سگریٹ پینا منع ہے!

ایک امریکی کاروباری ادارے سی وی ایس نے تمباکو کی فروخت بند کر دی ہے۔ کمپنی نے اعلان کیا ہے کہ ملک بھر میں اس کے سات ہزار چار سو جنرل سٹور سگریٹ اور تمباکو سے بنی دوسری اشیا نہیں بیچیں گے۔ کمپنی مالکان نے کہا ہے کہ صحت افزا اشیا اور درد کی ادویات فروخت کرنے کے ساتھ ساتھ وہ ایک مضر صحت شے کی فروخت جاری نہیں رکھ سکتے۔ اس فیصلے سے اسے دو بلین ڈالر کا خسارہ ہو گا جسے ہسپتالوں‘ انشورنس کمپنیوں اور حفظان صحت کے نئے قانون کے تحت بیمہ کرانے والے گاہکوں سے پورا کیا جائے گا۔ سی وی ایس کو اس نتیجے پر پہنچنے میں نصف صدی کا عرصہ لگا۔ سرجن جنرل نے‘ جو وزیر صحت کے برابر ایک باوردی آئینی عہدیدار ہے‘ 1964 ء میں پہلی بار سگریٹ نوشی کو انسانی جان کے لئے نقصان دہ قرار دیا تھا۔ سی وی ایس کے کاروباری حریف بھی ان خطوط پر سوچ رہے ہیں۔ اس ملک میں سگریٹ پینے والے اچھوت ہو کر رہ گئے ہیں۔ اگر ایسا ہوا تو انہیں نا قابل تلافی زیاں ہو گا۔ ایک اندازے کے مطابق اکیسویں صدی میں‘ جو اب اپنے چودہویں سال میں ہے تمباکو نوشی سے ایک بلین انسانوں کا صفایا ہو جائے گا۔
امریکہ میں کانگریس نے سگریٹ نوشی کے خلاف سرجن جنرل کی رپورٹوں کی روشنی میں کوئی ملک گیر قانون نہیں بنایا۔ اس نے یہ معاملہ ریاستی اور مقامی حکومتوں پر چھوڑ دیا؛ چنانچہ ربع صدی سے زیادہ عرصے میں تمام وفاقی‘ ریاستی اور بلدیاتی عمارتیں تمباکو کے دھوئیں سے پاک ہو گئی ہیں اور سگریٹ نوش ملازمین اپنی طلب پوری کرنے کے لیے اپنی نشستوں سے اٹھ کر باہر جا رہے ہیں۔ بیشتر قانون ساز اداروں نے ریستورانوں‘ سٹوروں اور دوسری جگہوں پر سگریٹ نوشی منع کر دی ہے اور سگریٹ نوشوں کو اپنے مطلب کی جگہیں تلاش کرنے میں دشواری پیش آتی ہے۔ یہاں تمام جنرل سٹوروں اور فوڈ سُپر مارکیٹوں میں فارمیسی ہے اور ان میں امریکی سگریٹ بھی فروخت کیے جاتے ہیں۔ ظاہر ہے اب ان سب کو اپنے کاروبار پر نظرثانی کرنی پڑے گی۔ کچھ بلدیاتی ادارے گھروں اور موٹر کاروں کے اندر سگریٹ نوشی کی ممانعت کر نے کا عزم ظاہر کر رہے ہیں۔ صحت کے حکام اب دوسرے اور تیسرے درجے کے دھوئیں کو بھی نشانہ بنا رہے اور واشنگٹن کے مضافات میں ایک بلدیہ نے تو اپنے پارکوں تک میں سگریٹ نوشی پر پابندی لگا دی ہے۔
پاکستان میں بھی تمباکو نوشی کے خلاف عشروں سے ایک مہم جاری ہے۔ نوآبادیاتی حکمرانوں نے انسانی صحت پر اس کے مضر اثرات بھانپ لیے تھے؛ چنانچہ آزادی سے پہلے ریل کے ڈبوں میں اس مفہوم کی اشتہاری تختیاں نظر آتی تھیں ''ہمراہیوں کی رضامندی کے بغیر سگریٹ پینا منع ہے‘‘۔ مطبوعہ صحافت نے اس معاشرتی برائی پر خاطر خواہ توجہ نہیں دی مگر نجی ذرائع ابلاغ میں ٹیلی وژن کے شامل ہونے کے بعد اس مہم کو خاصا بڑھاوا ملا۔ وہ عوامی خدمت کے جذبے کے تحت آئے دن ایسی اطلاعات نشر کرتے ہیں جن سے تمباکو نوشی کی حوصلہ شکنی ہوتی ہو۔ پھر بھی اسلام آباد کو ''یرغمال‘‘ بنانے والا اور لاہور میں محبوبہ کے دفتر پر یلغار کرنے والا مسلح شخص ہونٹوں میں سگریٹ دبائے نظر آیا۔ گویا سگریٹ نوشی آج بھی آرام و سکون کے حصول کا وسیلہ نہیں بلکہ انسان کے سن بلوغت کو پہنچنے کا اعلان ہے۔ اہل پاکستان کو نہیں معلوم کہ جب وہ ہوائی اڈے پر مغرب سے آنے والے عزیز و اقارب کا خیر مقدم کرتے ہیں تو سب سے پہلے سگریٹ کے دھوئیں کا ایک کسیلا بھبوکا ان کی طرف پھینکتے ہیں۔
کسی زمانے میں تمباکو امریکہ میں کنگ تھا۔ ورجینیا تمباکو نے ساری دنیا میں شہرت اور مقبولیت حاصل کی اگرچہ آج کل زیادہ تر تمباکو جنوب کی متصل ریاستوں نارتھ کیرولائنا‘ ساؤتھ کیرولائنا اور جارجیا میں پیدا ہوتا ہے اور دو امریکی کمپنیاں ساری دنیا میں اسے پھیلاتی ہیں۔ ان کمپنیوں نے سگریٹ پینے والوں کی انجمنیں بھی منظم کر رکھی ہیں اور خفت میں انہیں قوانین سے باخبر رکھتی ہیں۔ ایک زمانہ تھا جب ہالی وڈ کا ہیرو اداکاری کے ایک جزو کے طور پر سگریٹ پھونکتا تھا اور دنیا بھر کے نوجوانوں کو متاثر کرتا تھا۔ آج امریکی فلم میں کسی کردار کو بُرا یا ولن دکھانے کے لئے اس کے منہ میں سگریٹ دے دیا جاتا ہے۔
امریکہ میں تمباکو کے خلاف سرکاری اور غیرسرکاری مہم عروج پر ہے اور پاکستان میں گھٹنوں کے بل چل رہی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ پولیو کی طرح یہ مہم ابھی پبلک پالیسی میں شامل نہیں ہوئی۔ خیبر پختونخوا اور جنوبی پنجاب میں تمباکو بکثرت کاشت ہوتا ہے۔ دیہات میں تقریباً ہر گھر میں ایک حقہ ہے۔ سگریٹ خوبصورت پیکٹوں میں بلا روک ٹوک فروخت کیے جاتے اور اقتصادی تقسیم کے ہر زمرے سے گاہکوں کی حیثیت کے مطابق دام وصول کیے جاتے ہیں۔ امریکہ میں ایسی کوئی تقسیم نہیں؛ تاہم ٹیکس بڑھا بڑھا کر عام صارفین تک سگریٹ کی رسائی مشکل بنا دی گئی ہے۔ سکول کے بچوں کو اس لت سے باز رکھنے کے لئے بتایا جا رہا ہے کہ ایک سگریٹ پیو گے تو ایک دانت سے محروم ہو جاؤ گے۔ سائنس کا لفظ ایک تعلیم یافتہ معاشرے میں بڑی تیزی سے پھیلتا ہے۔
پاکستان میں بہت کم سگریٹ نوشوں کو احساس ہو گا کہ سرطان‘ پھیپھڑوں کی بیماریاں‘ دل کا عارضہ اور فالج‘ جو موت کے چار بڑے اسباب ہیں‘ تمباکو سے نتھی کیے جاتے ہیں۔ جب سے امریکی سرجن جنرل نے اپنی پہلی رپورٹ شائع کی ہے‘ اسّی لاکھ امریکیوں کی جان ان موذی امراض سے بچائی جا چکی ہے۔ رپورٹ آنے سے پہلے بیالیس فیصد امریکی بالغ سگریٹ پیتے تھے۔ اب ان کی تعداد صرف اٹھارہ فیصد ہے۔ شاید ان میں صدر بارک اوباما بھی شامل ہوں۔ وہ کل تک سگریٹ پیتے تھے۔ اب تائب ہو چکے ہیں اور سی وی ایس کے فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ الیکشن سے پہلے ذوالفقار علی بھٹو نے فلیٹیز میں انٹرویو دیتے وقت ایک سگار سلگایا ہوا تھا۔ چودھری برکت علی سلیمی کے گھر پر شیخ مجیب الرحمٰن سے ملاقات ہوئی تو ان کو ایرن مور کا انگلش تمباکو اپنے پائپ میں بھر کر پیتے دیکھا۔ نوابزادہ نصراللہ خان کا حُقہ مشہور تھا۔ لاہور کے صحافی مثلاً حمید ہاشمی‘ سید سبط حسن اور حمید اختر پائپ پیتے تھے اور کھلے عام اپنے پائپ صاف کرتے دکھائی دیتے تھے۔ ماہرین سگار‘ پائپ‘ حقے اور شیشے کو رعایت نہیں دیتے۔ جنرل ضیاالحق تو عمر بھر سگریٹ پیتے رہے۔ تھری کیسل کی ڈبیا ہر وقت ان کی وردی کی جیب میں دیکھی جا سکتی تھی۔ احمد ندیم قاسمی‘ فیض احمد فیض‘ احمد فراز اور منیر نیازی کی سگریٹ نوشی تو امریکہ تک جانی پہچانی تھی۔ آج کی دنیا میں سگریٹ پینے والا اچھا رول ماڈل نہیں سمجھا جاتا۔
بیماریوں پر قابو پانے کے مرکز سی ڈی سی نے کہا ہے کہ 443,000 امریکی اب بھی ہر سال قبل از وقت مرتے ہیں اور ان کی موت کا سبب تمباکو سمجھا جاتا ہے۔ ادارے کے ڈائریکٹر ٹام فریڈن‘ ڈاکٹروں کے جریدے JAMA میں لکھتے ہیں کہ آسٹریلیا‘ برازیل‘ کینیڈا اور یوراگوئے نے سگریٹ نوشی کی حوصلہ شکنی میں امریکہ سے زیادہ کامیابیا ں حاصل کی ہیں۔ ان کے خیال میں ڈبیوں پر زیادہ عبرتناک لیبل لگانے سے نئے لوگ سگریٹ سے اجتناب کریں گے۔
ربع صدی سے زیادہ عرصے میں 187 ملکوں میں سگریٹ نوشی کچھ کم ہوئی ہے مگر آبادی میں اضافے کی وجہ سے دنیا بھر میں بشمول پاکستان سگریٹ پینے والوں کی تعداد بڑھ گئی ہے۔ آدھے سے زیادہ مرد روس‘ انڈونیشیا اور آرمینیا میں سگریٹ پیتے ہیں اور ہر چار عورتوں میں سے ایک فرانس‘ چلی اور یونان میں سگریٹ پیتی ہے۔ جو لوگ سگریٹ چھوڑنا چاہیں‘ ان کے لئے نکوٹین کے پھاہے‘ چنٹکس‘ زیبان اور دوسری ادویات کارآمد ثابت ہو سکتی ہیں مگر ان میں سے زیادہ تر ایک سال بعد پھر دھواں چھوڑنے لگتے ہیں۔ اب الیکٹرانی سگریٹ مارکیٹ میں آ گئے ہیں۔ لمبی مدت میں ان کے کیا اثرات ہوتے ہیں؟ اس پر تحقیق درکار ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں