بے چارے (امریکی) مسلمان

صدر اوباما اپنے منصب کی مدت میں پہلی بار ایک مسجد میں گئے اور جوتے باہر اتار کر نمازیوں کے ایک ہجوم سے خطاب کیا۔ اس کی ایک وجہ تھی۔ ایک طرف وہ مسلمانوں کو یہ احساس دلانا چاہتے تھے کہ وہ خود ساختہ خلیفہ ابوبکر بغدادی کی داعش (ISIS) کی مذمت اس شد و مد سے نہیں کر رہے ہیں جس طرح کہ دوسرے امریکی کرتے ہیں‘ اور دوسری جانب وہ انتخابی مہم میں حصہ لیتے ہوئے ریپبلکن امیدواروں کو یہ باور کرانا چاہتے تھے کہ امریکہ میں مسلمانوں کا داخلہ بند کرکے وہ ملک کی خدمت نہیں کریں گے۔ ''دہشت گردی کو رد کرنا ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے‘‘ انہوں نے کہا۔
صدر‘ وائٹ ہاؤس سے نکل کر چالیس میل شمال میں بالٹی مور کی جامع مسجد پہنچے۔ ظہر کے بعد نماز کے لئے آنے والے نوجوانوں سے باتیں کیں اور پھر پینتالیس منٹ کی ایک تقریر کی جس میں قران پاک سے متعدد اقتباسات پیش کئے گئے تھے مثلاً جس نے ایک ذی روح کو قتل کیا اس نے گویا ساری انسانیت کو مار ڈالا۔ اللہ نے تمہیں قبیلوں اور گروہوں کی شکل میں پیدا کیا تاکہ تم ایک دوسرے کو جان اور پہچان سکو اور مسیحی‘ مسلم اور یہودی سب آدم کی اولاد ہیں۔ انہوں نے اپنے'' مسیحی ساتھیوں‘‘ کو تلقین کی کہ ''ایک مذہب پر حملہ تمام مذاہب پر حملہ ہے۔‘‘ ان کے والد کینیا سے آئے تھے اور مسلمان تھے اس لئے انتخابی غوغا آرائی میں انہیں مسلم ہونے کا ''طعنہ‘‘ دیا گیا اور اس بنا پر انہیں الیکشن میں حصہ لینے سے روکا گیا۔ انہوں نے مسلمانوں سے بھی کہا کہ مسالک کا اختلاف ان میں تقسیم کا سبب نہیں بننا چاہیے۔
یہ تقریباً وہی تقریر تھی جو سات سال پہلے چیف ایگزیکٹو چنے جانے کے بعد اوبا ما نے قاہرہ جا کر اسلام کے گڑھ جامعہ الازہر میں کی تھی‘ مگر اس کا لہجہ دھیما تھا۔ صدر نے اسلامک سوسائٹی آف بالٹی مور (جامعہ مسجد) سے خطاب کرتے ہوئے کہا: ''گزشتہ سال دو مرتبہ اس مسجد میں آپ کے بچوں کو دھمکیاں دی گئیں۔ ملک کے طول و عرض میں حجاب پہننے والی عورتوں کو نشانہ بنا یا گیا ہے۔ ہم نے مسجدوں کی توڑ پھوڑ دیکھی ہے۔‘‘ سوسائٹی میں پاکستانی امریکی کثرت میں ہیں ان کے بعد افریقی امریکیوں کا نمبر آتا ہے۔ ان کو اندیشہ ہے کہ کسی دن انہیں ملک سے نکال دیا جائے گا۔ ''اگر آپ کو کبھی یہ خیال آئے کہ آپ یہاں ''فٹ‘‘ نہیں ہوتے تو امریکہ کے صدر کی حیثیت سے آپ کو یقین دلا سکتا ہوں کہ آپ یہاں '' فٹ‘‘ ہوتے ہیں۔ رائٹ ہیئر‘‘
جواں سال امریکی مسلمان‘ جن میں اکثریت کا پس منظر پاکستان نہیں بلکہ مشرق وسطیٰ تھا‘ خلافت کی حمایت میں لڑنے کے لئے شام گئے اور خلیفہ کے آدمی ان کے انگریزی لہجے کی بنا پر ان کی زیادہ قدر کرتے ہیں۔ وہ خلافت کے مقاصد کی تبلیغ اور نئے ریکروٹ بھرتی کرنے کے لئے ایسا لہجہ ضروری خیال کرتے ہیں۔ سب سے نمایاں نیو میکسیکو کے انورالعولاقی الیمنی تھے جنہیں امریکی بمباری نے فنا کر دیا۔ ''وہ تمہیں اپنی شناخت کا موقع دیتے ہیں۔ مسلم یا امریکی۔ آپ مسلم اور امریکی ہو سکتے ہیں۔‘‘ آخری اسلامی خلافت‘ عثمانیہ تھی جسے پہلی جنگ عظیم میں خود نوجوان ترکوں نے ختم کر دیا اور جب آخری عثمانی خلیفہ عبدالحمید نے اس کے احیا کے لئے جمال الدین افغانی کو برٹش انڈیا بھیجا تو گاندھی جی نے اسے گلے لگایا مگر محمد علی جناح نے اسے ''بچگانہ‘‘ کہہ کر رد کر دیا۔ 
بارک اوباما جنگ کی مخالفت کے منشور کے تحت اس ملک کے صدر چنے گئے تھے۔ بالخصوص وہ اپنی انتخابی مہم کے دوران عراق کی لڑائی پر‘ جو ریپبلکن صدر بش نے مسلط کی تھی، تنقید کرتے تھے مگر پارلیمانی مخالفت کے باعث وہ زیادہ انتخابی وعدے پورے نہیں کر سکے۔ بالٹی مور کے اجتماع میں بالواسطہ طور پر انہوں نے ''فوجی بوٹوں‘‘ کی حمایت کی۔ عراق (اور شام) کی لڑائی میں وہ پھر سے حصہ لینے پر مجبور ہیں اور افغانستان میں ان کے جرنیل اس سال کے آخر تک انخلا کے بجائے لامتناہی مدت کے لئے تعیناتی کا اہتمام کر رہے ہیں اور وہ گوانتانامو بے کا عقوبت خانہ بند کرانے میں ناکام رہے ہیں۔ صدر کو ساری اسلامی دنیا سے مراکش اور اردن کی مثالیں ملیں۔ انہوں نے کہا:''مراکو‘ غیر مسلموں کی حفاظت کرتے‘ اسی طرح جیسا کی وہ مسلم اکثریت کی حفاظت کرتے ہیں۔ بادشاہ عبداللہ چاہتے ہیں کہ مسلمان فوجیں‘ خلافت کا مقابلہ کریں‘‘۔
سینیٹر برنی سینڈرز نے‘ جو پیدائش کے اعتبار سے یہودی تھے اور اب اپنے آپ کو ''غیر مذہبی‘‘ جمہوریت دوست ڈیموکریٹ اور ترقی پسند کہتے ہیں‘ صدر کی تقریر کو ''بہت اہم‘‘ قرار دیا اور کہا کہ مذہب اور قومیت کو شہریوں کا بٹوارہ کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ وہ ہلری کلنٹن کے مقابلے میں ڈیموکریٹک نامزدگی کے امیدوار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میں وال سٹریٹ کے ارب پتیوں کی نمائندگی نہیں کرتا جبکہ میری مخالف کا بیشتر چندہ اس گلی سے آتا ہے۔
دسمبر میں سینٹ برنارڈینو‘ کیلی فورنیا‘ کے واقعہ کے بعد‘ جس میں ایک کرسمس پارٹی کے دوران چودہ افراد مارے گئے اور ریڈ وڈ میں اپنے گھر کے قریب سید رضوان فاروق اور ان کی نو بیاہتا تاشفین ملک کی لاشیں پولیس کی گولیوں سے چھلنی ہو کر ان کی تباہ شدہ وین کے اندر پائی گئیں‘ صدر اوباما کی اس تقریر نے سوالیہ نشان لگا دیئے ہیں۔ صدر کہتے ہیں کہ اسلام کی غلط تعبیریں کی گئیں اور اس بنا پر مسلمانوں کو ہراساں کیا گیا۔ ایف بی آئی گزشتہ ہفتے تک عوام سے کہہ رہی تھی کہ وہ میاں بیوی کی زندگی کے آخری وقت کے اٹھارہ منٹ کا حساب کرنے میں ان کی امداد کرے۔ اب وفاقی پولیس بھی خاموش ہے۔ کہیں یہ غلط شناخت کا کیس نہ ہو؟ رضوان امریکہ میں پیدا ہوا تھا۔ وہ کاؤنٹی کا ریستوران انسپکٹر تھا۔ کہیں یہ ملازمت کا غصہ تو نہیں؟ بلاشبہ اس کی اہلیہ پردہ کرتی تھی مگر بمشکل دو سال پہلے رضوان سے اس کا نکاح ہوا تھا‘ اور ان کی ایک ننھی بچی تھی جسے اس کی دادی کے پاس چھوڑا گیا تھا۔
اس واقعہ کے بعد مسلمانوں کو ہراساں کرنے کی کئی وارداتیں ہوئیں۔ ان میں اسلام اور مساجد پر حملے بھی شامل تھے مگر ان وارداتوں میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا‘ ہرچند کہ پولیس نفرت کے ان جرائم کی تفتیش کر رہی ہے۔ صدر ان ''ہیٹ کرائمز‘‘ کی مذمت کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ کچھ انتہا پسند اس واقعہ کی آڑ میں دہشت پھیلا رہے ہیں۔ ان کو اصرار ہے کہ عام مسلمان اعتدال پسند اور ان کا مذہب پُرامن ہے۔ وہ فوج اور پولیس میں بھرتی ہو کر ہماری حفاظت میں حصہ لے رہے ہیں۔ صدر نے مروت میں یہ کہنے سے احتراز کیا کہ فرقہ واریت یورپ اور شمالی امریکہ میں بھی ہے مگر ان لوگوں نے مل جل کر رہنا سیکھ لیا ہے اور وہ ترقی کر رہے ہیں جبکہ مسلمان‘ اپنے سوا ہر مسلمان کو کافر کہتے ہیں اور اسے ٹھکانے لگاتے ہیں اور جب اپنے وطن کی زمین ان پر تنگ ہو جاتی ہے تو وہ ان لوگوں کی فراخدلی پر انحصار کرتے ہیں۔ القاعدہ‘ طالبان‘ بوکوحرام‘ داعش اور ان کی ذریات نے جتنے مسلمانوں کو تہ تیغ کیا اتنے غیر مسلم نہیں مارے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں