درآمدی دولہا دلہن

ایک اور پاکستانی شادی ناکام ہو گئی ہے۔وجہ اس کی سادہ اور قدیم ہے۔پاکستان میں اکثر لوگ ‘ دانستہ یا نا دانستہ ‘ اپنی اولاد کو بھیڑ بکریوں کے برابر خیال کرتے ہیں۔اپنی جا ئداد سمجھتے ہیں ۔ وہ ایک مغربی سرزمیں پر ان کی قلم لگانے (ٹرانسپلانٹ) کے بعد بھی انہیں اپنی مرضی سے چلانا چاہتے ہیں ۔امریکہ منتقل ہونے کے بعد بھی انہیں موم کی ناک خیال کرتے ہیں۔ عقیلہ بٹ کے والدین چاہتے تھے کہ ان کی بیٹی اپنے کزن سے شادی کرے تاکہ اسے بھی تیزی سے اس ملک میں لایا جا سکے۔وہ ملازمت کرے۔اپنے گھر پیسے بھیجے اور اپنے ماں باپ اور بھا ئیوں کا کفیل ہو۔انہیں سپونسر کر سکے۔ امریکہ میں مرد ہو یا عورت کوئی اپنے کزن سے شادی کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔شادی‘ لڑکی یا لڑکے کی مرضی سے ہوتی ہے خواہ اس کے لئے انہیں مشرقی سے مغربی ساحل تک کیوں نہ جانا پڑے۔
عقیلہ تیرہ سال کی تھی جب باپ نے اسے ہائی سکول سے اٹھا لیا اور کنبہ گجرات سے شمالی ورجینیا ( واشنگٹن) میں وارد ہوا۔ جب وہ اٹھارہ سال کی ہوئی تو باپ نے بتایا کہ اسے اپنے چچیرے بھائی سے بیاہ کرنا ہو گا۔لڑکی نے والد کا کہا مانا اور شادی کر لی۔دلہا کو گرین کارڈ ملا اور وہ شادی اور نوکری کے لئے امریکہ آ گیا۔ امریکہ میں نائن الیون کے بعد بھی غیر ملکیوں کو فیانسے (منگیتر)ویزا جاری ہوتا ہے کیونکہ یہ خاندان کو یکجا کرنے کے لئے ہے۔اب اس کے ہاں دو بیٹیاں تھیں مگرباپ اور شوہر انہیں اللہ کی رحمت سمجھنے کے بجائے عذاب ا لٰہی خیال کرتے تھے۔ وہ عقیلہ کو مشورہ دیتے تھے کہ انہیں انگریزی کتابیں نہ پڑھائے۔ دونوں مرد تعلیمِ نسواں کو لڑکیوں کے لئے مضر سمجھتے تھے۔عقیلہ کا کہنا ہے کہ وہ طالبان کی طرح تھے۔
2012ء میں عقیلہ کی ''حکم عدولی‘‘ حد سے بڑھی تو شوہر اپنے کنبے کو اس کے حال پر چھوڑ کر چل دیا۔دراصل وہ اب امریکی شہری اور بر سرِ روزگار تھا اور اور اسے عقیلہ کی ضرورت بھی نہیں رہی تھی۔عقیلہ نے دیکھا کہ امریکہ میں اس کی ماں اور پاکستان میں رشتے کی باقی عورتیں اسے بُرا کہتی ہیں تو وہ اپنی دونوں بیٹیوں کو انگلی سے لگائے گھر سے نکل گئی۔یہ خواتین اپنے روایتی کلچر کی اصابت پر اصرار کر رہی تھیں۔اگرچہ اب پا ک فضائیہ عورتوں کی حوصلہ افزائی کر رہی ہے اورخواتین لڑاکا ہوا باز مریم مختیار کی طرح اپنے وطن پر جانیں قربان کر رہی ہیں مگر مجموعی طور پر ہمارا رُخ کسی اور طرف ہے۔عقیلہ اپنی وکیل کی شکرگزار ہے کہ نہ صرف اس خاتون نے اسے طلاق دلوائی اور اپنی بیٹیوں کا واحد سپرد دار قرار دلوایا بلکہ اسے کار چلانا بھی سکھایا اور اسے لائسنس ملا۔
عقیلہ کے ایک چچا نے اسے فون کیا اور کہا کہ ہر کسی کا فائدہ اسی میں ہے کہ وہ پاکستان واپس لو ٹ جائے۔عقیلہ کو امریکہ کی'' ہوا‘‘لگ چکی تھی اور لڑکیوں کا مفاد اس کو سب سے زیادہ ملحوظ تھا اس لئے چچا کو جواب دیا:'' آپ ایک بیٹی‘ ایک بیوی اور ایک بہن سے نبردآزما نہیں بلکہ ایک ماں سے لڑ رہے ہیں۔‘‘ یہ عید الفطر کا دن تھا اور سرکاری و غیر سرکاری سب کاروبار کھلے تھے۔ وہ اپنے گھر کے رینٹل آفس گئی اور کارکنوں کو بتا یا کہ اس کا شوہر اسے چھوڑ کر جا چکا ہے اور اس کے پاس کرایہ دینے کو ایک ڈالر نہیں۔اس پرعملے نے کاؤنٹی کے اہلکاروں سے اس کا تعارف کرایا اور بڑی جدو جہد کے بعد اسے آزادانہ رہائش کی سہولتیں حاصل ہوئیں۔
امریکی آئین میں سب لوگوں کو روزگار اور خلوت کی جو ضمانتیں دی گئی ہیں ‘عقیلہ نے ان سے پورا فائدہ اٹھایا۔چھوٹی موٹی ملازمتیں کیں۔ ہائی سکول تک تعلیم لازمی تھی۔بیٹیوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنا شروع کیا اور انہیں ان کے حقوق سے آگاہ کیا۔اب وہ چونتیس کے پیٹے میں ہے اور اس کی بچیاں سات اور چار سال کی ہیں۔ماں اور بچے ‘ گرل فرینڈ اور بوائے فرینڈ کے سسٹم کو قبول یا رد کرنے میں آزاد ہیں۔اب امریکہ میں مسلمانوں کی تعداد کثیر ہو چکی ہے اور لڑکی لڑکے کو اپنے مذہب کے اندر رشتے مل سکتے ہیں۔ماضی میں کچھ پاکستانی ‘ شادی کے قابل بیٹیوں کو لے کر واپس جاتے رہے اور پچھتاتے ہیں۔کیوں؟ اس لئے کہ وہ اپنے بچوں کے سن بلوغ کو پہنچنے کے باوجود انہیں اپنی ذمہ داری خیال کرتے ہیں اور یہ بہ آسانی بھول جاتے ہیں کہ پاکستان میں‘ ان کے بچوں کو جنہوں نے یورپ ‘ شمالی امریکہ یا آسٹریلیا میں پرورش پائی ہے موزوں طبع رشتے مل سکیں گے اور وہ انہیں نبھاہ سکیں گے؟
عقیلہ کے لئے چچا زاد کو پاکستان سے درآمد کیا گیا تھا جو بقول مظلوم کے اسے مارتا پیٹتا تھا‘ جو پنجابی ہو نے کے ناتے اس کی ''گت ْپٹ کر اس کے ہاتھ میں تھمانے ‘‘ کی دھمکی دیتا تھا۔اسے کمیونٹی میں ربط ضبط بڑھانے یہاں تک کہ سہیلیاں بنانے کی ممانعت تھی۔ اسے کھانا پکانے اور صفائی کرنے کے سوا کوئی کام کرنے کی اجا زت نہیں تھی۔شادی میں اس کا دم گھٹتا تھا۔ با ایں ہمہ اس نے ایک بچی کو جنم دیا اور پھر دوسری پیدا کی۔اس دوران شوہر بھی اس سے بیزار ہو گیا تھا۔ تین سال قبل وہ بھی دو کمرے کے ایک اپارٹمنٹ میں چلی آئی۔ماں باپ شادی ناکام ہونے کا سارا قصور اس کے سر ڈالتے تھے۔تاشفین ملک بھی لیہ سے درآمد کی گئی تھی وہ با پردہ خا تون بھی'' منگیترویزا‘‘K-1پر امریکہ میں داخل ہوئی تھی۔اس نے گزشتہ سال رضوان فاروق سے نکاح کیا جو شکاگو میں پاکستان سے نقل وطن کر نے والے والدین کے گھر پیدا ہوا تھا۔وہ اور شوہر کرائے کے گھر کے قریب ایک وین میں پولیس کی گولیوں سے مردہ پائے گئے۔رضوان سینٹ برنا ڈینو کاؤنٹی کا ملازم تھا جہاں چار گھنٹے قبل ایک کرسمس پارٹی میں شریک چودہ لوگ مارے گئے تھے۔ان کی چھ ماہ کی بیٹی‘دادی کی گود میں چند گھنٹے گزارنے کے بعد سماجی بہبود کے محکمے کی تحویل میں تھی۔ 
گھریلو تشدد کا امریکہ میں فقدان نہیں۔ ایک نتیجہ یہ ہے کہ یہاں ہر تیسرا مرد اور عورت ایک سے زیادہ بار بیاہے گئے ہیں۔شادی کے بغیر بھی ایک مرد اور ایک عورت کو یکجا رہنے کی اجازت ہے۔ گویا '' چوائس‘‘ موجود ہے اور طلاق کو کلنک کا ٹیکہ نہیں سمجھا جاتا۔ یہ معاشرہ ترقی پذیر ہے۔ڈیٹنگ کی سہولت کی موجودگی میں '' ڈیٹ ریپ‘‘ کے واقعات اکثر ہو تے ہیں اور عورتوں کی عصمت پر حملوں کا شمارتو نہیں۔ عورتیں ہر کار گاہ میں نظر آتی ہیں مگر کانگرس میں ان کی تعداد ان کی آبادی کے تناسب کے مطابق نہیں۔ سینٹ میں 20 اور ہاؤس میں 79 ہیں مگر ان کی حیثیت نمائشی نہیں وہ سب عوام کے ووٹوں سے منتخب ہو کر واشنگٹن آئی ہیں۔ ایک سال بعد ہونے والے صدارتی انتخاب کے لئے جو دو درجن ڈیموکریٹ اور ری پبلکن امیدوار سامنے آ ئے ہیں ان میں دونوں پارٹیوں سے صرف ایک ایک خاتون شامل ہے۔'' پاکستانی عورتیں اپنے جذبات چھپانا جانتی ہیں۔وہ خوف زدہ ہیں۔ وہ نہیں چاہتیں کہ ان کی حالت زار سے دوسرے لوگ آگاہ ہوں۔ پسند کی شادی کرنے پر دلہن اور دولہا پر تیزاب پھینک دیا جاتا ہے۔عورتوں کو زندہ دفن کیا جاتا ہے اور ان کی جان لینے والے قانون کی نظروں سے بچ نکلتے ہیں۔''میں نے یہ چکر توڑ دیا۔مجھے نہیں معلوم کہ یہ حوصلہ کہاں سے آیا؟‘‘ عقیلہ نے یہ چکر توڑا کیونکہ وہ معاشی لحاظ سے خود کفیل ہو رہی تھی۔ وہ کاؤنٹی کے سکول سسٹم میں اسسٹنٹ ٹیچر کی اسامی کے لئے تیاری کر رہی ہے۔
(نوٹ:جمعہ کے روز اخبارات کے دفاتر میں تعطیل کی وجہ سے یہ کالم ہفتہ کے بجائے اتوار کو شائع کیا جا رہا ہے)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں