رائے دہندگان کی بغاوت

کودا ترے گھر میں کوئی یوں دھم سے نہ ہو گا
جو کام کیا ہم نے وہ رستم سے نہ ہو گا
الیکشن ساری دنیا میں بہت مہنگے ہو گئے ہیں۔پاکستان میں قومی اسمبلی کی رکنیت کی مہم چلانے کے لئے جو خطیر رقم درکار ہے‘ امیدوار بالعموم اپنی جیب سے خرچ کرتا ہے‘ اور یوں سیاست‘ تجارت میں بدل جاتی ہے۔ امریکہ میں‘ جہاں الیکشن بالعموم چندہ کرکے لڑے جاتے ہیں‘ سپریم کورٹ نے انتخابی مہم کی مالیات کی حدود پر پابندیاں ختم کر دی ہیں اور یوں کوئی کثیر قومی کار پوریشن اور یونین یا ان کے توسط سے بیرونی حکومتیں بھی اپنی پسند کا امیدوار منتخب کرانے کے قابل ہو گئی ہیں۔فلوریڈا کے ایک گاؤں کے ڈاکئے نے اسے کرپشن سے تعبیر کیا اور انتخابی اصلاحات کی حمایت میں کانگرس کے 435 ارکان کے نام ایک ایک خط لکھ کر انہیں لفافے میں بند کیا اور ان پر ڈاک کے ٹکٹ لگا کر واشنگٹن آ پہنچا مگر اس نے اس '' سپیشل ڈلیوری‘‘ کے لئے ایک انو کھا طریقہ اختیار کیا۔ اس نے ایک ہلکا ہیلی کاپٹر (فلائنگ سکوٹر) لیا اور اس میں پرواز کرتے ہوئے کیپیٹل کے مغربی لان میں اتر گیا۔اس نے تین '' نو فلائی زون‘‘ کی خلاف ورزی کی تھی جس پر پولیس نے‘ جو اس کے سفری منصوبے سے بے خبر تھی‘ اسے گرفتار کر لیا۔ ڈگ ہیوز نے اپنے اقدام کو ''رائے دہندگان‘‘ کی بغاوت کہا۔ اسے معلوم نہیں تھا کہ تقریباً اسی وقت واشنگٹن سے کوئی ساڑھے چار سو میل شمال میں یہی سوال اٹھایا جا رہا ہے اور نیو جرسی کے ریپبلکن گورنر کرس کرسٹی جواب دے رہے ہیں کہ انتہائی خطرناک بات یہ ہے کہ کوئی نہیں جانتا یہ پیسہ کہاں سے آ رہا ہے اور ڈیمو کریٹک امیدوار ہلیری راڈم کلنٹن وعدہ کر رہی تھیں کہ وہ '' غیر کارگزار‘‘ انتخابی مالیات کو درست کرنے کی سعی کریں گی۔ گویا یہ بھی 2016ء کی انتخابی مہم کا ایک ایشو ہے۔
امریکی انتخابات میں اٹھار ماہ باقی ہیں لیکن دونوں بڑی پارٹیوں کے کیمپوں کی رونق ابھی سے دوبالا ہو گئی ہے۔ اس رونق میں ملک کے صدر بارک حسین اوباما نے کیوبا کا پتہ پھینکا تو قوم عش عش کر اٹھی۔صدر رچرڈ نکسن نے تقریباً نصف صدی قبل پاکستان کے توسط سے عوامی جمہوریہ چین سے رابطے استوار کئے تھے اور بالآ خر پیکنگ جا کر چو این لائی سے ہاتھ ملایا تھا۔ اوباما نے پانامہ سٹی میں امریکی براعظموں کے سربراہوں کی کانفرنس میں شریک ہونے کے علاوہ صدر راؤل کاسترو سے مصافحہ کیا اور نصف صدی بعد یوں دو ہمسایہ ملکوں میں تعلقات کی بحالی کی جانب پہلا قدم اٹھایا۔ اوباما نے کیو با کو دہشت گردوں کی امریکی فہرست سے نکال دیا ہے‘ جس کا مطلب ہے کہ قوم کو اب دنیا سے تجارت کرنے میں سہولت ہوگی۔صدر نکسن کے اقدام سے دنیا میں ایک صنعتی اور معاشی انقلاب کی راہیں ہموار ہو ئی تھیں اور صدر اوباما کی کارروائی سے جنوبی امریکہ میں خوشحالی کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا ہے مگر بہت سے کیوبن امریکن امی گرینٹ‘ جو کیو با میں خونریز تبدیلی کے ساتھ کاسترو برادران کی حکومت کا تختہ الٹنے کا خواب دیکھتے تھے‘ اس کارروائی سے نا خوش ہیں۔اتفاق سے آج ریپبلکن کیمپ میں ان کی ریل پیل ہے۔وہ سب دو سابق سربراہوں کے فرزند اور بھائی تریسٹھ سالہ جیب بش کے بالمقابل ریپبلکن ٹکٹ کے امیدوار ہو ں گے۔ ان میں دو سینیٹر مارکو روبیو اور ٹیڈ کروز بھی شامل ہیں‘ جنہوں نے ڈیموکریٹ ہلیری کلنٹن (عمر سڑسٹھ سال)کے بعد صدارتی الیکشن کے میدان میں قدم رکھا ہے۔روبیو‘ جن کی عمر صرف تینتالیس سال ہے‘ فلوریڈا کے سابق گورنر بش کو اپنا گہرا دوست اور استاد کہتے ہیں مگر وہ پرائمری میں ان سے مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہیں۔اگلے روز میامی کی یادگار آزادی کے سامنے اپنے امیدوار ہونے کا اعلان کرتے ہوئے انہوں نے اپنے استاد پر نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا: میں اپنی ''باری‘‘ سے صدارتی امیدواروں کی قطار میں لگا ہوں‘ اور ہلیری پر سیاسی چھینٹا پھینکتے ہو ئے بولے: کچھ امیدوار ہمیں ''ماضی‘‘ میں لے جانا چاہتے ہیں۔
یادگارِ آزادی وہ جگہ ہے جہاں کیوبا پر‘ جو امریکہ کے جنوبی ساحل سے صرف باسٹھ میل پرے ہے‘ ناکام حملے کے بعد کیوبا کے پناہ گزینوں کو سرکاری کارروائی سے گزارا جاتا تھا۔سینیٹر روبیو بے شک ''ماضی‘‘ سے بے زاری کا اظہار کرتے ہیں مگر مہم کی پہلی تقریر میں انہوں نے اپنے والدین کا ذکر کیا‘ جنہوں نے ترک وطن کے بعد امریکہ میں پناہ لی تھی اور جو ایک ریستوران چلاتے تھے۔انہوں نے ہسپانوی زبان میں والد کی ایک نصیحت سنا کر اپنے ذواللسان ہونے کا اعلان بھی کیا۔امریکہ میں ہسپانوی آبادکار سیاہ فاموں کے تقریباً برابر ہیں مگر وہ سب روبیو کے امیدوار ہونے سے متفق نہیں۔مقامی پریس نے تو ان کے اس بیان کو مشکوک قرار دیا کہ ان کے والدین کیوبا کے انقلاب کے بعد امریکہ منتقل ہوئے تھے اور جواں سال سینیٹر نے مانا کہ اس سے غلطی ہوئی ہے۔ان کے محلے دار بش کی اہلیہ ہسپانوی ہیں۔ وہ میکسیکو میں پیدا ہوئی تھیں‘ جہاں دونوں نے شادی کی۔مسٹر بش بھی ہسپانوی بولتے ہیں۔اس ملک میں ہسپانوی بولنا اعزاز کی بات نہیں البتہ عربی‘جاپانی اور فرانسیسی بولنا ضروری ہے۔توقع ہے کہ آٹھ نومبر 2016ء کو جب رائے دہندگان ووٹ دیں گے تو اس لسانی اختلاف کی تائید نہیں کریں گے البتہ وہ اس نفسیاتی حقیقت سے متاثر ہو سکتے ہیں کہ پچھلی بار انہوں نے پہلی دفعہ ایک افریقی کو صدر چنا تھا اور اس مرتبہ کیوں نہ ایک عورت کو سربراہ منتخب کرنے کاتجربہ کیا جائے۔ باورکیا جاتا ہے کہ ہلیری کو ڈیموکریٹک ٹکٹ مل جائے گا کیونکہ پارٹی میں اب تک ان کا کوئی حریف نہیں اور صدر اوباما ان کو ایک ناقابل تسخیر امیدوار قرار دے چکے ہیں۔
ریپبلکن امیدواروں کی صف میں پہلے نمبر پر جیب بش ہی ہیں مگر روبیو کو پارٹی ٹکٹ کے حصول کی خاطر تقریباً ایک درجن حریفوں سے بھی آگے نکلنا ہو گا ۔مسز کلنٹن کو بھی اپنی پارٹی سے ایک طاقت ور مد مقابل درکار ہے‘ جو '' تبدیلی‘‘ سے متعلق ان کے موقف کو نکھار سکے۔لوگ پوچھتے ہیں کہ وہ خاتون‘ جنہیں اسلام آبادکی ایک تقریب میں '' پاکستان کی ساس‘‘ کا خطاب ملا اور جو آٹھ سال وائٹ ہاؤس کی مقیم اور چار سال ملک کے محکمہ خارجہ کو چلاتی رہی ہیں‘ کس منہ سے تبدیلی کی بات کرتی ہیں؟ فائونڈیشن کے بارے میں بھی سوال اٹھائے جا رہے ہیں‘ جسے ان کی سینیٹری کے زمانے میں کروڑوں ڈالر بیرونی حکومتوں نے عطا کئے۔ خارجہ پالیسی کے میدان میں ان کا تجربہ وسیع ہے۔وہ اپنی کتاب Choices Hard کے مطابق بجا طور پر یہ دعویٰ کرسکتی ہیں کہ بطور سیکرٹری آف سٹیٹ نازک اہمیت کے بہت سے بین الاقوامی امور کوصدر اوباما سے پہلے بھانپ جاتی تھیں۔مثلاً 2011ء میں باس کو یہ مشورہ کہ وہ صدر حسنی مبارک سے orderly علیحدگی اختیار کریں‘ مشرق وسطیٰ میں عرب بہار میں کچھ خلفشار روکنے کا سبب بنا ( صدر اوباما نے مبارک کے بعد اقتدار پر قابض ہونے والے ابوالفتح السی سی کے مصر کو ایک بلین ڈالر سے زیادہ سالانہ امداد بحال کی ہے) اور اگلے سال انہوں نے شام میں اعتدال پسند اپوزیشن کی معاونت پر زور دیا‘ جب وہ ابو بکر بغدادی کی انتہا پسند خلافت کے منہ میں جا سکتی تھی اور 2013ء میں اوباما انتظامیہ سے الگ ہونے سے پہلے انہوں نے ایران سے جوہری اسلحہ نہ بنانے کے حوالے سے مذاکرات شروع کئے جو بالآخر جان کیری کی قیادت میں ایک فریم ورک پر اتفاق پر منتج ہوئے۔نئے افغان لیڈر اشرف غنی کو امریکی انخلا کی سست روی اور مغربی ایشیا میں انہیں اعتدال کا راستہ اپنانے پر آمادہ کرنے میں بھی ان کا ہاتھ دیکھا جاتا ہے۔سوال یہ ہے کہ آیا وہ امریکی قوت کے محدود ہونے کا شعور حاصل کریں گی یا اپنے سینیٹری کے زمانے کو لوٹ جائیں گی جب قومی دفاع سے متعلق ان کے نظریات جوان تھے۔ ایران کے رہبر اعظم آیت اللہ علی خامنہ ای نے کہہ دیا ہے کہ اگر امریکہ نے فی الفور تعزیریں نہ اٹھائیں تو مغربی طاقتوں کے ساتھ کوئی سودا نہیں ہوگا۔ روس نے‘ جو ان مذاکرات میں شریک تھا‘ تعزیروں کے ہٹنے کا انتظار کئے بغیرتہران کے ہاتھ میزائل اور دوسرے جدید ہتھیار فروخت کرنے کا اعلان کر دیا ہے اور سعودی عرب نے پہلی بار ہمسایہ یمن پر بم باری کی ہے اور اس کے ساتھ پاکستان کو مخمصے میں ڈال دیا ہے کہ وہ دو مسلم ملکوں میں ثالث بنے یا اپنے دیرینہ دوست سعودیہ کا ساتھ دے۔امریکی تعزیریں ہٹنے پر اسے اپنے حصے کی گیس پائپ لائن بھی تعمیر کرنی ہے جو ایران سے آ رہی ہے۔ان حالات میں کسی ریپبلکن کو آزمانا ‘ امریکی رائے دہندگان کے مزاج کے منافی نہ ہو گا۔دقت یہ ہے کہ جیب بش بھی کیوبا سے بات کرنے کے روادار نہیں اور ایران پر امریکی تعزیریں سخت کرنے اور اسرائیل کے ساتھ زیادہ قریبی تعلقات کے حامی ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں