51 ویں ریاست کا خواب

اگر آپ کا کبھی امریکہ کے قومی دارالحکومت میں آنا ہوا ہے تو آپ نے بہت سی موٹر گاڑیوں کی پشت پر یہ الفاظ دیکھے ہوں گے ''نمائندگی کے بغیر ٹیکس نہیں لگایا جا سکتا‘‘ (No Taxation Without Representation) ۔ یہ عبارت شہر کے میئر اور قانون ساز ادارے کے ارکان کی کاروں پر بھی نظر آتی ہے ۔ ان کے حکم پر دفتر کی پیشانی سے Washington D.C.کے الفاظ کھرچ کر مٹادیے گئے ہیں اور وائٹ ہاؤس کے نواح میں ایک عمارت کی پیشانی پر آٹھ فٹ کا ایک متحرک کتبہ آویزاں ہے جو ہر لمحے سرخ جلی حروف میں اس وفاقی ٹیکس کا اعلان کر رہا ہے جو ڈسٹرکٹ کے شہری ادا کرتے ہیں۔ ''ڈسٹرکٹ آ ف کولمبیا‘‘ اب صرف شہر کی حدود کا اعلان کرتا ہے۔ کوڑے کے ڈرموں پر دکھائی دیتا ہے یا علاقائی دفتر ٹرانسپورٹ (DMV)کی جاری کردہ لائسنس پلیٹوں پر‘ جن پر مالک کو کوئی اور عبارت لکھوانے کا بھی اختیار ہے ۔ اقوام متحدہ اس صورت حال کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دے چکی ہے ۔کچھ مبصر اسے آبائے قوم کی غلطی سمجھتے ہیں‘ پھر بھی دو عشروں میں پہلی بار جب اس غلطی کے ازالے کا موقع آیا تو کانگرس طرح دے گئی۔ سینیٹ کی ایک کمیٹی کے سا منے ایک بل آیا‘ جس میں کہا گیا تھا کہ ڈسٹرکٹ آف کولمبیا 'نیو کولمبیا‘ کے نام سے ملک کی 51ویں سٹیٹ بنے گا اور ڈسٹرکٹ کونسل کو ایک سٹیٹ لیجسلیچر کا درجہ حاصل ہو گا ۔مئیر نئی ریاست کا گورنر ہوگا اور ایوان نمائندگان میں وہ ایک رکن کا اضافہ کرے گی۔بل پر رائے شماری کی نوبت نہیں آئی اور وہ چپ چاپ سرد خانے میں جا پڑا۔ گویا کانگرس شہریوں سے کہہ رہی تھی‘ ہم تم سے ٹیکس وصول کریں گے۔ اپنی جنگوں میں تمہارے بچوں کو مرنے کا موقع دیں گے لیکن کانگرس میں نمائندگی کا فقدان تمہارا مقدر ہے۔ شہر کے تین حصوں میں افریقی امریکیوں (کالوں) کی اکثریت ہے مگر ایک حصے NW میں ان کی آبادی دوسرے رنگدار لوگوں اور گوروں کے تقریباً برابر ہے ۔
واشنگٹن ڈی سی کا موازنہ اسلام آباد سے کیا جا سکتا ہے‘ جو کسی حد تک امریکہ اور کئی دوسرے ملکوں کے قومی صدر مقامات کی طرز پر تعمیر کیا گیا اور جہاں دھرنے کی صورت حال کے پیش نظر کہا جا سکتا ہے کہ انسانی حقوق قدرے زیادہ ہیں ۔بل ایک ڈیموکریٹ نے پیش کیا تھا اور ایسا لگتا ہے کہ وہ بل کے 19 محرکوں کو خوش کرنا چاہتے تھے جنہوں نے ڈرکسن بلڈنگ کے اس کمرے تک آنے کی زحمت تک گوارا نہیں کی حالانکہ ان میں سے بیشتر کے دفاتر اسی عمارت میں واقع ہیں ۔ری پبلیکن ایسے اقدام کے مخالف ہیں کیونکہ ''نیو کولمبیا‘‘ کے دو نئے ارکان کے آنے سے سینیٹ میں ان کی معمولی سی کمتری مزیدکم ہو جاتی اور ایوان میں انہیں چند ارکان کی جو اکثریت حا صل ہے‘ ایک نئے رکن کے آنے پر اس میں کمی واقع ہوتی ۔ پھر بل پیر کے روز پیش کیا گیا جب بیشتر کانگرس منک اپنے آبائی حلقوں میں ہوتے ہیں ۔بل کے محرک ہوم لینڈ سکیورٹی اینڈ گورنمنٹ افیئرز کمیٹی کے چیئرمین ٹامس کار پر تھے۔ انہوں نے کہا: میرا مقصد ڈسٹرکٹ کے باشندوں کو کانگر س میں ووٹ کا حق دلانے کے طریق کارکی بحث دوبارہ شروع کرانا ہے۔ کمیٹی کے ری پبلیکن رکن ٹام کو برن نے کہا کہ کانگرس متعدد دوسرے آئینی اقدامات اور طرز عمل کی تبدیلیوں کے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتی، ''ایسی قانونی اور سیاسی حماقت کے منظور ہونے کا کوئی امکان نہیں ہے‘‘۔ 
ڈسٹرکٹ کی آبادی645000ہے‘ جو وایومنگ اور ورمانٹ کی ریاستوں سے زیا دہ ہے مگر اس میں76 فیصد رجسٹرڈ ڈیموکریٹ ہیں جو اس پر سیاست کا سایہ کئے ہوئے ہیں اور جن میں کئی پا کستانی تارکین وطن بھی شامل ہیں۔ نفیسہ ہُودبھائی کہتی ہیں: ''رائے دہی کے معاملے میں ہماری جُورسڈکشن ہل پر ایک فٹ بال بنی ہوئی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ واشنگٹن کے آبائو اجداد اس کے شہریوں کو رائے دہی کا حق دینے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے تھے‘‘۔ تھنک ٹینک ''کے ٹو‘‘ انسٹی ٹیوٹ کے ایک سکالر ان کے اندیشے سے اتفاق کرتے ہیں۔ ''یہ ایک کمپنی ٹاؤن ہے اور کمپنی حکومت ہے ۔یہ کوئی ریاست نہیں‘‘۔ اسلام آباد کی طرح وائٹ ہاؤس اور کانگرس کے علاوہ بیشتر وفاقی سرکاری محکمے‘ فوجی تنصیبات‘ ریلوے جنکشن اور سمتھ سونین کے عجائب گھر واشنگٹن میں ہیں۔ ملازمین اور لابی کرنے والے لوگ کام کاج کے لئے ہفتے میں پانچ دن میری لینڈ اور ورجینیا کی چار کاؤنٹیوں میں اپنی رہائش گاہوں سے نکل کر واشنگٹن آتے ہیں تو شہر کی آبادی دس لاکھ سے تجاوز کر جاتی ہے۔ شہر کا ایک رہائشی کہتا ہے کہ آبائے قوم سے واقعی ایک غلطی ہو گئی‘ انہوں نے عورتوں کے بارے میں غلطی کی (کہ انہیں برابر کے حقوق نہ دیے) انہوں نے افریقی امریکیوں کے بارے میں غلطی کی (یعنی غلامی کو برقرار رکھا)۔ یہ (بل) آبائے قوم کی غلطیوں کو درست کرنے کے لئے ہے۔ ریاستی درجے کا سوال گرم لوہے کی سلاخ کی طرح ہے ۔صدر اوباما سے یہ سوال پوچھا گیا تو وہ بولے: ''میں ڈی سی میں رہتا ہوں۔ لہٰذا میں اس (مہم) کے حق میں ہوں‘‘۔ جب بل کے محرکوں نے اس بیان کی تحریری تصدیق چاہی توسماعت کی صبح تک وائٹ ہاؤس نے کوئی جواب نہ دیا۔ بلدیہ کی آرزو ہے کہ اس کے اخراجات پر کانگرس کی نگرانی ختم ہو اور اسے ملک کا بجٹ منظور کرنے کا وہی اختیار ہونا چاہیے جو یونین کی دوسری ریاستوں کو حاصل ہے ۔آئین کی 23 ویں ترمیم سے انہیں صدر کے الیکشن میں ووٹ کا حق مل چکا ہے ۔شہریوں کو کانگرس کے الیکشن میں ووٹ کے قابل بنانے کے لئے اس ترمیم کو منسوخ کرنا ہوگا ۔ میئر کا الیکشن چار نومبر کو ہے اور اس کے لئے تین امیدوار ہیں ۔دو آزاد اور ایک ڈیموکریٹ‘ ریپبلیکن کوئی نہیں۔تین میں سے دو خواتین ہیں۔ 
ڈی سی کے رہائشی اور قانون ساز بڑی تعداد میں سینیٹ کی ہیئرنگ میں آئے تھے کیونکہ دو عشروں میں ان کے لئے یہ پہلا موقع تھا کہ وہ قومی دارالحکومت کو سٹیٹ ُہڈ کی حیثیت دلوانے کے لئے اپنا کیس پیش کریں ۔وہ اعداد و شمار سے لیس ہو کر سینیٹ کے کمرے میں آئے تھے ۔شہری چار ملین ڈالر سالانہ ٹیکس دیتے ہیں ۔وہ آئینی نظریے لے کر آئے تھے اور کہہ رہے تھے کہ صرف ایک رہائشی کو ایوان میں مبصر ( ووٹنگ کا حق نہیں ) کا درجہ دینا ''غلامی‘‘ ہے۔ میئر نے کہا: جب مکمل جمہوریت کا سوال اٹھتا ہے تو ڈی سی کے لوگوں کو ان کے حقوق سے محروم رکھا گیا ہے ۔اس اجتماع کو ''ہیرنگ‘‘ کہنا بھی مذاق تھا ۔صرف دو سینیٹر آئے تھے اور ان میں سے ایک بل کا محرک تھا۔ ان کے ساتھ ایک ری پبلکن بیٹھا تھا جو یہ کہہ کر وقت سے پہلے چلا گیا کہ ساری مشق وقت کا زیاں ہے؛ تاہم بل کے حامی یعنی شہر والے دار السماعت کے ہال کو بھر کر باہر کوریڈور تک چلے گئے تھے۔ انہوں نے پروپیگنڈا کے طور پر کمیٹی کے تمام ارکان کے دفتروں میں ملک کا نیا پرچم بھی پہنچا دیا تھا جس پر 51ستارے تھے۔ ایک خاتون نے کہا: ''یہ محض ایک علامت نہیں۔ یہ باقی قوم کے نام ایک پیغام ہے‘‘۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں