سیاحت کے تابوت میں آخری کیل

یہ اسلام آباد کی ایک اجلی قبل از دوپہر تھی۔ شمالی علاقوں کے لئے پی آئی اے کی افتتاحی پرواز اڑان بھرنے کے لئے تیار تھی۔یہ پرواز پاکستان کی قومی ایئرلائن کے مہمانو ں کے لئے مخصوص تھی جن میں سرکاری ملازم‘ ٹریول ایجنٹ اور پاکستانی صحا فی شامل تھے ۔ خا لد حسن مرحوم‘ عظیم ایم میاں اور مجھے امریکہ سے مدعو کیا گیا تھا ۔یہ ایئر لائن کے عروج کا وقت تھا اور وہ سیاحت کی پاکستانی صنعت کے فروغ میں اپنا کردار ادا کرنا چاہتی تھی ۔چند لمحوں کے اندر نانگا پربت‘ K2 اور دوسری درجنوں پہاڑی چوٹیاں ہماری نظروں کے سامنے تھیں ۔مستنصر حسین تارڑ نے اپنی کوہ پیمائی کا ایک قصہ مکمل کیا تو ہوائی جہاز ان برف پوش پہاڑوں کا چکر لگا کر واپس آ گیا جو پاکستان کے ماتھے کا جھومر تھے مگر کراچی‘ لاہور‘ ملتان‘ حیدرآباد‘ فیصل آباد اور میدانی علاقے کے دوسرے شہروں کے لوگ ان کے حسن اور اقتصادی اہمیت سے تقریباً بے خبر تھے۔ گلگت‘ سکردو اور شمال کے دوسرے پُرامن شہر اور دیہات پیچھے رہ گئے تھے۔ ان کے پُر سکون رہنے میں ان کا بھلا تھا کیونکہ ان کا انحصار بڑی حد تک پاکستان کی ٹورسٹ انڈسٹری پر تھا ۔
بہت کم پاکستانی اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ دنیا کی چودہ بلند ترین پہاڑی چوٹیوں میں سے پانچ ‘پاکستان میں واقع ہیں ۔ان میں ماؤنٹ ایورسٹ کے بعد دنیا کی دوسری فلک بوس چوٹی K2 اور پاکستان کی دوسری بڑی پہاڑی نا نگا پربت شامل ہیں جو 26,660 فٹ اونچی ہے ۔ہم نے یہ ساری پہاڑی چوٹیاں ہوائی جہاز کی کھڑکی سے دیکھیں اور اس شفاف منظر سے لطف اندوز ہوئے ۔ یہ با کمال لوگوں اور لاجواب پروازوں کا دور تھا اور کسی کے وہم و گماں میں بھی نہ تھا کہ نئی صدی میں 22 جون 2013ء بھی آئے گا جب انتہا پسندوں کا ایک گروپ اس علاقے میں در آئے گا اور دس غیر ملکی کوہ پیماؤں کو قتل کردے گا ۔ان میں سے ایک امریکی شہری تھا شاید اسی وجہ سے اخبار واشنگٹن پوسٹ نے اس سانحے کی پہلی برسی پر ایک رپو رٹ شائع کی ہے جو اخباری اصطلاح میں چار کالمی با تصویر لیڈ ہے اورصفحہ اول سے شروع ہو کر آٹھویں صفحے تک چلی گئی ہے ۔ اخباری رپورٹ ہمدردانہ ہے اور اس کا لب لباب ان سرخیوں سے ظاہر ہوتا ہے جن کا ترجمہ کچھ یوں کیا جا سکتا ہے :جنت میں غارتگری‘ پاکستان کی نا نگا پربت‘ جو سیاحوں کو متوجہ کرنے کے لئے کبھی ‘‘قاتل پہاڑی'' کہلاتی تھی۔ پھر طالبان عسکریت پسندوں نے دس غیر ملکی کوہ پیما قتل کر دیے ۔ پاکستان میں سیاحت کے تابوت میں آخری کیل ۔ پوسٹ کے نامہ نگار ٹم کریگ نے یہ سٹوری 'Fairy Meadows‘سے فائل کی‘ جو پچاس کے عشرے تک بے نام و نشان تھی۔ جگہ کو یہ نام ایک غیر ملکی کوہ پیما نے دیا تھا جس کا کہنا تھا کہ اسے یہ سبزہ زار پریوں کی کہانیاں یاد دلا تی ہے ۔پریوں کے سبزہ زار یا بسیرے تک پہنچنے کے لئے آدمی کو ہوائی اڈے سے جیپ میں ایک تنگ راستے پر گھنٹے بھر کا سفر در پیش ہوتا ہے جسے مقامی لوگ دنیا کی انتہا ئی خطرناک سڑک کہتے ہیں اورجو بیشتر کوہ پیماؤں کے لئے ایک چیلنج ہے ۔کوہ پیما اور ان کے معاون یہاں سے پیدل آگے بڑھتے ہیں اور پہاڑ کی چوٹی کو سر کرنے کا عزم رکھتے ہیں۔
سیا حت‘ تعلیم اور صحت کے بعد حکومتوں کی توجہ کا مرکز بنتی ہے۔جس ملک میں انتہا پسندوں اور اعتدال پسندوں میں جنگ ہو رہی ہو‘ ایک سال میں تین ہزار افراد لقمہ اجل بنے ہوں‘شدت پسند اقلیت ملک کی اقتصادی طاقت کے سر چشموں پر تابڑ توڑ حملے کر رہی ہو‘ وہاں سیاحت کو بھلا کون پوچھے گا؟ پاکستان میں یہ نو زائیدہ صنعت پہلے ہی دم توڑ رہی تھی ۔نائن الیون(2001ء) کے دنوں میں شمالی پاکستان میں بیس ہزار غیر ملکی کوہ پیمائی اور سیاحت کے لئے موجود تھے۔ اس کے بعد اسامہ بن لادن‘ ریمنڈ ڈیوس اور سلالہ جیسے کئی واقعات رونما ہوئے جس سے امریکہ اور باقی مغرب سے پاکستان کے تعلقات کو نقصان پہنچا۔ محکمہ خارجہ نے امریکیوں کو مشورہ دیا کہ وہ سیر و سیاحت کی غرض سے پاکستان کے سفر سے اجتناب کریں۔ اس کے بعدسیاحتی حکام سال میں دس ہزار کا ہدف بھی پورا نہیں کر سکے اور پریوں کے سبزہ زار کے ضرورت مند لوگ پولیس کی ہدایت پر نانگا پربت سے ''قاتل‘‘ کا لفظ جو مہم جُو کوہ پیماؤں کے لئے کشش کا با عث بنتا تھا‘ مٹا رہے ہیں ۔سیاح نہیں آئیں گے اور انہیں قلی (پورٹر) کا کام نہیں ملے گا تو گا ؤں کے کوئی پچاس کنبے کوئی اور دھندا کریں گے مثلاً لکڑی کا ٹنا اورکان کنی وغیرہ۔
رات کا وقت تھا اور دس غیر ملکی سیاح‘ جن میں تین یو کرائن‘ دو سلواکیہ‘ دو چین‘ ایک نیپال اور ایک لتھوینیا اور ایک امریکہ سے تعلق رکھتا تھا‘ اور ان کے مقامی قلی اپنے چالیس خیموں میں آرام کر رہے تھے اور اگلے دن نانگا پربت پر پُر امن چڑ ھائی کا ارادہ رکھتے تھے ۔ کوئی ایک درجن انتہا پسند تین دن کی مسافت طے کرکے پہاڑ کی مغربی جانب سے بنیادی کیمپ میں داخل ہوئے ۔اُس وقت یہاں حفاظت کا کوئی بندو بست نہیں تھا ۔'' طالبان‘ القاعدہ‘ سرنڈر‘‘ حملہ آوروں نے تحکمانہ لہجے میں یہ الفاظ کہے ۔انہوں نے چاقو اور چھریوں سے خیموں کی طنابیں کاٹ ڈالیں ۔کوہ پیماؤں کو ان کے قلیوں سے الگ کیا۔ ان کی پشت پررسیوں سے ان کے ہاتھ باندھے ۔چاندکی چاندنی میں انہیں جھکنے کا حکم دیا اور پھر گولی مار کر ہلاک کر دیا ۔حملہ آوروں نے ایک پاکستانی باورچی کو بھی مار ڈالا جو ایک اقلیتی مسلک کا آدمی تھا ۔پولیس نے اس حملے کے شبے میں چھ آدمی گرفتار کئے مگر یہ اب تک معلوم نہیں کہ ان کے خلاف اسے گواہ میسر آئے یا نہیں؛ تاہم ہمالیہ کے قراقرم اور ہندو کش سلسلوں کے سنگم پر یہ سانحہ پاکستان کے لئے اس قدر سنگین تھا کہ وزیر اعظم نواز شریف نے شمالی وزیرستان میں شر پسندوں کے خلاف فوجی منصوبے پر صاد کرتے ہوئے اسے ایک جواز کے طور پر پیش کیا ۔ وہ کراچی کے بین الاقوامی ہوائی اڈے پر حملے سے‘ جو دو درجن سے زیادہ اموات کا سبب بنا‘ متاثر تھے۔ دو دن بعد پشاور کے ہوائی اڈے پر ایک ہلاکت خیز حملہ ہوا۔ یہ پاکستان کی معیشت کے حلقوم پر چھری چلانے کے مترادف تھا۔اس کے بعدشمالی علاقہ جات ( گلگت بلتستان )میں غیر ملکی سیاحوں کی آمد ڈھے گئی تھی جو اب تک بحال نہیں ہوئی ۔ گاؤں فیری میڈوز میں‘ جہاں سے نانگا پربت اور رائے کوٹ گلیشیر دکھائی دیتے ہیں‘ اب کوئی غیر ملکی کوہ پیما دکھائی نہیں دیتا ۔اس واقعہ سے پہلے پاکستان کو سیاحت سے ایک سو ملین ڈالر کی آمدنی ہو تی تھی۔ سیزن میں کم از کم ڈیڑھ سو مہمات گلگت یا سکردو تک پی آئی اے سے سفر کرنے کے بعد شمالی علاقوں میں داخل ہوتی تھیں ۔نا نگا پربت دنیا کی نویں بلند ترین پہاڑی چوٹی ہے اور دوسری چوٹی کے ٹو28,251فٹ بلند ہے جو ماؤنٹ ایورسٹ سے صرف ایک ہزار فٹ چھوٹی ہے ۔دنیا کی سب سے اونچی پہاڑی چوٹی کا راستہ نیپال سے جاتا ہے جو کوہ پیمائی سے ہر سال کروڑوں ڈالر کماتا ہے ۔
یہاں ایک صاحب رہتے ہیں Steve Swenson وہ امریکن الپائن کلب کے صدر رہے ہیں اور گیارہ بار پہاڑوں پر چڑھنے کے لئے پاکستان جا چکے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں: ''میں نے واپس وہاں جانے کے بارے میں بہت سے با خبر لوگوں سے بات کی ہے ۔ان کا فوری رد عمل تھا کیا وہاں جانا بے خطر ہے؟‘‘ امید ہے کہ آپریشن ضرب عضب شمالی علاقوں کا سفر ایک بار پھر بے خطر بنائے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں