ویلری پلام سے شیریں مزاری تک

واشنگٹن سے ڈیلس انٹر نیشنل ایئرپورٹ کا رخ کریں تو ورجینیا میں جارج واشنگٹن میموریل ہائی وے پر چھتنار درختوں میں مستور ایک چھوٹا سا سائن بورڈ سی آئی اے کے محل وقوع کی طرف اشارہ کرتا ہے جو امریکی حکومت کے لئے خفیہ معلومات جمع کرنے والا ایک ادارہ ہے ۔ 68 ایکڑ میں پھیلا ہوا یہ سرکاری محکمہ ایک سویلین ادارہ ہے۔ اس کے ملازمین کی تعداد اور بجٹ قانونی طور پر صیغہ راز میں Classifiedہیں مگر اخباری اطلاعات کے مطابق ملازمین کی تعداد 21,575 اور اخراجات 14.7 بلین ڈالر سالانہ ہیں۔ 
سی آئی اے کے بہت سے ملازمین‘ دوسرے نا موں سے کام کرتے ہیں اور ان میں سے کئی دوسرے ملکوں میں سفارت خانوں میں متعین ہوتے ہیں۔ میزبان حکومتیں‘ سفارت کاروں کے بھیس میں دوسرے ملکوں کے جاسوسوں کے ناموں سے آگاہ ہوتی ہیں کیونکہ وہ انہیں ویزے جاری کرتی ہیں اور اپنے جاسوس‘ مہمان ملکوں میں متعین کرنے کی امید کرتی ہیں۔ واشنگٹن میں پاکستان کے ملٹری اتاشیوں اور با وردی جوانوں کا ایک دستہ تو ہمیشہ موجود رہتا ہے مگر اس کے علاوہ پولیس اور فوج کے لوگ سفارت کاروں کے لبادے میں خفیہ کام کرتے ہیں خواہ ان میں پاکستانیوں کی‘‘ نگرانی'' ہی کیوں نہ ہو ۔
ہنگو پر ڈرون حملے کی ایف آئی آر نا معلوم افراد کے خلاف کاٹی گئی تھی اور جب مرکز میں بر سر اقتدار پارٹی اور دوسری جماعتوں کے ترجمانوں نے یہ کہہ کر خیبر پختونخوا کی حکومت کا مذاق اڑایا کہ کیا اسے اتنا بھی معلوم نہیں کہ حملہ کس نے کیا ؟ تو صوبائی حکومت کی جانب سے تحریک انصاف کی سیکرٹری اطلاعات شیریں مہر النسا مزاری نے ایک پریس کانفرنس میں اعلان کیا کہ حملہ آور سی آئی اے ہے اور پاکستان میں اس کے سٹیشن چیف فلاں صا حب ہیں جو ڈرون حملوں کی تنظیم سے بے تعلق نہیں ہو سکتے۔ اگرچہ کولمبیا کی پی ایچ ڈی نے بم کا دھماکہ کیا تھا مگر پاکستانی ذرائع ابلاغ نے ان کے بیان کو خاطر خواہ اہمیت نہیں دی۔امریکی ذرائع ابلاغ ملک کے اندر یا باہر امریکی جاسوسوں کے نام ظاہر نہیں کرتے اور انہوں نے بھی مس مزاری کا دانہ چگنے سے انکار کیا مگر وہ اس حقیقت سے بے خبر نہیں کہ خود امریکی حکومت اپنے جاسوسوں کی سر زنش کے لئے ان کا راز کھولتی ہے اس کی ایک مثال سی آئی اے کی Undercover آفیسر ویلری پلامValerie Plameہیں جن کی شناخت کالم نگار رابرٹ نوویک نے ظاہر کی۔ 
یہ حالیہ امریکی تاریخ کا ایک زور دار سکینڈل ہے جو مس پلام کے استعفیٰ پر منتج ہوا اور ان کے شوہر سفیر جوزف ولسن کو بھی سرکاری ملازمت سے ہاتھ دھونے پڑے۔2002ء تک پلام ایک خاموش طبع سرکاری افسر تھیں جو فیرفیکس کاؤنٹی کے شہرمکلین کے لینگلے سیکشن میں سی آئی اے کے صدر دفتر میں اپنے خفیہ فرائض سر انجام دیتی تھیں ۔یہ وہ زمانہ تھا جب صدر جارج بش عراق پر چڑھائی کا امریکی کیس تیا رکر رہے تھے ۔حکومت کو اطلاع ملی کہ عراق‘ نیجر سے بڑی مقدار میں زرد کیک (یورینیم) خریدرہا ہے جس سے وہ وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار ڈبلیو ایم ڈی بنانے کا ارادہ رکھتا ہے ۔ افریقہ کا تجربہ رکھنے والے سفیر ولسن کو اس اطلاع کی چھان بین کے لئے نیجر بھیجا گیا۔ انہوں نے واپس آ کراطلاع کو بے بنیاد قرار دیا مگر اس کے باوجود صدر بش نے اس افواہ کے حوالے سے بغداد پر بم باری کی اور عراق میں صدام حسین کی حکومت بدل ڈالی ۔اس پر سفیر ولسن نے نیو یارک ٹائمز میں ایک مضمون لکھا جس کا عنوان تھا۔ ''جو کچھ مجھے افریقہ میں نہ ملا‘‘۔ 
واشنگٹن کے سیاسی سکینڈل کا ایک اہم کردار رچرڈ آرمٹیج تھا جو اس وقت ڈپٹی سیکرٹری آف سٹیٹ تھا اور جس نے یہ اطلاع اخبار نویس کو مہیا کی تھی۔ ناٹے قد اور کسرتی جسم کا یہ وہی آرمٹیج ہے جس نے مبینہ طور پر جنرل پرویز مشرف کو دھمکی دی تھی کہ اگر انہوں نے ڈرون حملوں میں تعاون نہ کیا تو ان کے ملک کو بم باری سے پتھر کے زمانے میں پہنچا دیا جائے گا ۔ پلام نے کہا تھا کہ آرمٹیج نے ان کی شناخت رابرٹ نوویک کو دے کر ''بے وقوفی‘‘ کی۔ گیارہ نومبر 2007ء کو ٹیلی وژن کے اینکر ولف بلٹزر اور آرمٹیج کے مابین ایک مکالمہ ہوا جس میں آرمٹیج نے کہا ۔ میرے خیال میں یہ میری بڑی بے وقوفی تھی۔ایک گرینڈ جیوری نے اس واقعہ کی تفتیش کی۔ پلام اور ان کے شوہر نے نائب صدر ڈک چینی اور بش انتظامیہ کے کوئی نصف درجن ارکان کے خلاف دیوانی دعوی بھی دائر کیا مگر عدالت نے نائب صدر کے مشیر لیوس ''سکوٹر‘‘ لبی کے سوا سب کو بری کر دیا۔لبی کو جو چھ ماہ کی سزا ہوئی اسے صدر بش نے معاف کر دیا۔میاں بیوی سرکاری ملازمت سے محروم ہونے کے باوجود گھاٹے میں نہیں رہے ۔مسز ولسن کی کتابFair Game ایک فیچر فلم کا موضوع ہے ۔ زیادہ فروخت ہونے والی کتاب کا ذیلی عنوان ہے۔ ''ایک جاسوس کی حیثیت سے میری زندگی اور مجھ سے وائٹ ہاؤس کا دغا‘‘۔ اور مسٹر ولسن کی تصنیف کا نام ہے۔ The Politics of Truth اور ان کی کتاب کا ذیلی نام ہے۔ ''اس جھوٹ کے درمیان جو جنگ کا باعث بنا اور میری بیوی کی سی آئی اے شناخت بھی لے اُڑا ۔ ایک سفارت کار کی یادداشتیں‘‘۔ 
پاکستان میں ڈرون حملوں کے خلاف ایک تحریک چل رہی ہے اور تحریک انصاف اس کی روح و رواں ہے ۔ریٹائرڈ جنرل مشرف کُھل کر وکی لیکس کے اس دعوے کی تردید نہیں کرتے کہ حکومت پاکستان نے دہشت گردی سے نبٹنے کی کوشش میں اس امریکی ٹیکنالوجی کے استعمال کی اجازت دی تھی ۔وہ کہتے ہیں ''اگر کسی نے ان حملوں کی اجازت دی تھی تو نئے حکمرانوں کو اسے بدل دینا چاہیے۔ ان کا مزاج اب بھی آمرانہ ہے انہیں نہیں معلوم کہ جو معاہدے دو ریاستوں کے درمیان ہوتے ہیں انہیں کوئی حکومت یک طرفہ طور پر منسوخ نہیں کر سکتی۔ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں پاکستان اور افغا نستان کی سرحد واضح نہیں ۔دونوں جانب سے لوگوں کا آنا جانا لگا رہتا ہے اور ان میں انتہا پسند لڑاکے بھی‘ جن میں سے کئی کسی تیسرے ملک کے شہری ہیں‘ شامل ہیں ۔اگر ہم پاکستان میں امن اور استحکام چاہتے ہیں توہمیں سب سے پہلے ڈیورنڈ لائن کو بین الا قوامی سرحد تسلیم کرانے کی سعی کرنی چاہیے۔
وزیر دفاع چک ہیگل افغانستان سے واپسی پر کچھ دیر کے لئے اسلام آباد میں رکے اور انہوں نے پاکستان کی نئی سیاسی اور عسکری قیادت سے تعا رفی ملاقاتیں کیں ۔بعض مبصرین نے امریکی عہدیدار کے دن بھر کے دورے سے یہ امیدیں وابستہ کی تھیں کہ وہ ڈرون حملوں کے بارے میں امریکی پالیسی میں تبدیلی کی ا طلاع دیں گے اور یہ آپریشن سی آئی اے سے پینٹاگان کو منتقل کرنے کا اعلان کریں گے ۔ ان ضربوں کا آپریشن پہلے ہی فوجی افسروں کے ہاتھ میں ہے مگر ان کی نگرانی ایک سویلین ادارے کے سپرد ہے۔ گویا امریکی حکومت قانون کے تقاضے پورے کرنے کے لئے سی آئی اے کی آڑ لے رہی ہے۔اے پی کی رپورٹ کے مطابق ہیگل نے پاکستانی حکام کو ''خبردار‘‘ کیا کہ اگر وہ افغانستان کی سرحد تک نیٹو کی کچھ رسد کے خلاف احتجاج ختم نہیں کراتے تو واشنگٹن کے لیے اس امدادی پروگرام کے لئے سیاسی حمایت برقرار رکھنا مشکل ہو جائے گا جس کے تحت اربوں ڈالر اسلام آباد بھجوائے گئے ہیں ۔ امریکی عہدیدار نے ایک حقیقت بیان کی تھی مگر بعض ذرائع ابلاغ اور کچھ مبصرین نے اسے ''دھمکی‘‘ جانا اور کہا کہ امریکی وزیر دفاع پاکستان کی امداد بند کرنے کا انتباہ کر رہے ہیں ۔
ڈرون ٹیکنالوجی‘ ہوائی آمدورفت کا آئندہ وسیلہ ہے۔ پاکستان کی مسلح افواج میں یہ ٹیکنالوجی رائج ہو چکی ۔امریکہ میں اب پیزا کی گھر گھر ترسیل میں اس ٹیکنالوجی کے استعمال کے تجربے ہو رہے ہیں اور نواڈا کے صحرا میں ریڈار سے بچ کر نکلنے والے (انسانی آنکھ سے نظر نہ آنے والے) ڈرون بھی بنائے جا رہے ہیں ۔ان حالات میں لازم ہے کہ پاکستان یہ فیصلہ کرے کہ اسے دنیا کے ساتھ چلنا ہے یا اکیلے معاشرتی اور اقتصادی ترقی کا سفر کرنا ہے ۔ابہام تا دیر نہیں چل سکتا۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں