گاہے گاہے باز خواں

ہیرو شیما پر ایٹم بم گرانے والے ہوائی جہاز کے بارہ کارکنوں میں سے آخری ' تھیو ڈور وین کرک بھی چل بسا۔ اس کی عمر93سال تھی اور وہ سٹون ماؤنٹین جارجیا کے ایک اولڈ ہوم میں زیر علاج تھا ۔اس نے جنگی طیارے ‘‘ اینولا گے '' پر نیوی گیٹر کے فرائض انجام دیے تھے اور جاپانی شہر اور اس کے بڑے پُل کو پہچا نا تھا۔ (ایئر اینڈ سپیس میوزیم میں یہ طیارہ آج بھی دیکھا جا سکتا ہے)مسٹر وین کرک ڈچ کہلاتا تھا اور اسے نہیں بتایا گیا تھا کہ اسے جاپان کے صنعتی مرکز پر اس وقت کا سب سے طاقت ور بم پھینکنے والے جہاز کی رہنمائی کرنی ہے۔ ریاست یوٹا میں تربیت کے دوران اس کے سامنے کسی نے ایٹم یا نیوکلیئر بم کا نام تک نہیں لیا تھا‘ البتہ اسے یہ معلوم تھا کہ پے لوڈ گرانے پر جہاز کو ایک دھچکا لگے گا؛ چنا نچہ جونہی بمبار ٹام فریبی نے بم گرایا پائلٹ پال ٹبٹس نے اس کا رخ فوراً موڑا۔ نیچے ایک لاکھ چالیس ہزار جاپانی مر رہے تھے ۔
جاپان اب بھی ایک صنعتی ملک ہے اور اس کی مصنوعات بالخصوص الیکٹرانکس اور موٹر گاڑ یاں ساری دنیا پر چھائی ہوئی ہیں‘ مگر پانچ اگست 1945ء سے پہلے دو نمبر کی تمام اشیا بیزاری سے ''جاپا نی مال‘‘ کہلاتی تھیں ۔ وہ نازی جرمنی کا اتحادی اور دوسری جنگ عظیم میں شامل تھا۔ اگرچہ پہلی عالمی لڑائی کی طرح یہ بھی یورپ کی جنگ تھی مگر مغربی نو آبادیاتی حکمرانوں نے اسے ساری دنیا کی جنگ بنا دیا تھا اور برطانوی ہند بھی بادل نخواستہ اس میں شریک تھا۔امریکہ نے ایک یورپی طاقت کے ایشیائی اتحادی کو تباہ کرنے کی ٹھانی اور تین دن بعد دوسرے جاپانی شہر ناگا ساکی کو ایٹم بم کا نشانہ بنایا‘ جو مزید 80ہزار اموات کا سبب بنا اور چودہ اگست کو جاپان نے اتحادیوں کے سامنے ہتھیار ڈال دیے۔جنگ کا یورپی تھیٹر چار ماہ قبل ہٹلر کی خودکشی پر بند ہو چکا تھا۔ انڈین نیشنل کانگرس کے کئی لیڈر نازی جرمنی کے چانسلر اڈولف ہٹلر سے ہمدردی رکھتے تھے ۔انہوں نے ہٹلر کی امداد کے لئے آزاد ہند فوج قائم کی تھی ۔ اس کے ایک لیڈر سبھاش چندر بوس اب تک لا پتہ ہیں ۔پاکستان اسی جنگ کے خاتمے کے نتیجے میں ٹھیک دو سال بعد معرض وجود میں آیا۔
تھیو ڈور ڈچ وین کرک Theodore Dutch Vankirk نے اس واقعہ کے کئی عشرے بعد ایک اخباری انٹرویو میں بتایا کہ پیچھے مڑ کر دیکھا تو ہیرو شیما کو دھوئیں اور گرد کی لپیٹ میں پایا ۔ سارا شہر کولتار کے ایک کھولتے ہوئے سیاہ پتیلے کی طرح تھا اور اس کے کناروں پر جگہ جگہ آگ بھڑک رہی تھی ۔ایٹم بم چلانے کی سرگرمی میں ملوث بیشتر امریکی ایٹمی جنگ سے توبہ کر چکے ہیں ۔ دو سا ئنسدانوں ( روزنبرگ جوڑے) نے تو ایٹمی راز سوویت یونین کے حوالے کرنے کی بنا پر موت کی سزا پائی۔ پاکستان اور بھارت نئی ایٹمی طاقتیں ہیں اور ان کے عقاب کبھی کبھار ایک دوسرے کے خلاف جوہری اسلحہ استعمال کرنے کی دھمکی دیتے ہیں مگر دنیا کے تمام دانشور مانتے ہیں کہ ایٹم بم کا پہلا اور آخری استعمال ہو چکا ۔یہ ہتھیار چھوٹی قوموں کو بڑی قوموں کے سامنے سر اٹھا کر چلنے کا اذن تو دیتے ہیں مگر جنگی مقاصد کے لئے ان کا استعمال ناقابل قبول ہے۔ ان ملکوں میں ووٹ دینے والوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ وہ ایک سیاسی لیڈر ہی کو ووٹ نہیں دے رہے بلکہ ایک ایسے شخص کو چُن رہے ہیں جو ان کی ایٹمی قوت کا مالک بھی ہو گا ۔
ڈچ وین کرک اور B- 29 Superfortressکے عملے کے باقی ارکان ساڑھے پانچ گھنٹے کا سفر طے کرکے مقامی وقت کے مطابق سوا نو بجے ہیرو شیما پہنچے تھے۔ وین کرک نے شہر کے نشانات دیکھ لئے تھے جن میں T شکل کا ایک پُل بھی تھا جو اس مشن کا اصل ہدف تھا ۔ایٹم بم جسے Little Boyکا نام دیا گیا تھا جہاز کے پیٹ سے نکلا اور زمین پر تباہی مچ گئی۔ اس وقت وین کرک کی عمر چوبیس سال تھی ۔ وہ دوسری جنگ عظیم میں تقریباً ساٹھ پروازیں کر چکا تھا ۔اس کے چارٹ تیار تھے ۔ جزائر بحر الکاہل کے خاکے اور ستاروں کے محل وقوع کے نقشے اس کے پاس تھے ۔ وہ ساری رات جاگتا اور پرواز کے دوسرے ارکان کے ساتھ تاش کھیلتا رہا۔
''میں نہیں جانتا تھا کہ وہ آپ کو کیسے بتائیں گے کہ آپ ایٹم بم گرانے جا رہے ہیں اور آپ یہ جانتے ہوں کہ آیا یہ کارگر بھی ہوگا یا یہ ہوائی جہاز کو اڑا نہیں دے گا اور یہ سب کچھ کہنے کے بعد آپ سے کہیں کہ کچھ نیند لے لو‘‘ ایئر فورس کے میجر وین کرک نے کئی سال بعد کہا ۔اس نے صبح ہونے سے پہلے بمبار طیارے میں اپنی جگہ سنبھال لی تھی ۔ بم گرانے کے بعد اس نے سوچا جنگ ختم ہو گئی مگر یہ جنگ تو کسی نہ کسی شکل میں آج بھی جاری ہے۔ چند سال پہلے ایک جا پانی سپاہی جنگل سے نکلا تو اسے جنگ کے خاتمے کا یقین دلانے کے لئے اس کے کمانڈر کو لا نا پڑا۔ 1943ء میں فوج سے ریٹائر ہونے پر وین کرک نے شادی کی۔بچے پیدا کئے۔ کیمیکل انجینئرنگ میں ماسٹرز کیا اور 35سال ڈوپانٹ کیمیکل کمپنی کے شعبہ ما رکٹنگ میں ملازمت کی ۔
دنیا آج ایک عدیم المثال خلفشار میں مبتلا ہے۔ مسافر بردار طیاروں کو مار گرا یا جا رہا ہے ۔مغرب نے یوکرائن کی صورت حال کے پیش نظر روس پر اقتصاد ی سفارتی اور مالی تعزیریں عائد کر دی ہیں اور امریکہ نے جو سرد جنگ کے خاتمے کا سہرا اپنے سر باندھتا ہے‘ اپنے مغربی اتحادیوں کا ساتھ دیا ہے ۔عراق کے تین ٹکڑے ہونے سے پہلے ابو بکر بغدادی نے خلافت کا اعلان کیا ہے اور اس کی فوجیں شام اور عراق کے کئی شہروں پر قبضے کے بعد قدیم شخصیتوں کے مزارات کو مسمار کر رہی ہیں۔ لیبیا میں کم از کم دو مسلح گروہ اقتدار کے حصول کی خاطر لڑ رہے ہیں اور امریکہ نے طرابلس میں اپنا سفارت خانہ بند کر دیا ہے ۔ پاکستان میں انتہا پسندوں کے خلاف فوجی اقدام جاری ہے اور شمالی وزیرستان کے کوئی دس لاکھ افراد اپنے وطن میں بے گھر ہو گئے ہیں۔ نائیجیریا میں اغوا اور قتل کی وارداتوں میں اضافہ ہو اہے اور اسرائیل نے غزہ کے لوگوں کو جمہوری طریقے سے حماس کی حکمرانی قبول کرنے پر کڑی سزا دی ہے۔ صدر اوباما اور سیکرٹری آف سٹیٹ جان کیری ''اسرائیل کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے‘‘ کی رٹ لگاتے رہے اور واشنگٹن‘ لندن‘ پیرس‘ برلن اور دوسرے صدر مقامات پر احتجاجی مظا ہرے ہوئے ہیں مگر کسی فریق نے مخالف پر ایٹم بم برسانے کا اشارہ نہیں کیا ۔اس لئے لازم ہے کہ ہیرو شیما کے واقعے کو بار بار دہرایا جائے ۔گاہے گاہے باز خواں ایں قصہ پارینہ را۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں