مشرق وسطیٰ کا منظر

امریکہ نے داعش کے خلاف جنگ کا اعلان کر دیا ہے ۔ صدر اوباما نے نا ئن الیون کی تیرہویں برسی پر ریڈیو اور ٹیلی ویژن سے قوم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: ''امریکہ‘ دہشت کے خطرے کو واپس کرنے کے لئے ایک وسیع البنیاد اتحاد کی قیادت کرے گا۔ ہمارا مقصد واضح ہے۔ ہم آئی ایس آئی ایل کو نیچا دکھائیں گے اور آخر کار اسے تباہ کر دیں گے‘‘۔ جنگ و جدل سے تھکی ہوئی قوم کا حوصلہ بڑھانے کے لئے صدر نے یہ بھی کہا کہ انتہا پسندوں کے خلاف فوجی اقدام میں لڑاکا فوجی ملوث نہیں ہوں گے۔ یہ کارروائی شام اور عراق دونوں پر ہوائی حملوں اور زمین پر فوجی ساجھے داروں کی امداد سے مکمل کی جائے گی۔ صدر اوباما نے تقریر سے پہلے سعودی عرب کے بادشاہ عبداللہ کو فون کیا اور اوباما کے وزیر خارجہ جان کیری پیشگی اطلاع دیے بغیر بغداد پہنچے اور ''خلافت اسلامیہ‘‘ کے لشکر سے لڑائی کے لئے عراق کے نئے حکمرانوں کو اڑتالیس ملین ڈالر پیش کئے۔ چیف ایگزیکٹو کا کہنا ہے کہ یہ کارروائی عراق اور افغانستان کی جنگوں سے مختلف ہوگی۔یوں ایک لیڈر‘ جس نے چھ سال پہلے جنگ کی مخالفت کی بنا پر الیکشن لڑا تھا‘ ایک جنگ کا جواز مہیا کرتا دکھائی دیا ۔ زیر لب ان کی اپنی ڈیمو کریٹک پارٹی سے زیادہ مخا لف ریپبلیکن ارکان اس اقدام کی حمایت کر رہے ہیں ۔سپیکر جان بینر بولے: ''آخر کار انہوں نے وہ کیس بنانا شروع کر دیا ہے جو قوم انہیں کچھ عرصے سے بنانے کو کہہ رہی تھی‘‘۔ یعنی یہ کہ دہشت گردی کے اس خطرے کو ختم کرنے کے لئے فیصلہ کن اقدام کی ضرورت ہے اور لازماً یہ امریکہ اور آزاد دنیا کی دوسری قوموں کی بلند ترین ترجیح ہونی چاہیے ۔
ستر کے عشرے میں چار جماعتیں اخوان المسلمون‘ حزب التحریر‘ جماعت اسلامی اور طالبان تھیں۔ ان چالیس برسوں میں کچھ معدوم ہوئیں‘ کچھ کے حصے بخرے ہوئے اور کچھ نے پارلیمانی پارٹیوں کی شکل اختیار کی۔ اب القاعدہ‘ حماس‘ حزب اللہ‘ الشباب‘ بوکو حرام‘ خلافت اسلامیہ اور ان کی شاخوں کا دور دورہ ہے اور وہ سب اپنے آپ کو اساس پسند اور باقی مسلمانوں کو کافر کہتی ہیں۔ جب تک مشرق ومغرب میں سرد جنگ جاری تھی جہادی گروہ‘ سوویت یونین کو نشانہ بناتے تھے اور ماسکو کے خلاف بعض اوقات واشنگٹن سے اسلحہ اور مالی امداد لیتے تھے مگر چپقلش ختم ہوتے ہی ان کی توپوں کا رخ امریکہ کی جانب ہو گیا‘ اگرچہ ان کا کہنا ہے کہ امریکہ کو اپنے ہتھیار بیچنے کے لئے گاہک چاہیے۔ اگر ''دشمن‘‘ ایجاد کرنا پڑے تو وہ کر لے گا۔ 
امریکہ کا نیا دشمن خلافت اسلامیہ کا لشکر ہے جو طا لبان کی طرح یک بیک اٹھا اور تیزی سے بغداد کی جانب بڑھ رہا ہے۔ اگر طالبان‘ اسامہ بن لادن کو پناہ نہ دیتے تو شاید اب تک کابل پر حکومت کرتے۔ اگر خلافت‘ یکے بعد دیگرے دو امریکی صحا فیوں کے سر قلم کرکے ان ہولناک مناظر کو انٹر نیٹ پر نہ ڈالتی تو شاید اب تک وہ شام اور عراق کو فتح کرکے تیل سے مالا مال عرب ریاستوں کی طرف رواں دواں ہوتی۔ مغرب کا اسے شیعہ سنی نزاع کہنا درست نہیں ۔لشکر کی یلغار کا ایک رخ اربیل کی طرف تھا جو کردستان کا علا قائی دارالحکومت ہے اور کرد زیادہ تر اہل سنت ہیں۔ 
امریکیوں کو اپنی غلطی کا اعتراف کرتے ہو ئے مشرق وسطیٰ سے نکلے چار سال سے زیادہ عرصہ ہو گیا ہے ۔اس اثنا میں بغداد کی حکومت غیر مستحکم ہوئی اور شام میں خانہ جنگی کی آگ بھڑکی مگر اس نے خطے میں مداخلت کی جسارت نہیں کی؛ تاہم جب سے امریکی ذرائع ابلاغ نے ہتھیار ڈالنے والے شامی اور عراقی سپاہیوں کے قتل عام اور اخبار نویسوں کے سر کٹنے کی تصویریں نشر کی ہیں واشنگٹن پر عوامی دباؤ بڑھ گیا ہے‘ اس نے خلا فت پر ڈیڑھ سو سے زیادہ ہوائی حملے کئے ہیں لیکن لگتا ہے کہ خلافت سے امریکی لڑائی مختصر نہیں ہوگی۔ اسے افغانستان کی دلدل میں پھنسے تیرہ سال ہونے کو آئے‘ عراق اور شام تو وسیع علاقہ ہے اور پھر خلافت کی اپیل بھی دور تک جاتی ہے ۔
سنتے ہیں کہ پاکستان میں داعش کی تنظیم زیر غور ہے ۔لاہور میں ایک صاحب ہوا کرتے تھے جو خلافت اسلامیہ کی تبلیغ کرتے تھے۔ وہ تو اس دنیا سے گزر گئے مگر خلافت کے نظریے کے بہت سے پاسدار چھوڑ گئے ہیں جو پورے جوش و جذبے کے ساتھ مجوزہ جماعت میں شامل ہونا چاہیں گے۔ پاکستان‘ جسے سولہ سو میل ڈیورنڈ لائن افغا نستان سے الگ کرتی ہے دونوں‘ ان کے نزدیک اس دینی قلمرو میں داخلے کے امیدوار ہوں گے۔ گویا وہ ممکنہ طور پر عراق اور شام کا منظر پیش کریں گے۔ اس حوالے سے وقت نہایت قابل غور ہے۔ امریکہ افغانستان سے اپنی بیشتر فوج ہٹا رہا ہے ۔ کابل میں صدارت کا جھگڑا شروع ہو چکا ہے اور ملک ایک بار پھر خانہ جنگی کے حصار میں آ سکتا ہے ۔پاکستان میں بھی اعتدال پسندوں سے انتہا پسندوں کی لڑائی جاری ہے۔ 
میں نے استنبول میں قصر خلافت‘‘ توپ کاپی '' دیکھا ہے اور وہ مسقف بازار بھی جس کا افتتاح آخری خلیفہ عبدالحمید نے کیا تھا۔ واشنگٹن میں پہلی عید کا خطبہ سنا جو کراچی کے کسی مدرسے میں دینی تعلیم پانے والے ایک پنجابی مولوی نے رٹا ہوا تھا۔ ایک عربی داں ساتھی زیر لب بولا: ارے یہ تو خلیفہ عبدالحمید کی اطاعت پر زور دے رہا ہے جسے اس دنیا سے کوچ کئے کوئی ایک صدی گزر چکی ہے ۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد ترک فوج کے سپہ سالار کمال اتاترک نے خلافت کی صف لپیٹ دی تھی اور ''یورپ کے مرد بیمار‘‘ کو ترقی کی راہ پر ڈالا تھا۔ داعش اسی عثمانی خلافت کی بحالی کے لئے کو شاں ہے ۔
یہ کوشش خود خلیفہ نے بھی کی تھی اور مُلا جلال الدین افغانی کو یہ مشن اور بہت سا پیسہ دے کر بر صغیر بھیجا تھا ۔گاندھی جی اور ان کے مسلم بھگتوں نے یہ مشن سینے سے لگا لیا مگر محمد علی جناح نے اسے ''بچگانہ‘‘ کہہ کر رد کر دیا ۔ تحریک خلافت ہما رے لوک ورثے میں موجود ہے ۔عورتوں کا ایک گروہ ''غازی مصطفی پاشا کمال‘‘ کی بلائیں لیتا اور دوسرا محمد علی جوہر کو خلافت پر جان دینے کی نصیحت کرتا تھا ۔ دنیا ئے اسلام میں یہ ذہنی خلفشار اب تک چلا آ رہا ہے مگر عا متہ المسلمین آج بھی کمال اتاترک کی لائی ہوئی ارتقا پذیر جمہوریت کو سلام پیش کرتے ہیں ۔
داعش نے‘ جو مسلم ممالک کے مابین بین الاقوامی سرحدوں کو رد کرتی ہے‘ شام اور عراق کی کئی بستیوں پر قبضہ کر لیا ہے جن میں شمالی عراق کا تیل کا شہر موصل بھی شامل ہے ۔اس کا لشکر حدیثہ بند کی طرف جا رہا تھا جب امریکہ نے بمباری کرکے یہ پیش قدمی روک دی مگر وہ پھر بھی متا مل رہا ۔اس تا مل کی وجوہ ہیں۔ داعش شام اور کردستان کے اہل سنت کے خلاف ہے۔ وہ عراق کی شیعہ حکومت کو بھی نا پسند کرتی ہے ۔امریکہ نے شام کے با غیوں کو ہتھیار دیے‘ جن میں سے کچھ داعش کے ہتھے چڑھ گئے ہیں۔ اس کے سلفی لشکریوں پر حملے جاری رکھ کر وہ بشارالاسد کی حمایت کا تاثر نہیں دے سکتا۔وہ کردستان اور عراق کے مابین موجودہ تعلق کو بھی برقرار دیکھنا چاہے گا۔ وہ نوری المالکی کو اقتدار سے سبکدوش ہونے کا مشورہ دے چکا ہے مگر نہیں چاہتا کہ عراق پر شیعہ تسلط کی جگہ سنی غلبہ ہو اسی لئے وہ ایران سے بھی تعلقات بہتر کرنے کی سعی کر رہا ہے ۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں