ایک الیکشن میٹنگ

اسرائیل کے وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو (لی کڈ) نے امریکی یہود کے بٹوارے اور وائٹ ہاؤس کی مخالفت کے باوجود کانگرس کے ایک مشترکہ اجلاس سے خطاب کیا۔ ان کی تقریر کا موضوع ایران تھا۔وہ قانون سازوں کو خبردار کر رہے تھے کہ اگر انہوں نے امریکہ کے ساتھ ایران کے جوہری مذاکرات کے نتیجے میں ہونے والے معاہدے کی توثیق کی تو وہ نہ صرف اسرائیل بلکہ دنیا کا مستقبل خطرے میں ڈالیں گے: ''ہماری دنیا کو سب سے بڑا خطرہ عسکریت پسند اسلام اور ایٹمی ہتھیاروں میں نکاح سے ہے‘‘۔ نیتن یاہو کو اندیشہ ہے کہ ایران اس معا ہدے کی آڑ میں ایٹم بم بنا لے گا اور اسرائیل کو فنا کر دے گا۔ایرانی لیڈر ایک سے زیا دہ بار دنیا کو یقین دلا چکے ہیں کہ وہ بم بنانے کا ارادہ نہیں رکھتے۔ وہ تو ملک کی آئندہ ضروریات کے پیش نظر توانائی کی قومی پیدا وار میں اضافہ کرنا چاہتے ہیں۔وہ دنیا بالخصوص مسلم ملکوں کو در اصل یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ دیکھو‘ ہم نے بیک وقت عربوں اور امریکیوں کے خلاف کھڑے ہو نا سیکھ لیا ہے۔یہ عرب اور عجم کے پرانے نزاع کا شاخسانہ بھی ہو سکتا ہے۔ نیتن یاہو کے بقول ایران اور آئی ایس آئی ایس میں عسکریت پسند اسلام کے تاج کے لئے مقابلہ ہے۔ وہ مذاکرات کوبے سود کہتے ہیں مگر ان کے مد مقابل اسحاق ہرزوگ (لیبر) مذاکرات جاری رکھنے کے حق میں ہیں۔ نیتن یاہو نے کہا: مارچ کے آخر میں ہونے والا ''معاہدہ بم بنانے سے ایران کا راستہ نہیں روکتا‘ بم سازی کے لئے ایران کا راستہ ہموار کرتا ہے۔یہ بہت بْرا سودا ہے۔ہم اس کے بغیر اچھے ہیں‘‘ اور صدر اوباما نے جواب دیا کہ دنیا کو سودا میز پر آنے کا انتظار کرنا چاہیے ،وزیر اعظم جو متبادل پیش کر رہے ہیں کوئی سودا نہیں۔ اس صورت میں ایران فی الفور ایک بار پھر اپنے جوہری منصوبے کی تکمیل شروع کر دے گا۔ اسرائیل اور امریکہ کا نصب العین ایک ہے مگر اسرائیل جنگ سے اور امریکہ بات چیت سے اس کا حصول چاہتا ہے۔وائٹ ہاؤس نے کسی قدر خفت سے اعلان کیا کہ ایران‘ تکرت کو واپس لینے کی لڑائی میں (خود ساختہ اسلامی خلیفہ) ابو بکر بغدادی کے رضا کا روں کے خلاف عراقی فوجوں کی امداد کر رہا ہے۔امریکہ اس لڑائی میں شکست تسلیم کر چکا ہے۔
یہ نیتن یاہو کی اپنے ملک سے چھ ہزار میل دور ایک الیکشن میٹنگ تھی جس کی ترتیب احتیاط سے کی گئی تھی (واشنگٹن ٹائم گیارہ بجے صبح ‘ اسرائیل ٹائم چھ بجے شام)۔وزیر اعظم نے یکے بعد دیگرے دو شخصیتوں کی جانب اشارہ کیا‘ جن کا تذکرہ پہلے سے تیار تقریر میں موجود تھا۔گیلری میں بزرگ صورت اور دھان پان قلم کار ایلی ویزل موجود تھے‘ جنہیں ہالوکاسٹ سے بچ نکلنے والا یہودی سمجھا جاتا ہے اور جو ادب کا نوبیل پرائز جیت چکے ہیں۔مسز نیتن یاہو نے ان کے ساتھ اپنی نشست سنبھالی تھی۔ انہوں نے کہا: ''ایلی کاش میں آپ کو یہ یقین دلا سکتا کہ تاریخ سے اسباق سیکھے گئے ہیں۔‘‘ گیلری میں وزیر اعظم کے سامنے حضرت موسیٰ کی مفروضہ شبیہ آویزاں تھی ''جنہوں نے بنی اسرائیل کو غلامی سے موعودہ سرزمین تک پہنچایا تھا اور جنہوں نے ہمیں پیغام دیا کہ مضبوط اور ثابت قدم رہو ‘دوسروں سے مت ڈرو۔‘‘ اگرچہ نیتن یاہو ایران کو تاریخ کا طعنہ دیتے رہے مگر خود اسرائیل کا ذکر تاریخ کے حوالے سے کیا۔ انہیں 17 مارچ کو الیکشن کا سامنا ہے اور وہ رائے دہندگان کو یہ دکھانے کے لئے بیتاب ہیں کہ امریکہ ان کے زیادہ قریب ہے۔ نینسی پلوسی‘ جو کل تک ایوان نمائندگان کی لیڈر تھیں‘ مہمان سے پہلے ایوا ن سے اٹھ کر چلی گئیں اور ایک تحریری بیان میں کہا کہ جب اسرائیلی لیڈر دنیا کی سب سے طاقتور مقننہ کے سامنے‘ جو دنیا کو ہلاکت خیز اسلحے سے پاک کرنے کی پابندہے‘ ایران کے جوہری پروگرام پر لیکچر دے رہا تھا تو ان کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ انہوں نے کہا: ''میں نے اسے اپنی توہین جانا‘‘۔ ایوان نمائندگان کے لیڈر جان بینر ( سپیکر) کو یکم جنوری سے کانگرس کے دونوں ایوانوں میں ریپبلکن اکثریت حاصل ہو ئی ہے اور وہ اسے برقرار رکھنے کی امید کر رہے ہیں۔اگرچہ ڈیمو کریٹک قانون سازوں میں سے کوئی تین درجن نے اس خطاب کا با ئیکاٹ کیا‘ پھر بھی مہمان نے‘ جو امریکہ ہی میں پلے بڑھے ہیں‘ ان کے اور وائٹ ہاؤس کے جذبات کی داد نہ دی۔ ان کی تقریر کے دوران تالیاں بجانے والے ڈیمو کریٹوں کی کمی نہیں تھی۔ اس روز جب وزیر خارجہ جان کیری سوئزرلینڈ میں ایران کے ساتھ ایک جوہری فریم ورک تشکیل دینے کی کوشش کر رہے تھے‘ نیتن یاہو امریکیوں کو بتا رہے تھے کہ ان کا صدر ایسا بے وقوف یا بزدل ہے کہ وہ شیطان کے ساتھ ایک سودا کر رہا ہے۔ایران نے اب تک جو مراعات دی ہیں‘ ان میں جو ہری اسلحے کے لئے درکار یورینیم کے ذخائر کی تلفی بھی شامل ہے۔ دوم‘ جیسا کہ بات چیت کے مخالفین کی پیش گوئی تھی‘ اس دوران اقتصادی تعزیروں نے کام کرنا نہیں چھوڑا۔اگر ایسا ہوتا تو اب تک ایران سے پاکستان تک قدرتی گیس کی پائپ لائن بن چکی ہوتی۔ ایران کا مطالبہ ہے کہ سمجھوتہ ہوتے ہی تما م پابندیاں ختم کی جائیں جبکہ امریکہ ان کا بتدریج خاتمہ چاہے گا۔اسرائیل کا موقف یہ محسوس ہوتا ہے کہ اگر ایران کے خلاف جنگ ممکن نہیں تو کم از کم اس پر اقتصادی پابندیاں سخت تر کی جائیں مگر وائٹ ہاؤس کے اہلکاروں کا بیان ہے کہ پابندیاں بڑھانے کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ایران کے جوہری منصوبے کو ''سُست‘‘ کرنے کا بہترین راستہ سمجھوتے سے نکلتا ہے۔
اسرائیلیوں کو معلوم ہے کہ شروع سے انہیں امریکہ کی حمایت حاصل رہی ہے‘ جو ان کے وجود کا ایک سبب ہے۔اس نصف صدی میں اسرائیل نے ایٹم بم بنا لیا ہے۔ سعودی عرب اور کئی دوسرے خلیجی ملکوں کو چھوڑ کر بیشتر عرب ملکوں کے ساتھ اس کے سفارتی تعلقات ہیں اور جہد البقا کے اصول کے مطابق وہ امریکہ کو بھی آنکھیں دکھانے لگا ہے۔اس سے پہلے اسی نیتن یاہو نے دو بار کانگرس کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کیا مگر وہ وہائٹ ہاؤس کی آشیر باد سے ایسا کرتے تھے۔یہ ایسے ہی ہے جیسے کوئی عرب یا ترک لیڈر‘ وزیر اعظم کی منشا کے بغیر پاکستان کا دورہ کرے اور قومی اسمبلی سے خطاب کر جائے۔ وائٹ ہاؤس کے کئی اہلکاروں نے نیتن یاہو کو اس دورے سے باز رکھنے کی کوشش کی اور قومی سلامتی کی مشیر سوزن رائس نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ یہ دورہ ‘ اسرائیل کی امریکی ذوالجماعتی حمایت کے پارچے کے لئے '' تباہ کن‘‘ ہو گا۔ایک اسرائیلی لیڈر نے ووٹوں کی خاطر یہ دورہ ایک ایسے وقت کیا جب اسرائیل اور امریکہ کے تعلقات نہایت خراب ہیں اور امریکی یہود بٹے ہوئے ہیں۔ یہ دورہ اسرائیلی مہمان اور ان کے امریکی میزبان کے لئے سیاسی اعتبار سے نقصان دہ بھی ہو سکتا ہے۔وہ امریکہ اور اسرائیل میں پائی جانے والی کشیدگی سے ڈر گئے تھے۔ ایک دن پہلے انہوں نے سب سے بڑی قدامت پسند یہودی لا بی AIPAC سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ان کا مقصد صدر اوباما کی توہین نہیں۔وہ تو کانگرس کے سامنے اپنے ملک کی ضرب پزیری کا اظہار کرنے کیلئے امریکہ آئے ہیں۔یہ پہلا موقع ہے کہ صدر نے لابی کے سالانہ اجلاس میں تقریر نہیں کی۔نائب صدر جو بائڈن بھی ملک سے باہر ہیں۔ کم از کم سات ڈیموکریٹک سینیٹر اور چھیالیس کانگرس مین غیر حاضر رہے۔انتظامیہ کی جانب سے سوزن (سیاہ فام) اور اقوام متحدہ میں امریکہ کی مستقل مندوب سا منتھا پاور (سفید فام) نے خطاب کیا۔ نیتن یاہو کی واپسی سے پہلے اوباما سے ان کی ملاقات کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔نیو یارک ٹائمز اور واشنگٹن پوسٹ میں ایک ایک صفحے کے اشتہارات‘ اوباما انتظامیہ سے اسرائیلی لابی کی بے زاری کا کافی ثبوت تھے۔
اسرائیلی اور ان کے امریکی حواری اس حقیقت کو چھپانے کی پوری کوشش کرتے ہیں کہ ایران کو بم بنانے سے روکنے والوں میں امریکہ ہی نہیں سلامتی کونسل کے باقی چار مستقل ارکان اور جرمنی بھی شامل ہیں اور یہ تعزیریں بھی اقوام متحدہ کی آشیر باد سے لگائی گئی ہیں۔روس اورچین بھی نہیں چاہیں گے کہ ایٹم کلب میں ایک کا اضافہ ہو‘ اگرچہ وہ اس میں اسرائیل‘ شمالی کوریا‘ بھارت اور پاکستان جیسے ایٹمی ملکوں کاوجود برداشت کر رہے ہیں۔جب تک یہ سارے ملک صاد نہیں کرتے امریکہ ‘ ایران کے ساتھ کوئی '' بْرا سودا‘‘ نہیں کر سکتا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں