آم کھایئے ‘ پیڑ مت گنئے!

بے نظیر بھٹو وزیر اعظم تھیں اورمیاں محمد نواز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ۔ وزیر اعظم کثرتی صوبے کے دورے پر لاہور پہنچیں تو وزیراعلیٰ ان کے استقبال کے لئے ہوائی اڈے تک نہیں گئے۔وہ وزیراعلیٰ ہاؤس میں اپنے صوبے میں گرانی کے بارے میں محترمہ کے الزام کی تردید کر رہے تھے۔انہوں نے اپنے بیان میں کہا کہ پنجاب میں '' گردن توڑ‘‘ مہنگائی نہیں ہے۔اس پر ایک اہلکار نے ان کے کان میں کہا: گردن توڑ بخار ہوتا ہے آپ کو کمر توڑ مہنگائی کہنا چاہیے۔نواز شریف صاحب نے اپنے بیان میں تصحیح کر لی۔اس سے پہلے ذوالفقار علی بھٹو وزیر تیل کی حیثیت سے لاہور آتے تھے تو مغربی اور مشرقی صوبوں کے وفاق کی علامت گورنر امیر محمد خان آف کالا باغ ان کی پزیرائی کے لئے ایئر پورٹ جانے کی تکلیف نہیں کرتے تھے۔ایک بار بھٹو صا حب لاہور آئے تو اپنی حس ظرافت کو بروئے کار لاتے ہوئے صحافیوں سے گورنر کا حال احوال پوچھا اور ان کو گو مگو کی حالت میں پا کر بولے:جز بز کیوں ہوتے ہو‘گورنر نے اب تک بہتر قتل ہی تو کئے ہیں۔نواب صاحب نے یہ بات سنی تو گورنر ہاؤس میں بھٹو کا داخلہ بند کر دیا تھا‘ ہر چند کہ اس وقت وہ دونوں ایک ہی پارٹی سے تعلق رکھتے تھے۔ (آج مختلف پارٹیوں کے لیڈروں میں زیا دہ میل جول دکھائی دیتا ہے)
یہ واقعات کانگرس میں ریپبلکن پارٹی کے لیڈر جان بینر کی جانب سے ڈیمو کریٹک وائٹ ہاؤس کی اجازت کے بغیر اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کو دونوں ایوانوں کے ایک مشترکہ اجلاس سے ایران پر خطاب کی دعوت دینے پریاد آئے۔ کانگرس آئے دن غیر ملکیوں کو بیان کے لئے مدعو کرتی ہے اور بیرونی لیڈروں کو بلانے سے پہلے حکومت کو مطلع کرتی ہے۔ جب خبر پر ہنگامہ برپا ہوا تو سپیکر بینرنے اپنی پارٹی کے ایک اجتماع میں کہا: ''میں نے وائٹ ہاؤس سے مشورہ نہیں کیا۔کانگرس از خود ایسا فیصلہ کر سکتی ہے۔میں نہیں سمجھتا کہ میں کسی کی آنکھ میں دھول جھونک رہا ہوں‘‘۔ کانگرس کے دونوں ایوانوں میں ریپبلکن کا غلبہ ہے۔ دو دن پہلے صدر اوباما نے کانگرس کے ایک مشترکہ اجلاس میں گھنٹہ بھر کی تقریر کی تھی اور جب ایران کے حوالے سے اپنی خارجہ پالیسی کی کامیابیوں کا ذکر کیا تو ان کے نائب جوزف بائیڈن دوسرے عوامی نمائندوں کی طرح تالیاں بجانے کے لئے کھڑے ہوئے تھے مگرمسٹر بینر‘ جو ان کے ساتھ اجلاس کی صدارت کر رہے تھے‘ اپنی نشست پر بیٹھے رہے تھے۔ یوں انہوں نے امریکہ کے ہم دم دیرینہ برطانیہ کے وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون کے اس اعتراف پر بھی خاموش احتجاج کیا تھا جو انہوں نے وائٹ ہاؤس میں اوباما کے ساتھ ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا تھا۔ ایک ا خبار نویس نے پوچھا تھا کیا یہ حقیقت ہے کہ آپ امریکی قانون سازوں کو فون کرتے رہے ہیں اور ان سے کہتے رہے ہیں کہ وہ ایران پر سخت تراقتصادی پابندیوں کے حق میں ووٹ نہ دیں۔ برطانوی لیڈر کا جواب اثبات میں تھا۔ 
یہ عجیب اتفاق ہے کہ امریکہ کو ایک ہی دن مشرق وسطیٰ میں اپنے دو اتحادیوں سے محروم ہو نا پڑا۔یمن میں صدر عبد ربو منصور ہادی کی حکومت پارہ پارہ ہوئی اور ہمسایہ ملک سعودی عرب کے بادشاہ عبداللہ انتقال کر گئے۔ القاعدہ کے ٹھکانوں پر ڈرون حملے ہادی حکومت کی جاسوسی پر ہوتے تھے۔ حاؤسی قبا ئل کا‘ جو متبادل قیادت مہیا کر رہے ہیں‘ نعرہ ہے امریکہ مردہ باد اور اسرائیل مردہ باد۔ شاہ عبداللہ نے فلسطین میں امن کی بحالی کا ایک منصوبہ پیش کیا تھا‘ جسے اسرائیل نے پاؤں تلے روند ڈالا۔ایران کو ہادی حکومت اور شاہ عبداللہ دونوں کا مخالف سمجھا جاتا تھا۔ اب واشنگٹن کو اس خطے سے متعلق اپنی پالیسی پر نظر ثا نی کرنا ہو گی۔ لامحالہ وہ ایران سے جوہری توانائی کے سوال پر چھ عالمی طاقتوں کے مذاکرات میں اور زیادہ نرمی سے کام لینے کی کوشش کرے گا۔امریکہ نے اسی غرض سے ربع صدی کے وقفے سے برطانوی لیڈر کو مدعو کیا تھا۔ اس معاملے میں کانگرس سے محاذ آرائی میں اوباما انتظامیہ کمزور ہو گئی ہے اور یہ امکان بڑھ گیا ہے کہ اگر اس نے ایران کو ناک رگڑنے پر مجبور کیا اور ایک قرارداد منظور کرکے صدر کی میز تک بھیجی تو وہ اسے ویٹو کر دیں گے۔ انتظامیہ ‘ مقننہ سے پوچھتی ہے: تمہیں آم کھانے سے غرض ہے یا پیڑ گننے سے؟ اوباما انتظامیہ کا موقف ہے کہ اگر ایران پر مزید تعزیریں عائد کی گئیں تو وہ مذاکرات کی میز سے بھاگ جائے گا اور ایک سال میں ایٹم بم بنا لے گا۔وہ مشرق وسطیٰ میں کوئی نیا محاذ کھولنے سے گریز کر رہی ہے ‘ اس لئے مارچ میں جب مسٹر نیتن یاہو کانگرس میں تقریر کرنے واشنگٹن آ ئیں گے تو صدر اوباما سے ان کی ملاقات نہیں ہوگی‘ جو دونوں ملکوں میں تعلقات کے بگاڑ کی اگلی صورت ہے۔وائٹ ہاؤس کے پاس معقول بہانہ ہے۔ وہ کہے گا کہ بہار کے موسم میں اسرائیل اپنے عام انتخابات منعقد کر رہا ہے اور صدر ‘ مسٹر نیتن یاہو کو بلا کر ان میں ملوث نہیں ہونا چاہتے۔ دونوں لیڈروں کی گزشتہ میٹنگ‘ بین الاقوامی کشیدگی کی منہ بولتی تصویر تھی اور کانگرس اسی خلا سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہی ہے۔ایسا لگتا ہے کہ مسٹر نیتن یاہو نے اپنا مقدر امریکہ کی ایک بڑی جما عت سے وابستہ کر لیا ہے جب کہ ان کے ملک کو سارے امریکہ میں حمایت حا صل رہی ہے۔
امریکہ اور ایران کے نزاع سے پاکستان جتنا متاثر ہوا ہے کوئی اور ملک نہیں ہوا۔ان بین الاقوامی تعزیروں کے باعث ایرانی گیس کے ملتان اور دہلی پہنچنے کا منصوبہ ناکام رہا۔نئے سال کے شروع میں کراچی اور لاہور کو پٹرول کے جس بحران کا سامنا ہوا‘ اس کی شدت تعزیروںکے نتیجے کی آئینہ دار ہے۔ بھارت تو پانچ سال پہلے شدید امریکی دباؤ کے تحت اس تاریخی معاہدے کی لپیٹ سے نکل گیا مگر پاکستان 1724 میل لمبی اس پائپ لائن کے حصار میں‘ جس پر7.5 بلین ڈالر صرف ہونے تھے‘ پھنسا رہا‘ حتیٰ کہ دسمبر 2014ء کا مہینہ آ پہنچا اور یہ ذریعہ‘ جس سے پاکستان کو بقول وزیراعظم نواز شریف گیس کا پہلا بھبکا ملنا تھا‘ ہمیشہ کے لئے خاموش ہو گیا۔ اس سے پہلے سابق وزیر خارجہ حنا ربانی کھر نے بھی یہ دعویٰ کیا تھا کہ پاکستان کوئی بیرونی دباؤ قبول نہیں کرے گا اور گیس پائپ لائن کا منصوبہ مکمل کرے گا۔ایران اپنے حصے کی پائپ لائن تعمیر کر چکا تھا اور پاکستان کو اس کا صرف 488میل بنانا تھا۔اکتوبر میں نئے وزیر تیل شاہد خاقان عباسی تہران گئے اور تجویز کیا کہ پاکستان مائع گیس (IP) کی بجائے ٹھوسLNG‘ جسے پاکستان میں سی این جی کہا جاتا ہے‘ درآمد کرے گا۔ نئے منصوبے کے مطابق اومان کے ایک ٹرمینل پر قدرتی گیس کو سی این جی میں تبدیل کیا جائے گا۔ اومان اگلے پچیس سال کے لئے ساٹھ بلین ڈالر کی ایرانی قدرتی گیس خرید بھی چکا ہے۔ ایسا ایک ٹرمینل گوادر پورٹ پر بنایا جائے گا اور ایرانی سرحد سے نواب شاہ تک پائپ لائن تعمیر کی جائے گی۔ اس ٹرمینل میں ایک بلین کیوبک فٹ روزانہ سی این جی سنبھالنے کی صلاحیت ہو گی۔ جہاں تک قدرتی گیس کی ضرورت کا تعلق ہے‘ روس اور چین ‘ آئی پی کی حمایت کرتے تھے اور امریکہ ‘ ترکمانستان سے بھارت تک افغانستان اورپاکستان کے راستے ایک پائپ لائن TAPI کو بڑھاوا دیتا تھا۔ قدرتی گیس کی ایک پائپ لائن سوئی سے پاکستان کے تقریباً تمام حصوں میں جاتی ہے مگر بلوچستان میں شورش کے سبب وہ آئے دن انتہا پسندوں کی زد میں رہتی ہے۔ امریکی صنعتی ادارہ یونوکول (UNOCAL) ایک بے خطر اور مختصر راستے کے ذریعے پاکستان اور دنیا کی منڈیوں تک گیس کی ترسیل کے اس منصوبے کے فروغ میں کوشاں ہے جسے پاکستان‘ آئی پی سے الگ سمجھتا ہے اور وہ افغانستان کے حالات کی وجہ سے کمزور ہے۔ ایران پر تین پرت کی امریکی تعزیروں کی وجہ سے کوئی بین الاقوامی مالی ادارہ اس کے لئے پاکستان کو قرض دینے پر بھی آمادہ نہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں