دفاعی ہتھیاروں کو زنگ نہ لگنے پائے

جن دنوں وزیر اعظم نواز شریف اقوام متحدہ سے خطاب کرنے کے لئے نیو یارک روانہ ہونے والے تھے۔ امریکی میڈیا کی پرانی عادت کے مطابق اخبار واشنگٹن پوسٹ نے اسلام آباد سے اپنے دو نامہ نگاروں کی ایک طویل خبر شائع کی‘ جس میں ایک بار پھر پاکستان کے جوہری اسلحے کی حفاظت کا سوال اٹھایا گیا۔ اخبار پاکستان اور مغربی تجزیہ کاروں کے حوالے سے لکھتا ہے کہ پاکستان اپنی سمندری صلاحیت کو بہتر بنانے کی کوشش میں آگے بڑھ رہا ہے۔ ''نیوکلیائی میزائل بن گئے تو انہیں ایک بحری جہاز یا آبدوز کشتی سے چلایا جا سکے گا اور وہ ملک کو کسی جوہری جنگ میں اپنے تمام زمینی ہتھیار تباہ ہونے کی صورت میں ''دوسری ضرب‘‘ لگانے کا موقع دیں گے‘ مگر پاکستان کے جوہری اور میزائلی پروگرام میں توسیع‘ ایک ایسی سرزمین پر ایسے ہتھیاروں کی حفاظت پر بین الاقوامی تشویش کی تجدید کر رہی ہے‘ جو ایک درجن سے زیادہ اسلامی انتہا پسند تنظیموں کا گھر ہے‘‘۔
سیاسی ہنگامے‘ دہشت گردانہ حملے اور جوہری اسلحے سے لیس ایک ایسا ہمسایہ جس سے پاکستان تین جنگیں لڑ چکا ہے اس اندیشے کو بقول اخبار گہرا کر رہے ہیں۔ عدم استحکام حال ہی میں اجاگر ہوا‘ جب اسلام آباد میں تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے پُرہجوم مظاہروں نے حکومت کو تقریباً بے بس کر دیا۔ اس دوران بھارت اور پاکستان لائن آف کنٹرول پر ایک دوسرے پر گولہ باری کرتے رہے اور پاکستان نے زبان بے زبانی سے یہ پیغام دیا کہ وہ ایسے ایٹم بم بنا رہا ہے‘ جنہیں بحر ہند میں نصب کیا جا سکے گا یا اس کی پانچ آبدوزوں میں سے کسی ایک سے چلایا جا سکے گا۔ اس آرزو کا سراغ 2012 ء میں ملا جب پاکستان نے نیول سٹریٹجک فورس کمان قائم کی جو نیوکلیائی اسلحے کی نگرانی کرنے والی ان کمانوں سے ملتی جلتی تھیں‘ جو آرمی اور ایئرفورس میں قائم کی گئی ہیں۔
1998 ء میں‘ جب پاکستان نے بھارت کے دھماکوں کے جواب میں اپنے ایٹم بم کی آ زمائش کی‘ نواز شریف ہی وزیر اعظم تھے۔ اس وقت سے مغربی عہدیدار پاکستان کے جوہری منصوبے کے تحفظ پر فکر مندی کا اظہار کر رہے ہیں۔ اس دوران پاکستان میں یہ بحث چل نکلی ہے کہ آیا مسلح افواج‘ سول حکومت کے ماتحت ہونی چاہئیں؟ سابق منتخب حکومت کے آخری دور میں نام نہاد میمو گیٹ اس ضمن میں آزمائش بنا۔ قطع نظر اس بات کے کہ امریکی حکام کو یہ میمو حسین حقانی نے لکھا یا منصور اعجاز نے‘ بنیادی سوال یہ تھا کہ آیا ہر ہیئت حاکمہ‘ ایک سویلین اتھارٹی کے تابع ہونی چاہیے؟ آج تک کسی صائب الرائے کو اس نظریے کی مخالفت کرتے ہوئے نہیں دیکھا یا سنا۔ آئین کے تحت بھی ایک وزارت دفاع قائم ہے مگر سب کے علم میں ہے کہ پاکستان کی مسلح افواج شروع سے ہی اپنی معیّن حدود میں کام کرتی رہی ہیں اور جب برسر اقتدار آنے کے بعد صدر آصف علی زرداری نے ان حدود میں ردوبدل تجویز کی اور مسلح افواج کے شعبہ جاسوسی کو سول اتھارٹی کے تحت کرنے کو کہا تو زور و شور سے ان کی مخالفت کی گئی۔ اسی طرح پاکستان کے جوہری اثاثوں کی تحویل کا معاملہ ہے‘ جنہیں ملٹری کا Strategic Planning Directorate کنٹرول کرتا ہے۔ وزیر اعظم بلاشبہ ملک کی نیشنل کمانڈ اتھارٹی کے چیئرمین ہیں۔ فوجی اور سویلین افسروں پر مشتمل یہ گروپ دشمن پر ایٹم بم پھینکنے کا فیصلہ کرے گا مگر یہ واضح نہیں کہ سویلین حکومت کو ملک کے ایٹمی ہتھیاروں کا براہ راست کتنا علم ہے۔ پاکستان میں بحری اڈوں‘ جی ایچ کیو اور دوسری فوجی تنصیبات پر جان لیوا حملے ہوئے ہیں۔ القاعدہ کی خرمستیوں کے بعد اب مبینہ طور پر ابوبکر البغدادی کی خلافت منظم ہو رہی ہے۔ ملک میں بدامنی ہے جس کے پیش نظر نیوکلیائی اسلحے پر فوج کا مکمل کنٹرول ہی مغربی حکام کے اطمینان کا باعث ہے۔
اندازہ لگایا گیا کہ نو ملکوں کے پاس جوہری ہتھیاروں کی تعداد 16,300 ہے۔ اسرائیل کے پاس 80 بم ہیں مگر امریکی صحافت کی معروضیت کے اعتراف کے باوصف یہ کہنا پڑتا ہے کہ نیتن یاہو آئے دن واشنگٹن میں ہوتے ہیں‘ مگر کوئی صحافی ان کے ملک کی جوہری قوت کی تفصیل بتانے کی جسارت نہیں کرتا۔ اس فہرست کے مطابق بھارت کے پاس 110 اور پاکستان کے پاس 120 جوہری ہتھیار ہیں۔ اس عددی برتری کے باوجود بقول ماریہ سلطان ''پہلے ہمارے پاس بڑے ہتھیار تھے لہٰذا ہمارے (deterrence) یعنی مزاحمت کی صلاحیت میں خلا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ہم نے tactical ہتھیاروں اور میزائلوں کا راستہ اختیار کیا‘‘۔ اخبار نے اسلام آباد میں ماریہ سلطان کے تھنک ٹینک کو پاکستانی ملٹری سے گہرے رابطوں کا حامل کہا ہے۔ یہ ہتھیار تھوڑے فاصلے پر مار کر سکتے ہیں زمین کے قریب پرواز کر سکتے ہیں اور ان کی نقل و حمل آسان ہوتی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ یہ اشارہ بھارت کی طرف ہے۔ اخبار نے اپنے موقف کی تائید میں منصور احمد‘ پرویز ہود بھائی اور شیریں ایم مزاری کے بیانات بھی نقل کئے ہیں۔
بھارت نے بھی اپنے جارحانہ اور دفاعی جوہری اسلحے کی تحقیق اور ترقی کی رفتار تیز تر کر دی ہے۔ دو سال قبل اس نے اپنے پہلے بین البراعظمی بلسٹک میزائل کا تجربہ کیا تھا‘ جو 3100 میل دور تک مار کر سکتا ہے۔ ابھی فروری میں ایک بھارتی اخبار نے اطلاع دی کہ میزائل اور جوہری طاقت سے چلنے والی پہلی آبدوز اگلے سال کے شروع میں کام پر لگائے جا سکیں گے۔ مئی میں بھارت نے اپنے مجوزہ میزائلی دفاعی نظام کی پہلی آزمائش کی‘ اگرچہ نئی دہلی کا کہنا ہے کہ اس کے بیشتر دفاعی انتظامات پاکستان نہیں‘ بلکہ چین کے خلاف ہیں۔ پاکستان کی مسلح افواج اپنے نیوکلیائی منصوبے پر گزشتہ ایک عشرے سے نظرثانی کر رہی ہیں‘ اس اندیشے کے تحت کہ بھارتی افواج اچانک سرحدی جارحیت کے لئے دہشت گردی کے خطرے کا حوالہ دیں گی۔
پاکستان کو معلوم ہے کہ وہ نفری اور روایتی اسلحے کے میدان میں بھارت کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ توازن پیدا کرنے والی قوت پاکستان کی ایٹمی طاقت ہے۔ اس کی پانچ لاکھ فوج کا ایک تہائی بھارت کی سرحد پر نہیں‘ افغانستان کی سرحد پر انتہا پسندوں سے لڑ رہا ہے۔ اگر تحقیق اور ترقی کا معروف راستہ اختیار نہ کیا گیا‘ تو اس کے دفاعی ہتھیاروں کو زنگ لگ جائے گا۔ اس نے بار بار بابر نامی کروز میزائل آزمائے ہیں‘ جو چار سو میل تک جا سکتے ہیں اور خشکی اور سمندر کے چنیدہ نشانے تباہ کر سکتے ہیں۔ پچھلے سال اس نے نئے ٹیکٹیکل جوہری استعداد رکھنے والے میزائلوں کی بھی آزمائش کی جو سینتیس میل دور تک جا سکتے ہیں۔ وہ ایسے چھوٹے فاصلوں کے کروز میزائل بنا رہا ہے‘ جو زمین کے قریب پرواز کر سکیں اور بلسٹک میزائل دفاعی تنصیبات سے بچ کر نکل جائیں۔
اخبار نے واشنگٹن کے تھنک ٹینک سٹمسن سنٹر کے مائیکل کریپون کا بیان بھی نقل کیا‘ جو کہتے ہیں: ''پاکستان نے اپنے جوہری منصوبے کی حفاظت کے بارے میں جو یقین دہانیاں دنیا کو کرائی ہیں‘ ان کی کڑی آزمائش تھوڑے فاصلے اور سمندر پر مبنی نظاموں سے ہو گی‘ مگر وہ آ رہے ہیں۔ پاکستان کے نیوکلیائی پروگرام کا اصل الاصول یہ رہا ہے فکر نہ کرو ہم وارہیڈ کو لانچر سے الگ کرتے ہیں۔ سمندر پر ایسا کرنا بہت دشوار ہو گا‘‘۔ مسٹر کریپون فکر نہ کریں یہی امن کا راستہ ہے۔
آیا امریکہ کو پاکستان کے سمندری ہتھیاروں پر تشویش ہے؟ جب یہ سوال سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ سے پوچھا گیا تو اس کا جواب حسب معمول سفارت کارانہ تھا۔ جین ساکی نے کہا: ''اپنے پروگراموں اور منصوبوں پر بات کرنا پاکستان کا کام ہے‘‘۔ ہم تمام جوہری ملکوں پر مسلسل زور دے رہے ہیں کہ وہ اپنی نیوکلیائی اور میزائلی صلاحیتوں کے بارے میں ضبط سے کام لیں۔ ہم اعتماد سازی اور استحکام کی کوشش کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں‘‘۔ سعو دی عرب اور بحرین میں فوجی اڈوں کی موجودگی کے باوجود امریکہ نے عراق اور شام میں انتہا پسندوں کے ٹھکانوں پر دو سو کے لگ بھگ جو ہوائی حملے کئے بحری جہازوں سے کئے گئے ہیں۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں