئے رہبر نے عرصہ پہلے ایک مضمون لکھا تھا۔ ’’دو ہم نام (سر محمد اقبال اور پروفیسر محمد اقبال)‘‘ کیمبرج میں شاعر ملت سر محمد اقبال کا قیام بہ سلسلہ تعلم 1905 ء سے 1908 ء تک رہا اور ان کے ہم نام پروفیسر محمد اقبال کا قیام کیمبرج میں 1918ء میں شروع ہوا اور 1922ء میں ختم ہوا۔ سر محمد اقبال‘ شیخ محمد اقبال سے 21برس بڑے تھے‘‘۔ یہ بات ہارورڈ کے لائبریرین کی سمجھ میں آگئی تھی مگر نیو یارک کے اردو اخبار کو سمجھانے والا کوئی نہیں تھا۔ سن پچاس کے عشرے میں جب میں اورینٹل کالج میں داخل ہوا تو ہر طرف پروفیسرشیخ محمد اقبال (1948ء۔1894ء) کی خوشبو پھیلی ہوئی تھی جو شعبہ فارسی میں استاد رہے تھے ۔کیمبرج میں علامہ محمد اقبال (1938ء ۔1877ء) کے فرزند جا وید اقبال اور نوبیل لاریٹ عبدالسلام‘ داؤد رہبرکے ہم سبق تھے ۔ محلہ پرانی انارکلی میں پیدا اور ماڈل ٹاؤن میں پرورش پانے والے رہبر کہتے ہیں کہ جس دن جاوید نامہ شائع ہوا‘ علامہ اقبال ان کے گھر میں تھے اور جاوید باہر کھیل رہے تھے ۔مغربی معاشرے میں داؤد رہبر نے اپنے جسم و جان پر انفرادی اختیار حا صل کر لیا تھا جس کا پاس ان کی دونوں بیٹیوں نے بھی کیا ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں