یہ ہماری جنگ ہے!

سات ماہ قبل جب پاک فوج نے شمالی وزیرستان پر قابض شر پسندوں کے خلاف سوات مالا کنڈ کی طرح کا آپریشن ضرب عضب شروع کیا تو ہماری بعض سیاسی جماعتیں کہتی رہیں کہ یہ جنگ ہماری جنگ نہیں ہے۔پشاور کے سانحے نے ساری قوم کو حکومت کے پیچھے متحد کر دیا اور وہ بھی یہ کہنے پر مجبور ہوئی کہ طالبان میں اچھے برے کی تمیز نہیں کی جا سکتی۔انتہا پسند خواہ طالبان ہوں یا جند اللہ‘ بوکو حرام ہوں یا داعش‘ سب ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے اور ڈیڑھ ارب اعتدال پسند مسلمانوں کے دشمن ہیں۔ایک تازہ مثال اردن کے ہو اباز کی ہے۔داعش نے اسے ایک پنجرے میں ڈال کر زندہ جلایا اور یہ ہولناک منظر انٹر نیٹ پر ڈالا تو سارا اردن بادشاہ کے پیچھے متحد ہو گیا۔اردن کی آبادی میں مختلف مذہبی عقائد کے لوگ ہیں جو آج حکومت کے ساتھ کھڑے ہیں۔ ابوبکرالبغدادی کی خلافت کے مفتی صاحب کہتے ہیں کہ اردن کے ہوا باز نے داعش کی قلمرو پر بمباری کی تھی اسے صحیح سزا ملی ہے جب کہ سعودی عرب کے مفتی ٔ اعظم کا کہنا ہے کہ اسلام کسی کو زندہ یا مردہ جلانے کی اجازت نہیں دیتا۔ داعش نے اردنی پائلٹ کو مسلمان تو مانا‘ طالبان تو سب کو کافر کہتے ہیں۔ا ردن نے پاکستان ہی کی طرح ان قیدیوں کی موت کی سزا بحال کردی ہے جو ملک کے نظام کو ماننے سے انکار کرتے تھے۔آج اردن کے سب لوگ کہہ رہے ہیں کہ یہ امریکہ کی نہیں‘ ہماری جنگ ہے۔
چند روز پہلے تک شام اور عراق میں داعش کے مقبوضات پر 1022میں سے 943 ہوائی حملے امریکہ نے کئے تھے جب کہ داعش کے خلاف اتحاد میں اردن کے علاوہ سعودیہ‘ متحدہ عرب امارات‘ بحرین‘ قطر اور آسٹریلیا بھی شامل ہیں۔ اردن میں پاکستان کی طرح انتہا پسندوں کے خلاف غیظ و غضب بڑھ رہا ہے اور جو اردنی حکومت‘ داعش کے خلاف اپنی فوجی کارروائیوں کو بالعموم چھپاتی تھی‘ اب کھلم کھلا اس پر ہوائی حملے کر رہی ہے؛ تاہم امریکی مبصروں کا کہنا ہے کہ جب تک بْوٹ داعش کی سر زمین پر نہیں پڑیں گے‘ اسے نیست و نابود کرنا ممکن نہ ہو گا۔یو اے ای نے بھی‘ جو اردنی ہوا باز کی گرفتاری کے بعد داعش کے خلاف اپنی فوجی کارروائیوں کو خفیہ رکھ رہا تھا‘ اپنے ایف سولہ طیارے محاذ جنگ کی طرف روانہ کر دیے جبکہ دوسرے کئی ملک بھی کھلے بندوں اس جنگ میں حصہ لے رہے ہیں ۔افغانستان کی لڑائی میں‘ جو امریکہ کے نزدیک طویل ترین تھی ‘ امریکہ نے اپنا کردار حال ہی میں ختم کیا ہے اور اب نئے صدر اشرف غنی کی درخواست پر وہ واپسی کی رفتار سست کر رہا ہے۔ عراق کی جنگ میں‘ جو وزیر خارجہ کولن پاول کے اعتراف کے مطابق ناجائز تھی‘ داعش کی فتوحات کے پیش نظر دوبارہ امریکی فوج روانہ کرنے کی باتیں ہو رہی ہیں۔اس سال پاکستان پر چار ڈرون حملے ہوئے ان میں سے ایک جنوبی وزیرستان پر بھی تھا ان میں بیس سے زیادہ افراد کام آئے مگر پاکستان کے دفتر خارجہ کے رسمی بیانات نظر سے گزرے‘ ضمنی احتجاج نہیں۔شاید وہ اسے انتہا پسندوں کے خلاف پاکستان کی فوجی مہم میں ایک اتحادی کاحصہ سمجھ رہے ہیں۔
اگرچہ کانگرس‘ اوباما انتظامیہ کو داعش کے خلاف جنگ کا محدود اختیار دے رہی ہے مگر رائے عامہ کے جائزے ظاہر کرتے ہیں کہ یہ قوم لڑائی بھڑائی سے تنگ آ چکی ہے اور اس معاشی اٹھان سے لطف اندوز ہونا چاہتی ہے جو ایک سال سے دیکھنے میں آ رہی ہے۔ کلنٹ ایسٹ وڈ کی فیچر فلم امریکن سنائپر (American Sniper) کا موضوع یہی ہے۔امریکہ میں درجنوں اینٹی وار فلمیں بنیں اور ساری دنیا میں نمائش کے لئے پیش کی گئیں مگر ذرائع ابلاغ میں جو بحث و تمحیص اس فلم کے حصے میں آئی اس کی ضخا مت کی مثال نہیں ملتی۔ شاید وجہ یہ ہو کہ فلم ٹیکسس کے کرس کائل(Chris Kyle) کی زندگی کا احاطہ کرتی ہے‘ جو امریکہ کی مسلح فوجوں کا لیجنڈ اور قوم کا ہیرو تھا۔وہ 2009ء تک نیوی کا سپاہی اور سیل (SEAL) تھا‘ جسے فلوجہ کا فاتح سمجھا جاتا ہے۔ اس نے ایک سو ساٹھ عراقیوں کو‘ جن پر انہیں شر پسند ہونے کا شک تھا‘ گولی کا نشانہ بنایا تھا۔ اس کی حب الوطنی پر بنائی گئی اس فلم نے باکس آفس کے تمام ریکارڈ توڑ ڈالے۔وہ اپنی بیوی کے اصرار پر فوج سے ریٹائر ہوا لیکن جلد ہی ایک سابق فوجی کے ہاتھوں قتل ہو گیا تھا۔جس روز میں نے یہ فلم دیکھی ٹیکسس میں مبینہ قاتل سے نا انصافی کا اندیشہ ظاہر کیا جا رہا تھا اور وکلائے صفائی اس کی دماغی زبوں حالی کا موقف اختیار کرنے والے تھے۔ فوج سے فارغ خطی لینے کے بعد کائل جنگ کے صدمے سے حواس کھونے والے سابق فوجیوں کی امداد کا کام کرتا تھا اور اسی سلسلے میں ایڈی روتھ کولے کر ایک دیہی رائفل رینج پہنچا تھا‘ جہاں روتھ نے کائل اور اس کے ایک دوست کو گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ فلم کے آخر میں سب ٹائٹل بتاتے ہیں '' اس روز کائل کو ایک سابق فوجی نے‘ جس کی وہ مدد کر رہا تھا ‘ مار ڈالا‘‘۔اگرچہ فلمساز اور ہدایت کار اسے جنگ مخا لف فلم کہتے ہیں مگر وہ وجہ نزاع بن چکی ہے کیونکہ بہت سے لوگ اسے حب الوطنی کے منافی کہہ رہے ہیں۔ اس سلسلے میں دو خواتین کا‘ جو سیاسی لحاظ سے ایک دوسری سے اختلاف رکھتی ہیں‘ بیان فیصلہ کن سمجھنا چاہیے۔خاتون اول مشل اوباما اور ان کے شوہر کے ٹکٹ کے خلاف نائب صدر کا الیکشن لڑنے والی ناکام امیدوار سارہ پیلن ‘دونوں اس بات پر متفق ہیں کہ امریکن سنائپر سیاسی اعتبار سے ایک درست فلم ہے۔ فلم کی نمائش جاری تھی کہ ایک بڑی ٹیلی وژن کمپنی کے نیوز اینکر برائن ولیم یہ اعتراف کر کے اپنے منصب سے الگ ہو گئے کہ عراق کی جنگ چھڑنے پر انہوں نے غلط بیانی سے کا م لیا تھا۔'' بارہ سال پہلے میں نے ٹیلی وژن پر کہا تھا کہ جس فوجی ہیلی کاپٹر پر میں سوار تھا اسے کئی گولے لگے تھے جب کہ سابق فوجیوں کے ایک گروہ نے مجھے یاد دلایا ہے کہ جس چاپر کو فائرنگ کا سا منا ہوا وہ پیچھے آ رہا تھا۔میں ان سے معافی مانگتا ہوں۔‘‘
آج فلوجہ کے علاوہ‘ عراق کا دوسرا بڑا شہر موصل ‘ ابوبکرالبغدادی کے تصرف میں ہے۔صلاح الدین صوبے کا صدر مقام تکریت بھی‘ جو سابق صدر صدام حسین کی جائے پیدائش ہے۔گو ان کی خلافت شام کے شہر رقہ میں ہے مگر وہ بغداد کے مضافات تک آ پہنچے ہیں کیونکہ وہ شام اور عراق کی سرحدوں کو نہیں مانتے۔ اس طرح داعش کو ایک قطعہ اراضی مل گیا ہے ۔جو لوگ طالبان کے افغانستان کی طرح باقی زندگی گزارنا چاہتے ہیں وہ کسی نہ کسی طرح اس میں داخل ہو ںگے اور پاکستان پر ان کا دباؤ کم ہو گا۔ داعش کے زیر یرغمال امریکی عورت کیلہ میولر کی ہلاکت پر اشتعال بڑھے گا۔ وہ خلافت کے ہاتھوں مارے جانے والے چار افراد میں سے ایک ہے۔ ایک اندازے کے مطابق کوئی ڈیڑھ ہزار امریکی داعش کے ساتھ ہیں۔ کیلہ کے والدین نے اس کے بدلے عافیہ صدیقی کی رہائی کی بات چلائی تھی مگر وائٹ ہاؤس نے یہ کہہ کر تجویز رد کر دی کہ امریکہ دہشت گردوں سے معاملہ نہیں کرتا۔ ایران اور صومالیہ کے بعد اب یمن میں بھی امریکی سفارت خانہ بند ہو گیا ہے جہاں سے سی آئی اے ڈرون حملوں کے لئے جاسوسی کرتی تھی۔ جس روز صدر اوباما نے داعش کو شکست دینے کا عزم ظاہر کیا اور کانگرس سے اتحاد کی اپیل کی نارتھ کیرولینا میں کالج کے تین مسلم طلبا قتل ہوگئے جسے مذہبی منافرت کا نتیجہ سمجھا جا رہا ہے۔ صدر کی اپنی پارٹی کے بعض لیڈر پوچھتے ہیں مشرق وسطیٰ کے جو بادشاہ اور امیر اس لڑائی کو اپنی جنگ کہتے ہیں داعش کو تباہ کرنے کا کام خود سر انجام کیوں نہیں دیتے؟ شاید یہ ان کے بس میں نہیں ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں