ستّر ہزار بچے امریکہ کی دہلیز پر

پا کستانی والدین، وسطی امریکہ کے والدین کی نسبت زیا دہ سیانے اور مالدار ہیں۔ حاملہ خواتین پاکستانی پاسپورٹ اور عارضی ویزے پر امریکہ آتی ہیں۔ نیو یارک، واشنگٹن، ہیو سٹن یا کسی دوسرے شہرکے ہسپتال میں داخلہ لیتی ہیں اور بچہ پیدا کرنے کے بعد بھاری بل ادا کرکے وطن واپس چلی جاتی ہیں مگر بچے کی پیدائش کا سرٹیفکیٹ ساتھ لے جانا نہیں بھولتیں جو سن بلوغت کو پہنچنے پر اسے امریکی شہریت پیش کرتا ہے۔ یہ بچے کے مستقبل پر والدین کی سرمایہ کاری ہے۔ ہرچند کہ اس ملک میں جرائم کی شرح تقریباً وہی ہے جو پاکستان میں ہے، یوم آزادی پر شکاگو میں بیاسی افراد پر گولی چلنا اور ان میں سے سترہ کا مارے جانا اس کا ایک ثبوت ہے، فرق یہ ہے کہ یہاں جرائم کی تفتیش ہوتی ہے اور مجرم کو سزا ملتی ہے۔ یہی دنیا کی سب سے بڑی معیشت کی کامیابی کا راز ہے اور یہی بات ساری دنیا سے تا رکین وطن کو اس ملک کی راہ پر ڈالتی ہے۔ نو مولود بچوں کے پاکستانی والدین تو معدودے چند ہیں مگر وسطی امریکہ سے بہت بڑی تعداد میں بچوںکا آنا ایک انسانی المیے سے کم نہیں جس نے اس قوم کو تقسیم کرکے رکھ دیا ہے۔
وسطی امریکہ بالخصوص گوئٹے مالا، یورا گوئے اور ہنڈراس سے ہزاروں کم سن تارکین وطن کا کشتی، ریل اور بس کے ذریعے پندرہ سو میل کا پُر خطر سفرکرکے ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی (مغربی) سرحد پر روزانہ نمودار ہونا اورتیس کروڑ کے ملک میں بارہ کروڑ ہسپانوی بولنے والوں کے غیر قانونی ہجوم میں گم ہو جانے کی خواہش کرنا بھی اسی کشش کے طفیل ہے۔ یہ سلسلہ2011 ء میں شروع ہوا اور رفتہ رفتہ بچوں کی تعداد میں اضافہ ہو تا چلا گیا۔ اخراج میں اس افواہ کو بھی دخل ہے کہ اگر بچے لاگرانڈے کے پار ہو جائیں تو امریکہ میں ٹھہر سکتے ہیں۔ یہ دریا امریکہ اور میکسیکو کے درمیان سرحد کی نشان دہی کرتا ہے، ہر چندکہ کیلی فورنیا اور اریزونا کی سرحدیں بھی ہمسایہ ملک سے ملتی ہیں۔ بارک حسین اوباما نے وائٹ ہاؤس میں دا خل ہونے کے بعد جواقدامات کئے ان میں امیگریشن اصلاحات شامل تھیں‘ جن میں سے ایک کا مقصد میکسیکو سے آنے والے بچوںکو اس ملک میں قیام کے لئے ایک امتحان کو وسطی امریکہ تک وسعت دینا تھا۔ جوں جوں یہ خبر امریکہ کی قانونی اورغیر قانونی آبادی میں پھیلی‘ انہوں نے غیر قانونی طریقوں سے اپنی اولادکو بلانا شروع کردیا۔ اندازہ لگایاگیا ہے کہ اس سال 72,200 بچے اکیلے دریا پار کرتے پکڑے جائیں گے اور ان میں سے 59,000 وسطی امریکہ سے آئیں گے۔کچھ بچوں کے والدین پہلے سے امریکہ میں ہیں اورکچھ کے نہیں؛ تاہم بچے سارے ملک میں پھیل رہے ہیں۔
وسطی امریکہ میں جرائم کا پھیلاؤ اور مقامی ریاستوںکا مجرموں کے سامنے بے بس ہونا اس خطے سے کم سن افراد کے اخراج کا ایک سبب ہے۔ یہ جواں سال لوگ، جہاں سینگ سما ئیں‘ جا رہے ہیں۔ ان میں سے کئی بر اعظم جنوبی امریکہ کے دوسرے ملکوں میں گئے ہیں۔ یہاں تک کہ کچھ لوگ نکاراگوا تک پہنچے ہیں جودنیا کے غریب ترین ملکوں میں سے ایک ہے۔ وہ روزگار کے علاوہ امن کے متلاشی ہیں ۔ چند سال پہلے گوئٹے مالا میں ایک پاکستانی پایا گیا تھا اور اس نے ایک خط کے ذریعے مجھے قرآن پاک کی ایک جلد بھجوانے کو کہا تھا۔ پچھلے سال جب آذربائیجان سے ایسی خبریں آئیں کہ وہاں بہت سے پاکستانیوں کی زندگی خطرے میں ہے تو حیرت ہو ئی۔ بہت سے پاکستانی بچے حصول تعلیم یا نوکری کی تلاش میں وسطی ایشیا کے اس ملک جا پہنچے تھے جہاں اعلیٰ تعلیم کا ذریعہ اب بھی روسی زبان ہے۔ ہنڈراس اور یورا گوئے میں جرائم پیشہ افراد کا راج ہے۔ جرائم پیشہ لوگ، لڑکوں اور لڑکیوں کے گھروں پر جاتے ہیں، انہیں اپنے گروہ میں شامل ہونے کی دعوت دیتے ہیں اور انکارکی صورت میں انہیں اور ان کے کنبے کے افرادکو جان سے مارنے کی دھمکی دیتے ہیں۔ امریکہ اقوام متحدہ کے منشورکے مطابق ایسے لوگوں کو پناہ دینے کا پا بند ہے اور یہی شرط اس قوم کو دو زمروں میں بانٹ رہی ہے۔ ایک کا کہنا ہے کہ ہمیں وسطی امریکہ کے بچوں کی حالت زار کا احساس ہے مگر ہم کیا کریں، ہمیں ان امریکی بچوں کی بھی فکر ہے جو والدین اورگھر بار سے محروم ہیں اور حکومت ہمارے ٹیکسوں سے ان کی نگہداشت کر رہی ہے۔ جبکہ دوسرے گروہ کا بیان ہے کہ بطور انسان، ہمیں دوسرے انسانوں کا سہارا بننا ہے۔ چرچ اور مساجد ان کے ساتھ ہیں اور مخیر حضرات اور خواتین، ان بچوں کے لئے کھانے پینے اور سر چھپانے کی جگہ کا اہتمام کرنے میں مصروف ہیں۔ حکومت کا رویہ بین بین ہے، ایک طرف وہ والدین تک یہ پیغام پہنچا رہی ہے کہ انسانی سمگلروںکے ذریعے بچوںکو اکیلے ہزاروں میل کے سفر پر روانہ کرنا ان کی زندگی اور عزت کو خطرے میں ڈالنے کے مترادف ہے اور امریکہ میں ان کا داخلہ غیر قانونی بھی ہو سکتا ہے جبکہ دوسری جانب وہ کانگر یس سے کہہ رہی ہے کہ سرحدوں کی حفاظت مضبوط تر بنانے اور عدالتی نظام کو وسعت دینے کے لئے 3.7 ارب ڈالر منظورکئے جائیں۔
یہ ایک معاشی مسئلہ ہے جو امریکہ پہنچ کر بڑی حد تک سیاسی بن جاتا ہے۔ رائے دہندگان کی ایک بڑی تعداد ہسپانوی ہے، ان کے اپنے کانگریس مین اور سینیٹر ہیں جو ووٹ کے لئے ان کے پاس جاتے ہیں مگر جیسا کہ ہنڈراس کے سب سے بڑے شہر سے، جس نے بچوں کے بڑے بڑے گروپ امریکہ بھیجے ہیں‘ ایک اخبار نویس کی رپورٹ کے مطابق مسئلہ وسطی امریکہ کی غربت ہے۔ وہ امریکہ آ رہے ہیں کیونکہ یہاں ایک اچھی نوکری کا مطلب ہے سنتالیس ڈالر فی ہفتہ پر sweatshop میں انڈرویئر سینا۔ سویٹ شاپ اس فیکٹری کوکہتے ہیں جوکسی مکان کے تہ خانے میں مزدوروں سے غیر قانونی کام لیتی ہے اورانہیں مروجہ اجرت سے بہت کم معاوضہ ادا کرتی ہے۔ وہ ایک ایسا محلہ چھوڑ رہے ہیں جس میں قدم قدم پر متروکہ مکان ملیں گے جن پرگینگ کے درفنطنی نعرے سپرے پینٹ کئے گئے ہیں۔چھتیں ڈھے رہی ہیں اور رہنے کے کمروں میں جنگلی پودے اُگ رہے ہیں۔
امیگریشن کے موجودہ قوانین کے تحت اگر تارک وطن یہ ثابت کر دکھائے کہ وہ اپنے ملک میںدارو گیرکا شکار تھاتو وہ انسانی ہمدردی کا مرتبہ پانے کے اہل ہو جاتا ہے۔ اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے پناہ گزیناں نے حال ہی میں وسطی امریکہ سے آنے والے کوئی ساٹھ فیصد بچوں سے انٹرویوکیا اور اس نتیجے پر پہنچا کہ ان میں سے آدھے کسی انسانی تحفظ کے اہل قرار پائیں گے۔ میکسیکو کے جو بچے امریکہ میں داخل ہونے پر پکڑے جاتے ہیں، سرحدی محافظ بلا تاخیر ان سے بات کرتا ہے۔ اگر لڑکا یا لڑکی یہ ثابت کر دے کہ واپس جانے کی صورت میں اسے جبر و استبدادکا سامنا ہوگا یا اسے برآمد کے لئے بیچ دیا جائے گا تو اسے زیر حراست رکھا جاتا ہے جس میں یہ امکان موجود ہوتا ہے کہ آخر کار وہ امریکہ میں رہے گا ۔اوباما انتظامیہ کے پاس اکیلے سفرکرنے والے بچوں سے نبٹنے کا کافی اختیار نہیں ہے کیونکہ کانگریس انسانی سمگلنگ کی روک تھام کے سلسلے میں ایک طریق کار نافذکر چکی ہے۔ اس کے مطابق صحت اور انسانی خدمات کا محکمہ ایچ ایچ ایس بچے کا کوئی موزوں رشتے دار تلاش کرکے اسے اس کی سپرد داری میں دے دیتا ہے، بصورت دیگر اس کے لئے ایک لے پالک گھر ڈھونڈتا ہے اور لمبی مدت کے لئے اسے وہاں چھوڑ دیتا ہے۔ آج کل وائٹ ہاؤس اور مقننہ میں چھ سال پہلے منظور ہونے والے اس قانون کوبدلنے کی بات چل رہی ہے۔ صدر اس قانون میں تبدیلی چاہتے ہیں جس نے وسطی امریکہ سے اکیلے سفرکرنے والے اٹھا رہ سال سے کم عمر لڑکوں اور لڑکیوں کو واپس بھیجنا دشوار بنا رکھا ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں