امن کا راستہ

مہینے کے آخر میں جب صدر اوباما ایک نیوکلیئر سکیورٹی سمٹ کی میزبانی کریں گے‘ تو پاکستان کے جوہری ہتھیار کم کرنے پر زور دیا جائے گا۔ واشنگٹن کی اس کانفرنس میں وزیر اعظم نواز شریف کی شرکت یقینی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ حکومتوں کے سربراہوں کے اس اجتماع میں بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی بھی شریک ہوں‘ اور ایٹمی اسلحے کو محدود کرنے کی ضرورت پر ان کا بازو بھی مروڑا جائے۔ وائٹ ہاؤس کے ترجمان نے کہا تھا کہ 2016ء کی کانفرنس‘ جو اس سلسلے کی چوتھی اور آخری دو روزہ میٹنگ ہو گی‘ جوہری دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے خطرے پر بحث و تمحیص جاری رکھے گی‘ اور ان اقدامات کو اجاگر کرے گی جو افزودہ یورینیم کا استعمال کم کرنے‘ خطرات میں گھرے مواد کی حفاظت اور نیوکلیائی سمگلنگ کے توڑ کے لئے یکجا کئے جا سکتے ہیں۔ ان اقدامات میں جوہری دہشت گردی کی روک تھام‘ اس کا سراغ لگانا اور اسے ناکام بنانے کی کوششیں‘ شامل ہیں۔ بعض ماہرین کو اندیشہ ہے کہ پاکستان کے جوہری اثاثے دہشت کاروں کے ہتھے چڑھ سکتے ہیں۔
ایٹمی ہتھیاروں کے معاملے پر وزیر خارجہ جان کیری اور پاکستان کے مشیر خارجہ سرتاج عزیز کی حالیہ میٹنگ میں بھی بات چیت ہوئی‘ اور دونوں ملکوں کے اختلافات کھل کر سامنے آ گئے۔ کیری نے کہا: ''ہم جوہری حفاظت کی کانفرنس میں وزیر اعظم نواز شریف کی آمد کے منتظر ہیں‘‘ اور عزیز بولے: ''دہشت گردی ہمارا مسئلہ نہیں‘ بھارت ہے‘‘۔ بعد میں کونسل آن فارن افیئرز سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے تعلقات میں منفی رجحانات کی بات بھی کی اور کہا: ''فاٹا کے خطے میں پاکستان کی کامیاب فوجی مہم نے حقانی نیٹ ورک سمیت دہشت کاروں کا نوے تا پچانوے فیصد ڈھانچہ تباہ کر دیا ہے‘ نیوکلیائی ہتھیاروں کی حفاظت کے لئے کمان اینڈ کنٹرول کا نظام‘ جسے بین الاقوامی طور پر تسلیم کیا جاتا ہے‘ شاندار ہے اور امریکہ پر واضح کر دیا ہے کہ وہ بھارت کی امداد کر کے جنوبی ایشیا کے سٹریٹیجک عدم توازن میں حصہ نہ لے‘‘۔
امریکی حکومت‘ تھنک ٹینکوں کی پھیلائی ہوئی روشنی میں چلتی ہے۔ کانگرس کی مالی امداد سے قائم کم از کم دو ایسے ٹینکوں نے یہ رپورٹ شائع کرائی تھی کہ پاکستان سالانہ بیس ایٹم بم بناتا ہے‘ اور ہو سکتا ہے کہ ایک عشرے میں امریکہ اور روس کے بعد دنیا کی تیسری بڑی جوہری قوت بن جائے۔ یہ میٹنگ انہی رپورٹوں کے فوراً بعد منعقد ہوئی تھی۔ امریکہ اور پاکستان کے مابین ''سٹریٹیجک ڈائیلاگ‘‘ میں تعلیم‘ صحت اور معیشت وغیرہ زیر غور آئے‘ مگر اصل معاملہ برصغیر میں جوہری اسلحے کی موجودگی سے متعلق تھا۔ کارنیگی اور سٹمسن انسٹی ٹیوٹ کی ان رپورٹوں میں یہ نتیجہ نکالا گیا تھا: ''پاکستان نیوکلیئر وارہیڈز کی نشوونما کے معاملے میں بھارت سے آگے نکلا جا رہا ہے‘‘۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ پاکستان کے پاس تقریباً ایک سو بیس ایسے ہتھیار ہیں جبکہ بھارت کے پاس صرف ایک سو کے لگ بھگ۔
دنیا میں ایٹمی اسلحے کی روک تھام امریکہ کے لئے ایک مسئلہ ہے۔ شمالی کوریا نے گزشتہ جنوری میں مبینہ طور پر ہائیڈروجن بم کا تجربہ کیا‘ تو واشنگٹن ایک بار پھر حرکت میں آ گیا۔ شمالی کوریا کے مددگار اور ہمسائے چین سے تعاون مانگا گیا تو اس نے انکار کر دیا۔ چینی وزیر خارجہ نے کہا: ہم نہیں چاہتے کہ کم جونگ کی حکومت خلفشار کا شکار ہو اور دنیا میں امن قائم رکھنا دشوار تر ہو جائے۔ اس کے سامنے مشرق و سطیٰ کی مثال تھی‘ جہاں مصر میں حکومت کی تبدیلی کے باوجود‘ بم بنانے کا شور سنائی دے رہا ہے۔ ایٹمی قوت اسرائیل سے اس کے سفارتی تعلقات ہیں مگر دونوں ملکوں میں کشیدگی برقرار ہے؛ تاہم مارچ کے دوسرے ہفتے جب نیو یارک میں سلامتی کونسل کی میٹنگ ہوئی‘ تو چین نے بھی‘ جو اس عالمی ادارے کا مستقل رکن اور دنیا میں امن قائم رکھنے کا ذمہ دار ہے‘ شمالی کوریا پر سخت ترین تعزیریں عائد کرنے کے حق میں ووٹ دیا۔ کم نے اپنی فوجوں کو حکم دیا ہے کہ وہ ایٹم بم کے استعمال کے لئے تیار رہیں۔ بہ الفاظ دیگر جب انہیں کہا جائے تو امریکہ یا اس کے اتحادیوں پر ایٹم بموں کی بارش کر دی جائے۔
امریکہ نے انہی دنوں اسرائیل کے ساتھ مشترکہ جنگی مشقیں کیں‘ جن میں ہزاروں اسرائیلی اور امریکی مرد اور عورتیں‘ شریک تھے۔ یہ دراصل ایک ایسے دفاعی نظام کو چالو کرنے کا بہانہ تھا‘ جس کی مثال اس ملک میں بھی نہیں ملتی۔ جب یہ مکمل ہو گا تو اربوں ڈالر کا منصوبہ اسرائیل کا راکٹ اور میزائل ایئر ڈیفنس سسٹم کہلائے گا‘ اور مشرق وسطیٰ میں کسی بھی ہتھیار سے اعلیٰ ہو گا‘ اور رفتار اور نشانہ بازی میں کسی بھی فضائی دفاع کے نظام کا‘ جو یورپ یا امریکہ نے لگایا ہے‘ مقابلہ کرے گا۔ امریکہ نے اس نظام کے لئے دس سال میں تین ارب تیس کروڑ کی رقم فراہم کی ہے۔ ان حالات میں سعودی عرب اور ایران اپنے اپنے جوہری عزائم کا اظہار نہ کریں تو کیا کریں؟ ایران‘ مغربی طاقتوں کے ساتھ ایک معاہدہ کرنے کے باوجود‘ بدستور اٹیمی ہتھیار بنا رہا ہے‘ اور سعودی عرب ایران کے ساتھ تاریخی نظریاتی اختلاف اور امریکہ کے ساتھ دیرینہ اتحاد کے باوصف‘ روس سے ایٹمی سمجھوتہ کر رہا ہے۔
پاکستان اور بھارت میں انتہا پسند عناصر زوروں پر ہیں۔ پنجاب کے ایک سابق گورنر کے قاتل کو پھانسی دیے جانے کے خلاف شہر شہر تشدد آمیز مظاہرے ہوئے‘ اور صحافیوں پر بھی حملے کئے گئے۔ ادھر شیوسینا والوں نے اعلان کیا کہ وہ بھارتی سرزمین پر پاکستان اور بھارت کا کوئی میچ نہیں ہونے دیں گے۔ دوسری سیاسی جماعتیں بھی اس دھمکی میں شریک ہو رہی ہیں۔ صاف ظاہر ہے کہ ہندوستان‘ کھیل کے میدان پر بھی دو گروہوں میں بٹ گیا ہے۔ مہینے کے شروع میں جب جان کیری نے سرتاج عزیز کو اپنا بڑھتا ہوا جوہری بارود خانہ کم کرنے کی تلقین کی‘ تو انہیں جواب ملا تھا کہ امریکہ کو جنوبی ایشیا میں اس کی حفاطتی فکرمندیوں کا احاطہ کرنا چاہیے۔ امریکہ اور روس خود ایک تاریخی معاہدے کے تحت اپنے اپنے ایٹمی ہتھیاروں میں مزید کمی کے لئے کوشاں ہیں۔ امریکی حکومت اس حقیقت سے نابلد ہے یا وہ واقف نہیں ہونا چاہتی کہ وزیر دفاع ایشٹن کارٹر یا صدر اوباما کی طرح پاکستان میں ایٹمی اسلحے کا کنٹرول خواجہ محمد آصف یا نواز شریف کے ہاتھ میں نہیں۔ بے نظیر بھٹو نے اپنے اقتدار کی پہلی مدت میں برسر عام یہ اعتراف کیا تھا کہ کہوٹہ ان کے لئے شجر ممنوعہ ہے۔ بعض عناصر انہیں ''سکیورٹی رسک‘‘ کہتے تھے۔ بعد میں ہندوستان کے ایٹمی تجربات کے جواب میں چاغی کی چٹانوں پر وزیر اعظم نواز شریف نے پاکستانی بم کا پہلا تجربہ کیا‘ مگر ان ہتھیاروں کا کنٹرول بدستور فوج کے ہاتھ میں رہا۔ اگر امریکہ‘ سرد جنگ کے خاتمے اور شام کے مسئلے پر واشنگٹن اور ماسکو میں فضائی تصادم سے بچنے تک عالمی امن کا حوالہ دیتا ہے‘ تو پاکستان بھی کہہ سکتا ہے کہ جب سے بھارت اور پاکستان ایٹمی قوت بنے ہیں‘ ان میں کوئی لڑائی نہیں ہوئی ہر چند کہ کشمیر سے کرکٹ تک سب متنازع فیہ امور جوں کے توں ہیں۔
پاکستان میں قومی سلامتی کے مشیر کے منصب پر لیفٹنٹ جنرل ناصر جنجوعہ کا تقرر اور ان کی جانب سے بھارت کو دہشت گردی کے کچھ واقعات سے بروقت باخبر کرنے سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہم بالآخر امن کی راہ پر گامزن ہیں۔ اسی اثنا میں ہمارے اپنے گیارہ لوگ شبقدر میں مارے گئے۔ بھارت کو بھی ''دہشت گردی پاکستان اور ہندوستان کا مشترکہ مسئلہ ہے‘‘ جیسی باتیں بنانے کے علاوہ‘ یہ راستہ اختیار کرنا چاہیے۔ امریکہ نے جارج بش کے عہد میں بھارت کو غیر فوجی نیوکلیائی ساز و سامان دینے کا وعدہ کیا۔ یہ وعدہ اب تک وفا ہوتا نظر نہیں آیا۔ وہ پاکستان کے ساتھ ایسا سودا کرنے سے انکار کر چکا ہے۔ اگرچہ امریکہ میں راکٹ سائنس تک ہر شے نجی ہاتھوں میں ہے‘ مگر ہر برآمد پر وائٹ ہا ؤس کا تسلط ہے۔ پاکستان اور بھارت کو امریکی لالی پاپ دے کر بہلایا جا ر ہا ہے۔ وقت آ گیا ہے کہ وہ آزاد راہیں اپنائیں۔ خطے میں امن کے ضامن ہوں تاکہ روس‘ امریکہ یا اور کسی سامراجی یا نو سامراجی قوت کو وہاں قدم جمانے کا موقع نہ ملے‘ اور طا لبان جیسی تنظیموں کی صف بندی نہ ہو۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں