قدر مشترک

مسجد نبوی کے کشادہ صحن میں کھڑا تھا اور سوچ رہا تھا، جنت البقیع کہاں ہے؟ بجلی کے ایک کھمبے کے نیچے ایک شخص کو دیکھا جو مجھ سے ملتے جلتے لباس میں تھا۔ اس سے پوچھا تو اس نے بڑی لجاجت سے علاقے سے نا واقفیت کا عذر پیش کیا۔ اتنے میں ایرانیوں کا ایک جتھا اپنا پرچم اٹھائے صحن سے گزر کر مسجد کے عقب کی طرف جاتا دکھا ئی دیا۔ لامحالہ اس کے پیچھے لگ گیا اور جب وہ ایک جگہ رکا تو میرا یہ قیافہ درست ثابت ہوا کہ وہ '' جنت‘‘ کی طرف جا رہے تھے۔ اس جنت کے حواس اڑے ہوئے تھے۔ جگہ کو دیکھ کر یہ اندازہ نہیں ہوتا تھا کہ کون سی قبر رسول اللہ ﷺ کے کس رشتے دار کی یا صحابی کی ہے۔ قبروں کی جگہ کچھ پتھر پڑے تھے مگر وہاں اردو سمیت اسلامی قوموں کی زبانوں میں جہازی سائز کے کتبے آویزاں تھے جن میں زائرین کو انتباہ کیا گیا تھا کہ رفتگان کی تلاش میں اپنا وقت ضائع نہ کریں اور اللہ اور اس کے نبی کے احکامات کی پیروی کریں۔ ( تفصیل کے لیے دیکھیے '' مکہ ڈائری ‘‘ شائع کردہ سنگ میل لاہور۔) داعش نے اعلان کیا ہے کہ عراق میں تمام زیارت گاہیں مسمار کر دی جائیں گی۔ پھر سعودی عرب اور جدید خلافت میں رنج کیوں ہے، اس لیے کہ داعش اسلام میں بادشاہت کو بھی بْراسمجھتی ہے۔
اس سے پہلے پاکستان ٹائمز کے ایڈیٹر مقبول شریف مرحوم نے لاہور میں مجھے بتایا کہ ایرانی انقلاب کی گرد بیٹھ جانے کے بعد جب تعلقات عامہ کے ماہر پاکستانی صحا فیوں کو لے کر تہران گئے اور ہمیں امام خمینی سے ملوایا تو ہم حیران رہ گئے جب ان کی گفتگو سے یہ تاثر ملا کہ پاکستان میں شیعہ اکثریت میں ہیں مگر سنی اقلیت ان پر ظلم روا رکھتی ہے۔ ہزارہ اور دوسرے شیعوں اور اہل سنت پر طالبان کے خونریز حملے ابھی دور کی بات تھی اور جنرل محمد موسیٰ ماضی میں پاکستان کی مسلح افواج کے کمانڈر انچیف ہو چکے تھے۔ تین جنگوں میں شیعہ سپاہیوں نے اہل سنت کے شانہ بشانہ قربانیاں دیں اور مسلک کا سوال کبھی کھڑا نہیں ہوا۔ اس وقت تک یہ سوال بے معنی تھا اور بیشتر خاندانوں میں شیعہ اور سنی بکثرت پائے جاتے تھے اور وہ محرم کی تقریبات مل کر مناتے تھے۔ مشرق وسطیٰ میں گھومتے پھرتے یہ اندازہ ہوا کہ بنو ہاشم اور بنو امیہ کی سات سو سال پرانی لڑائی وقت گزرنے کے ساتھ اور تیز ہو گئی ہے۔ ہر مسلمان کا خواہ کوئی اسے مسلمان ما نے یا نہ مانے قبلہ و کعبہ تو سعودی عرب میں ہے۔ ایران ہمارا ہمسایہ ہے، پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے بعد سب سے پہلے شاہ نے نو زائیدہ ملک کا دورہ کیا تھا۔ اگر پاکستان دو برادر ملکوں میں غیر جانبدار نہ ہوا تو وہ ان میں صلح صفائی کیونکر کرا سکے گا؟ امریکی وزیر خارجہ جان کیری اور اقوام متحدہ کے عہدیدار سٹیفن ڈی مستورا کی طرح اسے بھی اندھیرے میں روشنی کی کرن دیکھنی چاہیے۔ ایران کے صدر حسن روحانی کی طرح وہ بھی سعودی سفارت خانے پر حملے کی کھل کر مذمت کرتے ہیں۔ سعودی حکمرانوں کا بیان ہے کہ نمر باقر النمرکی گردن زدنی جنیوا میں شام سے متعلق بین الاقوامی امن کانفرنس میں رکاوٹ نہیں ہونی چاہیے جو اسی مہینے کے آخر تک ہو گی۔
نمر ایک قبیلے کا نام ہے جس میں شیعہ اور سنی گھلے ملے ہیں، اس کا ایک ثبوت ''مسجد نمر‘‘ ہے جو مناسک حج میں سے ایک اہم مقام ہے۔ سعود ی عرب کا منطقہ شرق‘ جس میں دمام ‘احصااور قطیف کے صوبے شامل ہیں تیل کی دولت سے مالا مال ہے اوران میں شیعہ‘ اکثریت میں سمجھے جاتے ہیں۔ 1979ء میں مکہ معظمہ پر جوہیمن العتیبی کے سنی گروہ کا قبضہ ہونے کے بعد بے خبری میں انہوں نے ریاض کی طرف پیش قدمی کی کوشش بھی کی تھی۔ (تفصیل ''مکہ کا محاصرہ ‘‘ وین گارڈ۔) شیخ باقر النمر اسی خطے میں پیدا ہوئے تھے۔ زیادہ سے زیادہ ان کا قصور سعودی حکمرانوں کو انسانی حقوق کی تلقین تھی جو امریکہ اور باقی مغرب میں عام ہے۔ اس جرم میں وہ پہلے بھی کئی بار پکڑے گئے تھے۔ اس مرتبہ ان کا سر سینتالیس جرائم پیشہ افراد، جن میں شیعہ اور سنّی سب ملے جلے تھے، کی معیت میں قلم کیا گیا اور ان کی لاش ایک ہیلی کاپٹر سے زمین پر پٹخی گئی۔ یہ حکمرانوں کا نہیں اساس پرست ملاؤں کا کام لگتا ہے جو بادشاہ کی مرضی کے خلاف ملک کو چلا رہے ہیں۔ ایران میں بھی ملاؤں کو منتخب حکومت پر فوقیت حاصل ہے اور وہاں سعودیوں سے تین گنا زیادہ قیدیوں کو موت کے گھاٹ اتارا گیا ہے۔ ملک میں بیرونی صحافیوں کو جاسوسی کے الزام میں طویل عرصے تک جیل میں ڈال دیا جاتا ہے۔ جس رات صدر اوباما ‘ کانگرس کے مشترکہ اجلاس سے الوداعی خطاب کرنے والے تھے، اندازہ ہوا کہ بیشتر اسلامی ملکوں کی طرح ایران میں بھی سخت گیر اور اعتدال پسند عناصر حکمران ہیں۔ پاسداران انقلاب نے امریکی بحریہ کی دو کشتیوں کو جو راستہ بھول کر ایرانی پانیوں میں جا گھسی تھیں، ان کے دس رکنی عملہ سمیت حراست میں لے لیا اور ٹیلی وژن کے لیے ان کی تصویریں بنا کر اور کھانا کھلا کر چھوڑ دیا۔
ہر شخص کو اپنا مذہب پیارا ہوتا ہے۔ یہ پیار برقرار رہنا چاہیے مگر مشکل اس وقت آن پڑتی ہے جب کچھ لوگ اپنے مذہب یا مسلک کو دوسروں کے مذہب یا مسلک سے افضل و اعلیٰ سمجھنے لگتے ہیں اور اس کا پرچار بھی کرتے ہیں۔ مسیحیوں میں یہ مشکل پہلے پیدا ہوئی جس کے نتیجے میں دو عا لمگیر جنگیں لڑی گئیں۔ یہ لڑائیاں بڑی حد تک یورپ میں لڑی گئیں مگر نو آبادیاتی قوتوں نے ایشیا اور افریقہ کو بھی ان میں گھسیٹ لیا ۔جدید دور کی استعماری طاقتیں سعودی عرب اور ایران ہیں جن کے کچھ مذہبی پیشوا دوسرے اسلامی ملکوں کو باہمی فرقہ وارانہ جنگ میں گھسیٹ کر لا رہے ہیں۔ سعودی عرب کو لگا کہ ایران اس کے ہمسائے یمن کو اس کے خلاف ورغلا رہا ہے؛ چنانچہ اس نے یمن پر حملہ کر دیا اور جب اسے خاطر خواہ کامیابی نہ ہو ئی تو اس نے مغرب کے ان طعنوں کے جواب میں انتہا پسندی سے لڑنے کے لیے چونتیس ملکوں کے دفاعی اتحاد کا اعلان کیا جس میں پاکستان بھی شامل تھا۔ یہ وہ دن تھے جب امریکہ‘ ایران کو جوہری ہتھیار بنانے سے روکنے کے ایک بین الاقوامی عہد نامے پردستخط کرا رہا تھا اور پاکستان اپنے انتہا پسندوں سے ضرب عضب نام کی لڑائی لڑ رہا تھا۔ ایرانی وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے امریکہ، چین اور روس سمیت عالمی طاقتوں سے ایٹمی معاہدہ کرتے ہی اسلام آباد کا رخ کیا۔ دفاعی اتحاد میں شامل کیے جانے سے ناواقف پاکستان کی جانب سے غیر جانبداری کی صدائیں اٹھنے لگیں تو سعودی وزیر خارجہ عدیل بن احمدالجبیراسلام آباد آ پہنچے۔ اس وقت وزیر اعظم نواز شریف اپنے وزیروں اور مشیروں کے ساتھ ایک میٹنگ میں مشرق وسطیٰ کے بارے میں پاکستان کی حکمت عملی وضع کر رہے تھے۔ چند روز بعد وزیر دفاع اور بادشاہ کے فرزند محمد بن سلمان بھی طے شدہ پروگرام کے مطابق اسلام آباد آئے اور حکام کو دہشت پسندوں سے جن میں بقول ان کے ایران بھی شامل ہے لڑنے کی دعوت دیتے رہے۔ ایرانی وزیر خارجہ اور سعودی وزیر دفاع کے ناموں میں ایک قدر مشترک ''محمد‘‘ ہے، پھر دیرینہ نزاع کس بات کا؟ ہمارے وزیر اعظم کو پارلیمنٹ کی اہمیت کا اندازہ ہوا جب اس نے یمن کی جنگ میں کودنے سے پاکستان کو بچا لیا اوراب بیشتر قانون ساز اسے '' انتہا پسندی‘‘ سے لڑائی کی آڑ میں سعودی عرب کے دشمنوں پر حملے سے بچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ 
یورپ نے بقائے باہم سیکھ لیا ہے، یہی وجہ ہے کہ اسّی سال کے دوران ان میں کو ئی جنگ نہیں ہوئی۔ مسلمان آج جنگ و جدل میں مبتلا ہیں۔ وہ جب لاکھوں کی تعداد میں شام سے نکلنے پر مجبور ہوتے ہیں تو پاکستان‘ مصر اور انڈونیشیا کی بجائے یورپ اور شمالی امریکہ کا رخ کرتے ہیں اور کچھ ضرورت مند پاکستانی اور افغان بھی ان میں شامل ہو جاتے ہیں اس لیے کہ اس خطے کے ملک انسانی حقوق کا احترام کرتے ہیں‘ روزگار دیتے ہیں اور نئی زندگی شروع کرنے میں ان کی امداد کرتے ہیں۔ ہر چند کہ پناہ گزینوں کی ریل پیل دیکھ کر جرمنی ‘ فرانس اور سکنڈے نیویا کے ملک بھی گھبرانے لگے ہیں تاہم پاکستان‘ ہمسائے ایران اور دوست سعودی عرب کے درمیان اب تک ایک توازن قائم کرنے میں کامیاب ہے اور سعودیوں کو اتنا یقین دلا رہا ہے کہ اگر ان کی سالمیت پر حملہ ہوا تو پاکستانی ہاتھ پر ہاتھ دھرے نہیں بیٹھیں گے۔ یورپی یونین نے بھی شامی اور عراقی پناہ گزینوں کی ریل پیل (ایک لاکھ ساٹھ ہزار میں سے صرف دو سو بہتر کی دوبارہ آباد کاری) دیکھ کر امداد سے ہاتھ کھینچ لیا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں