پاناما پیپرز میں ٹرمپ کا نام

پاناما پیپرز کے سکینڈل پر امریکہ میں واویلا کے پیش نظر اوباما حکومت نے ساحل سے دور (آف شور) رازداری سے پردہ اٹھانے کے لئے تجاویز کا ایک مجموعہ کانگرس کو بھیجا ہے‘ جس کے تحت ناجائز مالی لین دین کی روک تھام ہو سکے گی۔ سمندر پار کمپنیوں سے وابستہ امریکیوں کی تعداد 7325 ہے‘ مگر صحافیوں کی عالمی تنظیم ICIJ کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق ان میں صرف 36 افراد پر فراڈ میں حصہ لینے کا الزام تھا۔ انہوں نے پاناما کی لا فرم کے قائم کردہ کھاتوں سے فائدہ اٹھایا۔ پاناما پیپرز میں صف اول کے ریپبلکن صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کا ذکر بھی تقریباً ایک درجن بار آیا ہے‘ مگر ان کے کسی مخالف نے انہیں ارب پتی لکھنے کے باوجود اس پر اعتراض نہیں کیا۔ صدارتی الیکشن میں ان کی بڑی ڈیموکریٹک حریف ہلیری راڈم کلنٹن کا نام نہیں مگر انہوں نے بھی ٹیکس سے ماورا ایک فائونڈیشن بنا رکھی ہے‘ جس کے بڑے عہدے دار سابق صدر‘ وہ خود اور ان کی شادی شدہ صاحبزادی چیلسی ہیں۔ ٹرمپ جوش خطابت میں انہیں وال سٹریٹ (کاروباری دنیا) کی ایجنٹ کا طعنہ تو دیتے ہیں‘ مگر ان کے خیراتی ادارے کو غیر قانونی نہیں کہتے۔
صدر اوباما نے اپریل میں فرم کی اوّلیں قسط سامنے آنے پر اپنے رد عمل میں کہا تھا: سب آف شور کمپنیاں غیر قانونی نہیں ہیں‘ اور کئی ادارے ٹیکس بچانے کے لئے امریکہ سے باہر اپنے کھاتے کھولتے ہیں‘ اور یہ بھی ایک مسئلہ ہے۔ ان کی حکومت کے ایک اہلکار مانتے ہیں کہ آف شور رازداری کا نظام‘ اس بچت کی حوصلہ افزائی کرتا ہے‘ ڈیلویر‘ نواڈا اور وائی اومنگ جیسی چھوٹی ریاستوں کے ذریعے‘ جو ایسی شیل کمپنیاں بنانے کی اجازت دیتی ہیں۔ وہ اپنے اصل مالکوں اور ان کی سرگرمیوں کو پوشیدہ رکھتی ہیں۔ حکومت نے سینیٹ سے بھی کہا ہے کہ وہ ان آٹھ ٹیکس معاہدوں کی توثیق کے لئے ضروری اقدامات کرے‘ جو اس نے دوسرے ملکوں کے ساتھ کئے ہیں اور جو سمندر پار امریکیوں کے اثاثوں کے بارے میں دوسری حکومتوں سے معلومات کا بہتر تبادلہ ممکن بناتے ہیں۔ انہوں نے توجہ دلائی کہ دو معروف ٹیکس ہیون (ٹیکس نہ دینے کی جنتیں) سوئٹزرلینڈ اور لکسم برگ سے معاہدے‘ پانچ سال سے ایوان کی منظوری کے منتظر ہیں۔
آف شور رازداری اور تہہ در تہہ ملکیت ایک عالمی مسئلہ ہے۔ پاناما سٹی کی فائلیں لیک ہونے کی بدولت بعض کمپنیوں کے اصل مالکان کے نام اور پتے منکشف ہو گئے‘ مگر یہ تو صرف ایک فرم تھی۔ امریکہ اور باقی دنیا میں ہزاروں فرمیں یہی کاروبار کرتی ہیں‘ اور ان پر قابو پانے کے لئے اور ان کے موکلوں کو قانون کی گرفت میں لانے کی غرض سے اقوام متحدہ کو بروئے کار لانا ہو گا۔ اگر کانگرس نے‘ جس کے دونوں ایوانوں میں مخالف پارٹی کثرت میں ہے‘ وائٹ ہاؤس کی تجاویز پر عمل کیا‘ تو نتیجہ پہلی بار ایک نیشنل رجسٹری کی تشکیل ہو گا‘ جس کی امداد سے قانون نافذ کرنے والے‘ ان کمپنیوں کے پیچھے چھپے ہوئے اصل مالکوں کو ڈھونڈ نکالیں گے جو منی لانڈرنگ اور دوسرے غیر قانونی کاموں کے لئے استعمال کی جاتی ہیں۔ جرمنی نے ایک قومی شفاف ادارے (Transparency Register) کے قیام کا اعلان کیا ہے‘ جو شیل کمپنیوں کے اصل مالکوں کا اتہ پتہ درج کرے گا‘ اور اب برطانیہ کے وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے ایک نئی ایجنسی بنانے کی تجویز پیش کی ہے‘ جو منی لانڈرنگ اور ٹیکس نہ دینے کی تفتیش کرے گی۔ حکومتوں کو دھوکا دینے والے شفافیت کے فقدان کے باعث سمندر پار کمپنیاں پسند کرتے ہیں۔ تفتیش کاروں کو ان کمپنیوں سے فائدہ اٹھانے والے تک پہنچنے میں خاصا وقت درکار ہوتا ہے۔
سرکاری عہدیدار نے کہا: ہمارے مالی نظام کو دولت مند‘ طاقتور اور کرپٹ لوگوں کو اپنے اثاثوں کو چھپانے اور ٹیکس کی مد میں اپنا جائز حصہ ادا نہ کرنے کا موقع‘ مہیا نہیں کرنا چاہئے۔ کوئی اپنی قانونی ذمہ داریوں سے پہلوتہی کرنے کے قابل نہ رہے‘ اور کوئی قواعد کے ایک مختلف مجموعے کے مطابق کھیلنے کے لائق نہ ہو‘ تاہم عفوئے عام سے اس نے بھی انکار نہیں کیا۔ ''امریکی تفتیشوں نے 80 سوئس بینکوں کو ٹیکس نادہندگی اور متعلقہ جرائم میں شرکت کا اقبال کرنے پر مجبور کیا‘ اور وہ 1.3 بلین ڈالر جرمانوں کی شکل میں ادا کرنے پر آمادہ ہوئے‘‘۔ علاوہ ازیں ٹیکسوں کی عام معافی کے امریکی پروگرام کے تحت 54,000 سے زیادہ ٹیکس گزاروں کو راہ راست پر آنے اور اپنے گزشتہ مالی گناہوں کی تلافی کرنے کا موقع ملا۔ اس طرح آٹھ بلین ڈالر سرکاری خزانے میں آئے۔ نئی تجاویز قانون نافذ کرنے والے امریکی حکام کا کام آسان کر دیں گی‘ اور وہ کرپٹ غیر ملکی عہدیداروں کے خلاف منی لانڈرنگ کی فرد جرم عائد کر سکیں گے۔
پاکستان میں سیاسی‘ تعلیمی اور حفظان صحت کے نظام پر متمول افراد کو اعتماد نہیں۔ وہ اکثر مغربی یا پْرسکون خلیجی ممالک میں سکنی جائداد کی دیکھ بھال کے لئے آف شور کمپنیاں بناتے یا خریدتے ہیں‘ مگر ورجینیا کی کم از کم ایک خاتون ایسی بھی ہیں‘ جس نے Mossack Fonseca & Co کے کاغذات کے مطابق ''نوادرات‘‘ کا کاروبار پاناما میں رجسٹر کرایا۔ کمپنی کے اغراض و مقاصد کے لازمی بیان میں کہتی ہیں کہ وہ ایک سرمایہ کار ہیں جو سونے اور جواہرات کو امیروں کے چنگل سے نکال کر غریبوں کی جھولی میں ڈالنا چاہتی ہیں‘ 
یعنی اس کاروبار کو جمہوری Democratization رنگ دینا چاہتی ہیں۔ یہاں مالی سکیورٹی کے حکام ان کا تعاقب کر رہے تھے۔ انہوں نے کئی ہم وطنوں بالخصوص عورتوں کو ملک سے باہر اپنا سرمایہ لگانے پر آمادہ کیا تھا۔ بالآخر ان کی بنائی ہوئی کمپنی دیوالیہ ہو گئی‘ سرمایہ کاروں کا پیسہ ڈوب گیا اور بینک نے اپنے کھاتے سے اس کمپنی کا نام مٹا دیا۔ بینکوں سے صنعتی قرضے لے کر معاف کرانے والوں کا معاملہ الگ ہے‘ جو یہاں بھی چلتا ہے۔ ایسا قرض لینے والے کو معافی تو مل سکتی ہے مگر وہ کسی اور کام کاج کے قابل نہیں رہتا۔
پاناما کی لا فرم کے ایک جرمن ساجھے دار کا بیان ہے کہ وہ امریکیوں کو اپنا موکل بنانا پسند نہیں کرتے‘ شاید اس خیال سے کہ امریکی سوال زیادہ کرتے ہیں یا اس ہچکچاہٹ کا سبب امریکہ میں قانون کا نفاذ ہے۔ وہ پاکستانیوں اور کئی دوسرے ایشیائیوں کو زیادہ پسند کرتے ہیں؛ تاہم ان کا اصرار ہے کہ جو کمپنیاں ہم رجسٹر کراتے ہیں‘ ان کے بارے میں یہ یقین حاصل کرتے ہیں کہ وہ ٹیکس نادہندگی‘ منی لانڈرنگ‘ کک بیکس (کمشن) دہشت گردوں کی مالی امداد یا دوسرے ناجائز مقاصد کے لئے استعمال نہ ہوں۔ یہ ایک فرم گزشتہ پینتالیس برسوں میں 214000 کمپنیاں رجسٹر کرا چکی ہے‘ جو اکیس ملکوں یا جزیروں (Jurisdictions) میں واقع ہیں۔ امریکہ نے پاناما کے ساتھ دو طرفہ معاہدہ بھی کر لیا ہے اور دوسرے کئی ملکوں کے ساتھ بھی مالی بے ضابطگیاں روکنے کے سمجھوتے کر رہا ہے۔ وہ دنیا کی واحد اعلیٰ قوت ہے۔ اس نے چند سال پہلے پاناما کو فتح کیا اور نہتا سوئٹزرلینڈ اس کے زیر سایہ ہے۔ سوال یہ ہے کہ پاکستان کا کیا بنے گا جہاں وزیر اعظم کی اولاد کا نام پیپرز میں آنے پر اپوزیشن نے ہنگامہ برپا کر رکھا ہے۔ جہاں تک پاناما پیپرز کا تعلق ہے ان کی دوسری قسط منظر عام پر آ گئی ہے اور اس میں کچھ داخل کرنے اور کچھ خارج کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اس کے ساتھ ہی آف شور کمپنیوں کے مالک پاکستانیوں کی تعداد بڑھ کر 259 ہو گئی ہے‘ اور پوری لیک میں برسر اقتدار سیاستدانوں کے علاوہ موجودہ حزب اختلاف کے ارکان‘ نوکر شاہی کے کل پرزوں‘ عدلیہ کے آدمیوں‘ فوجی افسروں کے رشتے داروں اور ایک میڈیا ایمپائر کے شہنشاہ‘ کے نام بھی شامل ہیں۔ احتساب کے نام پر سیاست کا بازار گرم ہے۔ کیا ان سب کا محاسبہ ہو سکے گا؟ یہ آب و ہوا کے حالیہ عہدنامے کی طرح ہے جو اقوام متحدہ کے زیر اہتمام ہوا‘ اور جس کی نقول توثیق کے لئے رکن ملکوں کو ارسال کی جا رہی ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں