جنگ کے مخالفین

قید کی سزائیں سن کر وہ تینوں چپ چاپ جیل چلے گئے ۔ان کی لیڈر چوراسی سال کی سسٹر میگن رائس تھی جس نے بچپن میں سنا تھا کہ جس ایٹم بم نے ہیروشیما کو نیست و نابود کیا اس کا یورینیم کینٹکی میں افزودہ کیا گیا تھا۔ 67سال بعد اس نے پلانٹ میں سیندھ لگائی تھی۔ اس کے ساتھ دو مرد تھے ۔ واشنگٹن ڈی سی کا 65 سالہ مائیکل والی جو ویت نام کی لڑائی کا سپاہی تھا اور 58سال کا‘ ریاست منی سوٹا کا گریگری بور ہے۔ وہ سب امن کے علم دار تھے اور اس بنا پر پہلے بھی قید و بند کی صعوبتیں سہہ چکے تھے ۔ وہ راسخ العقیدہ مسیحی تھے اور بم کو جھوٹا خدا کہتے تھے ۔ پہلے وہ درختوں سے پُر ایک ٹیلے پر چڑھے اور پھریورینیم کو افزودہ کرنے والی سفید عمارت کا حفاظتی جنگلہ کاٹ کر اندر داخل ہوئے اور یوں وفا قی قانون کی خلاف ورزی کی۔ انہوں نے اپنے جرم کا اقبال کیا ۔وہ اس ا قدام سے ہم وطنوں کو باور کرانا چاہتے تھے کہ ان کے حکمران‘ انسا نیت کا صفایا کرنے پر تلے ہوئے ہیں اور یہ وقت ہے کہ وہ اپنے ووٹ کے ذریعے اس سرکار ی پالیسی کو بدل ڈالیں ۔ ذرائع ابلاغ کے سوا کم لوگوں نے ان کے کاز کی داد دی۔ شائد اس لئے کہ صدر اوباما‘ جنگ مخالف انتخابی منشور پر کامیاب ہوئے تھے۔ وہ قوم کو عراق کی لڑائی سے نکال لائے ہیں اور افغانستان میں بھی ایسا ہی کرنے والے ہیں ۔ 
ناکس ول‘ کینٹکی کے وفاقی جج اُمل تھاپڑ نے‘ جن کے والدین بھارت میں پیدا ہوئے تھے‘ وفاقی املاک کو نقصان پہنچانے اور قومی دفاع کو خطرے میں ڈالنے کی بنا پر مردوں کو فی کس پانچ سال دو ماہ کی قید سنائی اور سسٹر میگن کو دو سال گیارہ ماہ کی سزا دی۔ خاتون نے جو گیارہ ماہ حوالات میں گزارے اسے ان کی رعایت دی گئی تھی ۔جب خاندان کے افراد ان سے ملاقات کے لئے جیل آئے تو انہوں نے یہ کہہ کر ذہنی طور پر انہیں اس سزا کے لئے تیار کیا تھا کہ ''جب میں افریقہ میں مذہبی کام کرتی تھی تو عشروں تک تم سے دور رہتی تھی ۔اس کیس کے آخر میں اگر مجھے پرے کر دیا گیا تو غم نہ کرنا‘‘۔
کمپنی نے پلانٹ کے محافظ کرک گارلینڈ کو برطرف کر دیا تھا۔ وہ تین اجنبیوں کو پلانٹ کے اندر پاکر نہ تو اپنی گشتی کار سے باہر آیا‘ نہ اپنا پستول نکا لا اور نہ جلدی سے انہیں ہتھکڑی لگائی ۔اس نے کہا کہ گروہ کی سرغنہ ایک بزرگ عورت تھی اور وہ سب دہشت گرد نہیں لگتے تھے ۔ ملازمت سے محروم ہونے کے بعد وہ گھر کی قسطیں ادا کرنے سے قاصر رہا ۔ وہ دیوالیہ ہو گیا ۔اس نے اپنے اثاثے 41475ڈالر بتائے‘ جو جنگلے کی مرمت‘ عمارت سے انسانی خون کے دھبے دھونے اور اس پر بائبل کے الفاظ مٹانے پر ہونے والے اخراجات کے تخمینے سے بھی کم تھے ۔کمپنی عمارت کی حفاظت کے ٹھیکے سے محروم ہوئی اور گارلینڈ کے آٹھ ہزار رفقائے کار کی نو کریاں خطرے میں پڑ گئیں ۔امن کے پرچارک ان کھربوں ڈالر پر عوام میں غیظ و غضب کی آگ بھڑکانا چاہتے تھے جو دوسری جنگ عظیم کے بعد جوہری اسلحہ بنانے پر صرف ہوئے ہیں اورجو سوشل سکیورٹی اور غیر جوہری فوجی اخراجات کے بعد سب سے بڑی قومی ترجیح بن گئے ہیں ۔وہ اپنے مقصد میں کامیاب نظر آ ئے ۔
جج تھاپڑ نے ملزموں کو سزائیں سنانے سے پہلے مہا تما گاندھی اور مارٹن لوتھر کنگ جونیئر کے آہنسا پرمو دھرما فلسفے کی روشنی میں دونوں طرف کے وکلا سے یہ سوال کیا۔ ''فوجداری قانون اور سزا کا ضابطہ‘ توڑ پھوڑ کرنے والوں کو‘ جو واقعی نقصان پہنچانا چاہتے ہیں اور پُرامن احتجاج کرنے والوں میں جو تبدیلی کے آ رزو مند ہیں‘ امتیاز نہیں کرتا۔ پھر اچھے لوگوں کو بُرے کاموں سے باز رکھنے کے لئے کیا کیا جائے؟‘‘ ایک وکیل صفائی بولا۔ ''غیر متشدد حکم عدولی میں پڑنے سے معاشرے کو خطرہ لاحق نہیں ہوتا‘‘۔ مگر استغاثہ کے وکیل جیف تھیو ڈورنے کہا۔ '' ہو سکتا ہے کہ وہ غیر متشدد ہوں مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ خطرناک نہیں۔ وہ سول انتہا پسندوں کی معراج ہیں‘‘۔ کیتھی بوئلن نے جو واشنگٹن میں کیتھولک رضا کاروں کے ایک گھر میں مائیکل والی کے ساتھ رہتی ہے‘ اپنی گواہی میں کہا تھا۔ ''مائیکل والی ہماری زندگی بچانے کی کوشش میں ہے‘ آپ کی زندگی جج تھاپڑ ‘ آپ کی زندگی مسٹر تھیو ڈور‘‘۔ جج کی رولنگ تھی۔ ''میرے پاس خدا کی رضا ماپنے کا آلہ نہیں۔ میرے پاس آپ کے خیالات کو صحیح یا غلط قرار دینے کا پیمانہ نہیں ۔میں اسے مستقبل پر چھوڑوں گا‘‘۔ 
امریکہ کے تقریباً ہر صدر کے عہد میں جنگ ہوتی رہی ہے اور ہر جنگ کے مخالفین گلی کوچوں میں نکلتے رہے ہیں۔ ویت نام کی لڑائی تک ''ڈرافٹ‘‘ تھا گویا ہر گھر کے نو جوان قانونی طور پر فوجی خدمات دینے کے پابند تھے ۔اس کے بعد یہ پابندی ختم ہوئی تو رفتہ رفتہ ساری امریکی فوج رضا کار ہو گئی ۔گویا فوجی جوان اور افسر اپنی مرضی سے اس ملازمت میں آئے ہیں ۔آج 42 ملکوں میں امریکی فوجی اڈے موجود ہیں اور کئی دوسرے براہ راست واشنگٹن کے زیر اثر ہیں ۔اس لئے مشہور ہے کہ امریکہ ایک جنگ باز ملک ہے اور دنیا کی واحد سپر پاور ہونے سے اس کے جارحانہ عزائم میں اضافہ ہوا ہے ۔ مخالفین میں پہلا سا دم خم نہیں مگر اب بھی وہ جوہری اسلحہ بنانے والی فیکٹریوں اور وائٹ ہاؤس کے باہر جمع ہوتے ہیں اور اپنا احتجاج ریکارڈ کراتے ہیں ۔ وائٹ ہاؤس کے سامنے لا فیٹ پارک میں تو گزشتہ نصف صدی سے ا حتجاجیوں کا خیمہ نصب ہے جو ملک کی جوہری قوت کے خلاف ایک نشان بن چکا ہے ۔
صدر اوباما اب تک جنگ کے کلیے سے مستثنیٰ دکھائی دیتے ہیں۔ان پانچ برسوں میں ایسے کئی مواقع آئے کہ وہ ملک کو ایک نئی جنگ کی آگ میں جھونک دیں ۔انہوں نے مشرق وسطیٰ میں اپنے دو اتحادیوں‘ اسرائیل اور سعودی عرب‘ کی ناراضگی کی قیمت پر ایران پر فوج کشی اور شام کی خانہ جنگی میں مداخلت سے احتراز کیا اور اب یوکرائن میں روس کی فوجی کارروائی کاجواب دینے سے اجتناب کر رہے ہیں ۔ انہوں نے حال ہی میں کہا۔ ''جنگیں وہ لڑنی چاہئیں جن کا لڑنا ضروری ہو‘‘۔ یہ رائے عامہ کا دباؤ ہے جسے وہ مسلسل محسوس کر رہے ہیں ۔ انہوں نے امریکی فوج کی تعداد کم کرکے اسے جدید ٹیکنالوجی اور حالات حاضرہ کے سانچے میں ڈھالنے کا حکم دیا ہے ۔ ایک تازہ سروے کے مطابق ساٹھ فیصد سے زیادہ امریکی کہہ رہے ہیں کہ افغانستان کی لڑائی‘ لڑنے کے قابل نہیں تھی۔ صدر کو خود تو اب کوئی الیکشن لڑنا نہیں ہے‘ مگر ان کی پارٹی اگلے ہزاروں لاکھوں الیکشن لڑے گی اور اس کے امیدوار ووٹ مانگنے کے لئے رائے دہندگان کے پاس جاتے رہیں گے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں