ایک سابق صدر جْھونگے میں

ہلری راڈم کلنٹن کو منگل کے دن فلاڈلفیا میں ڈیموکریٹک پارٹی نے نامزد کیا اور اگر خوش نصیبی سے نومبر کے دوسرے منگل‘ وہ اپنے ریپبلکن حریف ڈونلڈ ٹرمپ کے مقابلے میں کامیاب ہو گئیں تو نئے سال کا سورج طلوع ہونے پر وائٹ ہاؤس میں داخل ہونے والی وہ پہلی عورت ہوں گی اور ایک سابق صدر عوام کو جْھونگے میں ملیں گے۔
مسز کلنٹن بطور خاتون اوّل پہلے بھی آٹھ سال اس سرکاری عمارت میں رہ چکی ہیں اور صدر اوباما کی وزیر خارجہ کی حیثیت میں وہ حکومت کا وسیع تجربہ رکھتی ہیں۔ ان حیثیتوں سے وہ تین بار پاکستان کے دورے پر گئیں اور اسلام آباد میں انہیں ''پاکستان کی ساس‘‘ کا خطاب بھی ملا۔ بقول اوباما وہ حکمرانی کے لئے ''پہلے دن‘‘ سے تیار ہوں گی۔ منگل کا دن ساری دنیا بالخصوص برصغیر میں منحوس سمجھا جاتا ہے۔ نامزدگی کے علاوہ صدارتی انتخاب بھی منگل کے دن ہو گا۔ خدا خیر کرے۔
ریپبلکن نیشنل کنونشن میں‘{ جو ایک میلے ٹھیلے کا سماں پیش کر رہا تھا‘ دو باتیں انہونی تھیں۔ اوّل میلینا ٹرمپ نے جو تقریر کی وہ کوئی آٹھ سال پہلے مسز مشل اوباما کی ڈیموکریٹک کنونشن میں کی گئی تقریر کا چربہ تھی اور کسی قدر جزبز ہونے کے بعد مسز ٹرمپ نے اس کا اعتراف کر لیا۔ دوم سینیٹر ٹیڈ کروز‘ جو انتخابی مہم میں ٹرمپ کے حریف تھے اور صف اول کے امیدوار کی لعن طعن سے گھبرا کر دست بردار ہو گئے تھے‘ مندوبین کے شور شرابے کے بعد اس کنونشن سے بھی نکالے گئے اور سابق سپیکر نیوٹ گنگرچ نے انہیں بتایا کہ ہمارا امیدوار ہی آئین کا محافظ ہے۔ وہ اپنے ضمیر کے مطابق ووٹ دینے کی تلقین کر رہے تھے جبکہ بعض مندوبین کا مطالبہ تھا کہ وہ ٹرمپ کی تائید کریں۔ باقی مقررین نے ری پبلکن مہم کے مرکزی خیال ''امریکہ کو دوبارہ عظیم بناؤ‘‘ کی بجائے ''خاتون کو قید کرو‘‘ کے نعرے پر زیادہ توجہ دی اور ایک نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ ہلری کلنٹن کو مار ڈالو۔ ٹرمپ کی قیادت میں ری پبلکنز کو متحد کرنے کی کوشش ناکام رہی۔ انڈیانا کے گورنر مائک پنس نے نائب صدر کا منصب قبول کیا مگر ان کی تقریر بھی ہلری مخالفین کے شور شرابے کی لپیٹ میں آ گئی۔ ٹرمپ نے صدر کا عہدہ قبول کرتے ہوئے ملک کی جو تصویر پیش کی وہ اچھی نہ تھی۔ انہوں نے دہشت گردی اور غیر قانونی داخلے کی بڑھتی ہوئی وبا کا حوالہ دیا جبکہ جرائم کی تعداد آدھی رہ گئی ہے اور بیروزگاری کی شرح صرف پانچ فیصد ہے۔ جتنے مندوبین کنونشن کے اندر (2472) تھے اس سے زیادہ باہر احتجاج کر رہے تھے اور ان میں عورتیں‘ لاطینو‘ سیاہ فام‘ تارکین وطن اور مسلمان شامل تھے۔
ڈیموکریٹک کنونشن شروع ہونے سے چار دن پہلے ہلری کلنٹن نے بھی انتخابی ساتھی کا انتخاب کیا۔ ورجینیا کے سینیٹر ٹم کین کے ڈیموکریٹک ٹکٹ پر آنے سے اس کیمپ میں تجربے اور لبرل اقدار کا اضافہ ہوا ہے۔ وہ ریاست کے گورنر اور اس کے دارالحکومت رچمنڈ کے میئر بھی رہے ہیں۔ مسز کلنٹن کی طرح وہ بھی پہلے دن سے نائب صدارت کے فرائض ادا کرنے لگیں گے۔ جوزف بائیڈن کی طرح وہ بھی فیتہ کاٹنے والے نائب نہیں ہوں گے بلکہ وائٹ ہاؤس کی سیاست میں عملی حصہ لیں گے۔ کین کے یہ منصب قبول کرنے پر ریپبلکنز کو یہ ریاست‘ جس کا ووٹ کسی طرف بھی جا سکتا تھا‘ بھول جانی چاہیے۔ ٹم کین بڑے ''بورنگ‘‘ مگر رائے دہندگان میں ہردلعزیز ہیں۔ ریاست کے اس حصے میں‘ جو شمالی ورجینیا کہلاتا ہے اور واشنگٹن ڈی سی سے جڑا ہوا ہے‘ اکثریت تو گورے امریکیوں کی ہے مگر وہ تارکین وطن کا گھر بھی ہے اور یہاں کثیر تعداد میں پاکستانی‘ ہندوستانی‘ افغان اور ویت نامی رہتے ہیں‘ جو ظاہر ہے کہ ڈیموکریٹک ٹکٹ کو ووٹ دیں گے۔
مگر وکی لیکس نے ڈیموکر یٹک پارٹی کے لیڈروں کے مابین ہزاروں ای میل کا تبادلہ ظاہر کرکے ہلری کلنٹن کی امیدوں پر پانی پھیر دیا ہے۔ ان ای میلز کے مطابق بنیادی انتخابات میں پارٹی لیڈر‘ سینیٹر برنی سینڈرز کے مقابلے میں مسز کلنٹن کی حمایت کرتے تھے جبکہ عوام کے اندر وہ غیر جانبدار بنتے تھے۔ اسے انتخابات سے قبل دھاندلی کا الزام سمجھ کر ڈیموکریٹک نیشنل کمیٹی کی چیئروومن ڈیبی واشرمن شلز نے‘ جو فلوریڈا سے ایوان نمائندگان کی رکن بھی ہیں‘ کمیٹی سے استعفا دے دیا۔ سینیٹر سینڈرز پہلے ہی اپنی انتخابی مہم سے دستبردار ہو چکے ہیں۔ بعض تجزیہ کار ڈیموکریٹک کنونشن کی شام اسے روس کی شرارت کہہ رہے ہیں کیونکہ صدر ولادیمیر پوتن‘ ریپبلکن ڈونلڈ ٹرمپ کو بہتر امیدوار کہہ چکے ہیں۔ ٹرمپ ماسکو کو امریکی الیکشن میں براہ راست مداخلت کی عدیم المثال دعوت دیتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ روس‘ ہلری کے نجی کمپیوٹر سے تیس ہزار ای میلز حذف کرنے کے معاملے کی تحقیق کرے۔ رازداری کے مخالفین کی ویب سائٹ وکی لیکس کے بانی جولین اسانج‘ جو امریکہ سے بھاگ کر لندن میں ایکواڈور کے سفارت خانے میں پناہ گزین ہیں‘ اس خیال کی تردید کرتے اور کہتے ہیں کہ بیس ہزار ای میلز کے اندر جو کچھ لکھا ہے‘ وہ زیادہ اہم ہے۔
کتابوں پر تبصرہ کرنے والے ایک صحافی کا کہنا ہے کہ سیاستدان کے اندر کے انسان کو سمجھنے کے لئے اس کے سوانح حیات پر نظر ڈالنی چاہیے۔ مسز کلنٹن نے It Takes a Village کو جو بچوں کی پرورش کے متعلق ہم خیال مفکرین کے مضامین کا ایک مجموعہ ہے‘ ایڈٹ کرنے کے علاوہ سوانح عمری کے دو ضخیم جلدیں Living history اور Hard Choices شائع کی ہیں۔ ''مشکل فیصلے‘‘ میں لکھتی ہیں: ''لین دین اور بالآخر (نیٹو) رسد کے خطوط کا ایک سمجھوتہ یہ سبق دیتا ہے کہ امریکہ اور پاکستان اپنے مشترکہ مفادات کی پیروی میں آئندہ (بھی) مل جل کر کام کر سکتے ہیں‘ جب لڑاکا امریکی فوجی افغانستان سے جانے کے لئے تیار ہیں۔ ہمارے تعلقات کی نوعیت بدل جائے گی مگر دونوں ملکوں کے پاس ایسے مفادات ہوں گے جو دوسرے پر انحصار کریں گے۔ لہٰذا ہمیں تعمیری انداز میں مل جل کر کام کرنے کی راہیں تلاش کرنا ہوں گی۔ مزید نااتفاقیاں اور مخالفتیں ناگزیر ہیں‘ لیکن ہمیں اگر نتائج درکار ہیں تو ہمارے پاس توجہ مرکوز کرنے اور حقیقت پسند ہونے کے سوا کوئی راستہ نہیں‘‘۔ بطور وزیر خارجہ ہلری کلنٹن نے صدر اوباما اور دفاعی عہدیداروں کی معیت میں وائٹ ہاؤس کے سکرین پر ایبٹ آباد میں امریکی سپاہیوں کے ہاتھوں اسامہ بن لادن کے مارے جانے کا منظر دیکھا تھا‘ اور چھ ماہ بعد سلالہ کی سرحدی چوکیوں پر نیٹو کی بمباری میں چوبیس پا کستانی فوجیوں کی شہادت کے بعد رسد کی بحالی کے مذاکرات میں حصہ لیا تھا۔
ری پبلکن کی طرح ڈیموکریٹس نے بھی اپنی کنونشن کا آغاز انتشار سے کیا۔ سینڈرز کے ''انقلابی منشور‘‘ کے نعرے گونجتے رہے اور بہت سے ڈیلیگیٹس نے ای میل کے حوالے سے ہلری کلنٹن اور ڈی این سی کے خلاف احتجاج کیا تاوقتیکہ آ زاد سینیٹر سینڈرز‘ خاتون اوّل مشل اوباما اور دوسرے مقررین سٹیج پر آئے اور انہوں نے مسز کلنٹن کے پیچھے اتحاد کی اپیل کرکے انہیں خاموش کیا۔ سینڈرز نے دو ٹوک انداز میں انہیں بتایا کہ ''ہمیں ہلری کلنٹن کو منتخب کرنا ہے‘‘۔ انہوں نے کہا: انتخابات تو آتے جاتے رہتے ہیں ''غریب غربا کے سیاسی انقلاب کی جدوجہد جاری رہے گی‘‘۔ انہوں نے یہ بھی کہا: ''ہمیں ایک ایسی قیادت درکار ہے جو لوگوں کو یکجا کر سکے اور ہمیں مضبوط بنائے نہ کہ ایسی قیادت جو لاطینوز‘ مسلمانوں‘ عورتوں‘ افریقی امریکیوں اور سابق فوجیوں کی توہین کرتی ہو۔‘‘ یہ اشارہ ٹرمپ کی طرف تھا۔ سینڈرز کے حامی (غیر قانونی) تارکین وطن کے حقوق‘ آتشیں اسلحے پر بہتر کنٹرول اور پولیس کے ظلم کی روک تھام پر زور دے رہے تھے۔ مسز اوباما نے کہا کہ ہلری کلنٹن کے طفیل میری دو بیٹیوں نے یہ سوال کرنا چھوڑ دیا ہے کہ عورت اس ملک کی صدر کیوں نہیں ہو سکتی؟ مسز کلنٹن کی تعریف کرنے والوں میں ان کے شوہر بل اور بارک اوباما بھی شامل تھے۔ ہما عابدین‘ جو مسز کلنٹن کی نائب ہیں اور مخالفین کی نگاہ میں وہ وائٹ ہاؤس میں اخوان المسلمین کی جاسوس (مول) چلی آ رہی ہیں‘ اپنے معمول اور ضرورت کے مطابق روپوش رہیں۔ ماں کے حوالے سے وہ پاکستانی نژاد ہیں اور سابق خاتون اول اور وزیر خارجہ کے ہمراہ اسلام آباد جا چکی ہیں‘ مگر پاکستان یہ امید نہیں کر سکتا کہ وہ امریکہ کے مفاد کے برعکس کوئی بات کریں گی؛ تاہم پاکستانی امریکیوں کے لئے ان کی باس کے حق میں ووٹ دینے کے سوا کوئی راستہ نہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں