ٹوبی کی پریشانی

بڑے دو نے بارہ جماعت کا ہائی سکول کرنے کے بعد کالجوں کا رخ کیا مگر چھوٹا بھائی ٹوبی فوج میں چلا گیا تھا۔ جبری بھرتی کا قانون (ڈرافٹ) ختم ہوئے تھوڑا عرصہ گزرا تھا اور تمام امریکی ملٹری رضاکار ہو رہی تھی۔ اب وہ ایک ٹیلی فون کمپنی میں ملازم‘ دو بچوں کا باپ اور اپنے گھر میں آباد و شاد ہے۔ اس نے کمسنی میں لاہور چھوڑا تھا۔ پرورش امریکہ میں ہوئی۔ پاکستان جانے کی کبھی خواہش نہیں کی۔ نماز روزے کا پابند نہیں۔ بالعموم ٹی شرٹ اور نیلی جینز میں گھومتا پھرتا ہے۔ اردو اور پنجابی نہیں بول سکتا۔ امریکی انگریزی میں بات کرتا ہے۔ اگلے روز آیا تو قدرے پریشان تھا۔ سبب پوچھا تو کہا: '' ٹرمپ نے کال دی ہے کہ عوامی نمائندوں کی تصدیق تک مسلمانوں کے داخلے پر پا بندی لگا دینی چاہیے‘‘۔ ''تجھے کیا؟‘‘ ''میں پاکستان گیا تو واپس نہیں آ سکوں گا‘‘۔ والدین نے سمجھایا کہ ارب پتی ڈونلڈ ٹرمپ‘ صدارت کے لیے تیرہ ری پبلکن امیدواروں میں سے ایک ہیں‘ اور ووٹ کی خاطر کبھی میکسیکنز کو سرحد کے پار پہنچانے‘ کبھی ایک صحافی کی نقل اتارنے پر عورتوں کو ناراض کرنے اور سینٹ برناڈینو کے سانحے کے بعد مسلمانوں کو دھمکانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اول تو انہیں ٹکٹ نہیں ملے گا اور اگر پارٹی نے انہیں نامزد کیا تو وہ ڈیموکریٹک امیدوار کے مقابلے میں ہار جائیں گے۔ الیکشن میں تو سال پڑا ہے۔ ''اس وقت تو وہ ری پبلکن امیدواروں میں پہلے نمبر پر ہے‘‘۔ ہمارے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں تھا۔
ٹوبی در اصل پٹس برگ کی وہ خبر پڑھ کے آیا تھا‘ جس میں کہا گیا تھا: مسافر نے ٹیکسی ڈرائیور کا مذہب پوچھا‘ تو اس نے جواب دیا: ''اسلام‘‘۔ مسافر نے یہ جان کر اسے گولی مار دی۔ ٹوبی کہہ رہا تھا کہ کوئی اس سے پوچھے گا‘ تو لامحالہ وہ بھی یہی جواب دے گا۔ مسٹر ٹرمپ‘ مسلم آبادی کا ڈیٹا بینک تیار کرنے اور ان کے لیے ایک خاص شناختی کارڈز بھی تجویز کر رہے ہیں۔ بہت سے لوگ‘ ان کی انتخابی شعلہ نوائی کو غیر آئینی اور امریکی اقدار کے منافی قرار دیتے ہیں‘ اور وہ خود بھی مانتے ہیں کہ ان کی تجاویز سیاسی لحاظ سے غلط ہیں مگر رائے دہندگان میں ان کی مقبولیت بڑھتی ہی چلی جا رہی ہے۔ یہ اسلاموفوبیا (اسلام سے خوف) ہے جو نائن الیون سے فزوں تر دکھائی دیتا ہے۔ ٹیکسی ڈرائیوروں کا قتل‘ مساجد پر حملے اور نفرت کے دوسرے جرائم‘ پیرس میں خود کش اقدامات اور کیلی فورنیا میں ایک کرسمس پارٹی پر شوٹنگ کا رد عمل ہیں مگر اس رد عمل کی مخالفت تقریباً ہر کوئی کرتا ہے اور ان میں ری پبلکن خیال کے لوگ بھی شامل ہیں۔ ایک بار سیاہ فام ری پبلکن ریٹائرڈ جنرل کولن پائول سے‘ جو بش کے دور صدارت میں ملک کے وزیر خارجہ بھی رہے‘ کسی متعصب اخباری نمائندے نے پوچھا کہ سینیٹر بارک اوباما بھی صدارت کے لے اٹھ کھڑے ہوئے ہیں‘ جو ایک مسلمان ہیں تو کندھے جھٹک کر انہوں نے جواب دیا تھا: '' تو کیا؟امریکی آئین تو مذہب کی بنا پر کسی کو اس منصب کے نااہل نہیں کرتا‘‘۔
خواجہ عبدالقیوم مرحوم اور ان کی اہلیہ کو ان کے عزیزوں کے گھر چھوڑنے شارلٹول گئے۔ ایک کمرہ کرنل صاحب مرحوم کی یادگاروں سے آراستہ تھا۔ سامنے دیوار پر ان کی وردی آویزاں تھی‘ اور اس کے ساتھ وہ بوٹ نمایاں تھے‘ جو چند سال پہلے عراق کی سرزمین پر پڑے تھے۔ پتہ چلا کہ مرحوم کی سالگرہ پر امریکی فوج کا ایک دستہ آتا ہے اور انہیں سلیوٹ کرتا ہے۔ وہ ویسٹ پوائنٹ نیو یارک کے گریجوایٹ تھے‘ جو کاکول میں ہماری ملٹری اکیڈیمی کی طرز پر ایک درسگاہ ہے۔ وہ امریکی فوج میں خدمات ادا کر رہے تھے۔ ان کی بیوہ نے دھیمے لہجے میں ہماری مہمان داری کی۔ ان کے والد بزرگوار‘ جو پیشے کے اعتبار سے وکیل تھے‘ پاس ہی ٹہل رہے تھے۔ مرحوم نے ڈاکٹر یا انجینئر بننے کی بجائے اپنے اختیاری وطن کے دفاع کا پاسدار ہونے کو ترجیح دی۔ وجوہ آپ خود سوچ سکتے ہیں۔
امریکی فوج میں5,900 افسر اور جوان‘ مسلمان ہیں جو آج کل زیر حملہ محسوس کرتے ہیں۔ ان میں مرین کور کے گنری سارجنٹ امیر حاذق بھی ہیں‘ جو کمسنی میں والدین کے ہمراہ بازنیا ہرزگوینا سے نقل وطن کر کے امریکہ آئے تھے۔ ان کے نزدیک ڈونلڈ ٹرمپ کی یہ تجویز کہ مسلمان ایک ''سپیشل آئی ڈی‘‘ کے ساتھ گھر سے باہر نکلیں ایسی ہی ہے جیسی کہ ان کی شنید کے مطابق مسلمانوں کو ہانکنے والے سرب انہیں بازو پر سفید بلا باندھنے کا حکم دیتے تھے تاکہ ان کی شناخت ان کے مذہب سے ہو سکے۔ ''ہم اپنی اقدار پر چلتے تھے مگر اب ان اقدار سے پہلوتہی کرنے پر آمادہ ہیں کیونکہ ہم خوف زدہ ہیں۔ یہ امریکہ نہیں۔ اس امریکہ پر کیا گزری جسے میں نے اپنا وطن بنایا تھا‘‘۔
کیپٹن نادی قاسم‘ جو ویسٹ پوائنٹ کے گریجوایٹ اور فلسطینی مہاجروں کی اولاد ہیں‘ کہتے ہیں کہ آج کل یہ شعلہ نوائی غیر امریکی ہے۔ وہ ایک سو بیس باوردی مردوں اور عورتوں کے انچارج ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ غوغا‘ فوجی آداب کے بھی منافی ہے۔ ایک پاکستانی امریکی منصور شمس‘ جو امریکی فوج سے ریٹائر ہو چکے ہیں‘ چھ سال کے تھے جب انہوں نے والدین کے ہمراہ کراچی سے نقل وطن کی اور ہائی سکول کرنے کے بعد انہوں نے مرین فوج میں شمولیت اختیار کی جس کا ہیڈ کوارٹرز (کوانٹے کو) ہم سے اگلے موڑ پر ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ انتخابی شعلہ نوائی ان امریکی مسلمانوں کی یادوں کو بھی مسموم کر رہی ہے‘ جنہوں نے اس وطن کے دفاع میں باوردی جانیں دیں۔ جب بھی ہم اسلام دشمن رائے کا اظہار کرتے ہیں‘ ہم ان کی توہین کرتے ہیں۔ وہ ہمسایہ ریاست نارتھ کیرولائنا میں تعینات تھے‘ جب انہوں نے ٹیلی ویژن پر نائن الیون کی تباہ کاریاں دیکھیں۔ اس کے بعد انہیں مرین فوجیوں کو اپنے دین کی موٹی موٹی باتیں بتانے کی دعوت دی گئی۔ کارپورل شمس نے اپنے ساتھیوں کو پانچ ارکان دین کی تعلیم دی۔
کچھ مسلمان سابق فوجیوں نے‘ جنہیں یہاں احتراماً veterans کہا جاتا ہے‘ اظہار خیال کے لیے سوشل میڈیا کا سہارا لیا ہے۔ ایک بنگلہ دیشی امریکی طیب رشید نے ٹرمپ کے اس بیان کے بعد کہ مسلمان خاص شناختی کارڈ لے کر باہر نکلیں‘ اپنا فوجی آئی ڈی ٹویٹ کیا: مسٹر ٹرمپ امریکہ کے اندر آنے والوں کو جھوٹ بولنا سکھا رہے ہیں‘ جب کہ ملک کے اندر بچوں کو سچ کہنے کا درس دیا جاتا ہے۔ ٹرمپ کے حواریوں کی جانب سے یہ تجویز بھی آئی کہ امریکہ میں داخل ہونے کے خواہش مندوں کو کھانے کے لیے بیکن‘ جو یہاں ناشتے کا لازمی جزو ہے‘ پیش کیا جائے۔ اگر کوئی انکار کرے تو اسے مسلمان سمجھا جائے۔ وہ یہ بھول گئے کہ یہودی اور کچھ مسیحی بھی خنزیر نہیں کھاتے۔
ٹرمپ کہتے ہیں کہ مسلم کمیونٹی ان کی شکر گزار ہے۔ میں نے انہیں احساس دلایا ہے کہ ان کے ہاں مسائل ہیں۔ مسلمان دہشت گردی کی غیر مشروط مذمت کرتے ہیں۔ نیویارک‘ واشنگٹن اور دوسرے شہروں میں ان کے مظاہرے اس کا ثبوت ہیں‘ اور اس بات کا بھی کہ وہ اسلام کے بارے میں مسٹر ٹرمپ کے نظریات کی بھی مخالفت کرتے ہیں۔ وہ مشرق وسطیٰ میں اپنے تعلقات کی بات کرتے ہیں جن کی تردید دو واقعات سے ہوتی ہے۔ اول‘ دبئی کی جو کمپنی تعمیرات کے کاروبار میں ٹرمپ کی شریک کار تھی اس نے اپنے بل بورڈ سے ان کا نام ہٹا دیا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کا کاروباری بائیکاٹ جاری ہے۔ مصنوعات سٹوروں کی الماریوں سے نکالی جا رہی ہیں۔ دوم‘ سعودی عرب کے پرنس ولید بن طلال بن عبدالعزیز سے ان کی گفتگو ہے ۔ پرنس ولید دنیا کے امیر ترین لوگوں میں شمار ہوتے ہیں اور اپنی ساری دولت ( بتیس بلین ڈالر) خیراتی کاموں کے لیے وقف کر رہے ہیں۔ انہوں نے مسٹر ٹرمپ کو مشورہ دیا تھا کہ وہ وائٹ ہاؤس کی دوڑ سے دستبردار ہو جا ئیں۔ یہ مشورہ ویسا ہی تھا جیسا کہ خود وائٹ ہاؤس کے ترجمان نے دیا: ''مسٹر ٹرمپ‘ مسلمانوں کے خلاف بیان دے کر صدارت کے منصب کے نااہل ہو گئے ہیں‘‘۔ پرنس نے انہیں کہا تھا کہ یہ دوڑ نہ صرف GOP (یعنی رپبلکن پارٹی) بلکہ پورے امریکہ کے لیے خفت کا باعث ہے۔ مسٹر ٹرمپ نے جواب میں ساٹھ سالہ شہزادے کو نشہ خور (کاہل‘ کام چور) کا خطاب دیا اور کہا کہ تم باپ کے مال سے امریکی سیاستدانوں کو خریدنے کی کوشش کر رہے ہو‘ جو میرے انتخاب کے بعد ممکن نہیں ہو گا۔ سال کے آخر میں رپبلکن امیدواروں میں پانچویں مباحثے پر ''سکیورٹی‘‘ کا مسئلہ چھایا رہا اور اس میں ایک بار پھر‘ بہت سے مبصروں کی نگاہ میں‘ جیت ڈونلڈ ٹرمپ کی ہوئی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں