انصاف کے معیار

برطانیہ ، کینیڈا اور امریکہ مغربی جمہوریتیں ہیں اور وہ سب ایک دوسرے کے اتحادی سمجھے جاتے ہیں، مگر ان کے ہاں انصاف کے معیار جُدا جُدا ہیں ۔ ایک پاکستانی‘ جسے لندن کی ایک عدالت نے دہشت گردی کے الزام سے بری کر دیا تھا‘ نیو یارک میں اسی الزام کی بنا پر قصوروار پایا گیا اور گوانتا ناموبے کا ایک قیدی جسے امریکی حکام نے باقی ماندہ قید کاٹنے کے لیے اس کے آبائی وطن کینیڈا کے حوالے کیا تھا ٹورانٹو کے گلی کوچوں میں آزاد پھرتا ہے۔
اگر اہل پاکستان کو یا د نہ ہو تو میں انہیں یاد دلاتا ہوں کہ سابق سعودی شہری، اسامہ بن لادن‘ جس نے اسلامی دنیا کو دو بڑے حصوں میں تقسیم کیا‘ 2 مئی2011ء کو ایبٹ آباد میں امریکی فوج کے ایک خاص الخاص دستے کے ہا تھوں مارا گیا تھا۔ امریکی صحافی سیمور ہرش نے بن لادن کی موت کی چوتھی برسی برطانیہ کے ایک اخبار میں مضمون لکھ کر منائی اور اس وقت کے سی آئی اے کے ڈپٹی ڈائریکٹر مائیکل موریل(Morell) نے مضمون کے مرکزی خیال کی تردید کی ۔ امریکہ میں ہر چھوٹا بڑا حکومت سے الگ ہونے کے بعد ایک کتاب لکھتا ہے جس میں ایک دو چونکا دینے والی باتیں ضرور لکھی جاتی ہیں اور اکثر وہ ایک انٹرویو کے لیے ٹیلی وژن پر آتا ہے۔ مسٹر موریل نے بھی اسی ہفتے The Great War of Our Time کے عنوان سے اپنا ملازمت نامہ شائع کیا جس میں وہ (جنرل ) احمد شجاع پاشا سے (جو ان دنوں یہاں تھے) ایک ملاقات کا احوال لکھتے ہیں: '' میں نے ان کو بتایا کہ امریکیوں کے لیے یہ باور کرنا مشکل ہے کہ ایبٹ آباد میں آپ کے دستے اور پولیس کے کسی آدمی نے یہ سوال نہ کیا کہ کمپاؤنڈ میں کیا ہو رہا ہے۔ میں گارنٹی دے سکتا ہوں کہ پاکستانیوں کو چھا پے کا علم نہیں تھا‘‘۔ مجھے بن لادن کی ہلاکت ، امریکی حکومت نے یاد دلائی جب اس نے ایک پاکستانی نوجوان عابد نصیر کو دہشت گردی کا قصور وار قرار دلوانے کے لیے آٹھ دستاویزات‘ جو نیوی سیلز کے حملہ آور سکواڈ نے بن لادن کی لاش کے ساتھ اپنے قبضے میں لی تھیں‘ صیغہ راز سے باہر نکالیں اور اس عدالت میں پیش کیں جو نیو یارک میں اٹھائیس سالہ عابد کے خلاف مقدمے کی سماعت کر رہی تھی۔ ان دستاویزات کو declassify کرنے کا مقصد غا لباً استغاثہ کے کیس کو مضبوط تر کرنا تھا ۔ جج نے دو بار عابد کو مجرم گردانا کیو نکہ مارچ میں وہ اسے قصوروار قرار دیتے ہوئے یہ اطمینان کرنا بھول گئے تھے کہ عدالت کا سٹینو گرافر کمرے میں موجود ہے ۔ جج نے اس فروگزاشت پر عابد سے معذرت بھی کی جو اس کے لیے کسی کام کی نہیں تھی۔
زیا دہ تر دستاویزات بن لادن اوراس کے نائب عطیہ عبدالرحمن کے مابین خط وکتابت پر مشتمل ہیں ۔ ان میں پاکستان کے ساتھ ایک عارضی صلح سے لے کر عرب بہار کے خلفشار سے پیدا ہونے والی جہادی تنظیموں کے ساتھ اتحاد بنانے کی باتیں ہیں تاکہ بن لادن اپنے اصل دشمن ، امریکہ کی جانب سے بے فکر ہو سکے ۔ ان دستاویزات کے مطابق وہ حکمت عملی کے بڑے بڑے معاملات سے عہدہ برآ ہونے کے علاوہ عملے کے بارے میں فیصلوں اور جاسوسی کے توڑ کے حربوں کے بارے میں سوچتے محسوس ہوتا ہے۔ ایک مخطوطے میں وہ عطیہ کو انتباہ کرتا ہے کہ وہ موسم کی تبدیلی پر نظر رکھے جو صومالیہ پر‘ جو القاعدہ میں بھرتی کا ایک ذریعہ ہے‘ اثرانداز ہو سکتی ہے۔ وہ ترقی یافتہ ٹیکنالوجی پر عبور حاصل کرنے کے لیے القاعدہ کے آدمی مغربی یونیورسٹیوں میں بھیجنا تجویز کرتا ہے ۔ عابد بھی کمپیوٹر سائنس کی اعلیٰ تعلیم کے لیے لندن پہنچا تھا جہاں وہ برطانوی پولیس کے ہتھے چڑھ گیا ؛ تاہم ایک جج نے اسے القاعدہ کی رکنیت کے الزام سے بری کر دیا ۔ عطیہ کے نام ایک اور پیغام میں بن لادن '' امریکہ کے اندر ایک بڑی کارروائی‘‘ کی خبر دینے کو کہتا ہے ۔ اگلے پیرے میں وہ پوچھتا ہے '' آ پ کی نظر میں کوئی ایسا برادر ہے جو شاعری کا علم رکھتا ہو۔ براہ کرم ہمیں اس کی اطلاع کیجیے گا‘‘۔
عابد نصیر کے خلاف کیس بھی زیا دہ تر ای میلز کے تبادلے پر مبنی ہے‘ جو2009ء میں ملزم اور استغاثہ کے بقول القاعدہ میں اس کے ہینڈلر کے مابین ہوا جو مانچسٹر، نیو یارک سٹی اور کوپن ہیگن میں سویلین آبادی پر حملوں کی ہدایات دیتا تھا ۔ نصیر نے جو اپنا وکیل آپ تھا اصرار کیا کہ وہ ای میلز انگلستان میں ایک دلہن کی تلاش کے بارے میں بے خطر خوش کلامی پر مشتمل تھیں ۔ ملزم نے اپنے آخری کلمات میں جج اور جیوری سے خطاب کرتے ہوئے اپنے لیے اکثر صیغہ واحد غائب استعمال کیا، جیسے نصیر برطانیہ میں رہنا چاہتا تھا۔ کیا اس میں کوئی خرابی ہے؟
نصیر کو اس وقت برطانیہ سے امریکہ لایا گیا جب نجیب اللہ زازی نے نیو یارک کی زمین دوز ریلوے میں دھماکے کی سازش کا اعتراف کیا ۔ زازی نے نصیر کو سازش میں شریک قرار دیا تھا۔ امریکہ اور برطانیہ میں مجرموں یا ملزموں کو ایک دوسرے کے حوالے کرنے کا سمجھوتہ ہے ۔ پروسیکیوٹر زینب احمد نے عدالت کو بتایا کہ نصیر نے یہ کہہ کر جھوٹ بولا کہ اس نے جن عورتوں کو ای میلز ارسال کیں وہ حقیقی تھیں۔ در اصل وہ ایک خانہ ساز بم کے اجزا تھے۔ نادیہ سے اس کی مراد امونیم نائٹریٹ تھی اور ہما سے ہائیڈروجن پر اوکسائڈ، جب اس نے اپنے ہینڈلر کو یہ لکھا کہ ''کاش پارٹی کے وقت آپ یہاں ہوتے‘‘ تو وہ حملے کی بات کر رہا تھا۔ گواہ اور ملزم نے ایک دوسرے کو جاننے سے انکار کیا۔
بن لادن اور عطیہ کی خط وکتابت میں مسلح افواج کے شعبہ جاسوسی (آئی ایس آئی) کے ایک سابق سربراہ (ریٹائرڈ جنرل) حمید گل کا نام بھی آتا ہے۔ گو بن لادن عرب بہار کے خلفشار سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہا تھا، اس نے پاکستان سے مقامی نوعیت کے سمجھوتے کرنے اور شمالی افریقہ کی متحارب جہادی تنظیموں کے مابین صلح کرانے کی سعی بھی کی۔ عطیہ نے کہا، اس کے گماشتوں نے یہ تھکا ماندہ پیغام حکومت پاکستان تک پہنچا دیا ہے جس میں سابق انٹیلی جنس چیف حمید گل کا رابطہ کار شامل ہے اور اس سلسلے میں ایک اعلی طالبان اہلکار سے جو اپنے آپ کو طیب آغا کہتا ہے پیغامات کا تبادلہ ہو رہا ہے ۔ (یہ آدمی بعد میں خفیہ طور پر امریکی نمائندوں سے بھی ملا) عطیہ نے ایجاز و اختصار کے ساتھ پاکستان کو عارضی صلح کی پیش کش کا خلاصہ یوں پیش کیا : ''آپ اس وقت لڑائی کا جزو بنے جب آپ نے امریکیوں کا ساتھ دیا ۔ اگر آپ ہمیں اور ہمارے معاملات کو تنہا چھوڑتے تو ہم آپ کو تنہا چھوڑ دیتے‘‘ ۔ بن لادن نے اس خیال سے اتفاق کیا اور لکھا کہ '' ہم اپنے سب سے بڑے دشمن امریکہ سے جنگ کے دوران جس کسی کو ممکن ہوغیر موثر کرنا چاہیں گے‘‘۔ یہ وہ وقت تھا جب امریکہ ، طالبان کے ساتھ پوشیدہ امن مذاکرات کے شوشے چھوڑ رہا تھا۔ حمید گل نے مبینہ طور پر القاعدہ میں اپنے رابطے کو بتایا :'' ہم امریکیوں پر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ وہ القاعدہ سے بات کریں اور یہ کہ الگ سے طالبان کے ساتھ گفت و شنید فضول ہے‘‘۔ پانچ سال میں دنیا بدل چکی ہے، افغانستان میں حامد کرزئی کی جگہ اشرف غنی بیٹھا ہے جو کرزئی سے زیادہ امریکہ کا حامی ہے ۔ امریکی بھی جنگ و جدل سے تنگ آ گئے ہیں اور رائے عامہ کے جائزوں میں اپنے احساسا ت کا اظہار کر رہے ہیں ۔ جنگ کا مخالف امریکی(صدر) دو سال سے بھی کم مدت میں وائٹ ہاؤس سے رخصت ہونے کو ہے ۔ اسامہ بن لادن جا چکا ہے ۔ ایک بار پھر قطر میں طالبان کا دفتر کھل رہا ہے اور وہ اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ کی حکومت سے لین دین کے لیے تیار ہیں ۔ یہ ایک خوش آئند امکان ہے بالخصوص کابل جا کر وزیر اعظم نواز شریف کا یہ بیان کہ دونوں ملک ایک دوسرے کے خلاف اپنی سر زمین استعمال نہیں ہونے دیں گے، پالیسی میں تبدیلی کا آئینہ دار ہے ۔ بارک اوباما کی کوشش ہو گی کہ کیوبا سے تعلقات کی بحالی کے علاوہ افغانستان میں جنگ و جدل کے خاتمے کو اپنے صدارتی ورثے میں سمیٹ لیں ۔ وہ گوانتا نامو جیل کو تو بند نہ کرا سکے مگر ایران کی طرح طالبان سے مصالحت توکر سکتے ہیں ۔ ان حالات میں پاکستان سے کوئی بھول چُوک نہیں ہونی چاہیے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں