ڈھونڈو گے اگر…

ڈھونڈو گے اگرملکوں ملکوں ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم
تعبیر ہے جس کی حسرت و غم اے ہم نفسو وہ خواب ہیں ہم 
جب مشرق و مغرب میں عابدہ پروین کی آواز میں شاد عظیم آبادی (1846-1927ء) کا یہ نغمہ گونج رہا تھا، عظیم تر واشنگٹن میں بزم سخن کا سالانہ مشاعرہ آ پہنچا اور اس میں قیصر عباس نے یہ نظم پڑھی جس کا عنوان تھا: ''اب ہمیں کون دفنائے گا ؟‘‘ یہ بے لوث سماجی کا رکن عبدالستار ایدھی کو جو گزشتہ ماہ کراچی میں رحلت کر گئے، ایک اور بھر پور خراج تحسین تھا:
بے خواب نگر کے جلتے/گلی کوچوں‘ /اور بارود زدہ دھوئوں کے غبار میں گھرا‘/پھٹا پرانا جوتا پہنے‘ /برسوں پرانا لبادہ اوڑھے‘ / اور تقریباً ایک صدی کا لاغر بدن سنبھالے‘/چا روں اْور/بکھرتے آنسوئوں کو/بوسیدہ جھولی میں سمیٹتا‘ /نو مولود ''گناہوں‘‘ کی زندہ پوٹلیوں کو/گلے لگاتا‘ /اور لہو لہان جسموں کی/بے جان کر چیوں کو جوڑ کر/دفن کرتا‘/ایک تنہا مسافر/ابھی کچھ دیر پہلے /اُفق کے اس پار اترا/تو نئے سورج کی/ابھرتی کرنوں/اور مسکراتی شفق کے جلو میں/اک نئے جہان کے باسی/اس کے منتظر تھے‘ /مگر نہ جانے کیوں/کچھ چیختی آوازیں/ابھی تک/اس کے تعاقب میں تھیں: / ایدھی بابا !/اب ہمیں کون دفنائے گا؟
جب کسی شخص یا ادارے کے بے لوث ہونے کا یقین ہو جائے تو لوگ فراخدلی سے اسے چندہ دیتے ہیں۔ ایدھی کے بارے میں دنیا کو یہ اطمینان تھا کہ اسے دینا براہ راست مظلوم کی امداد کرنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکی محکمہ خارجہ اور اقوام متحدہ نے بھی اس امداد میں حصہ لیا اور عالمی ادارے کے سربراہ بان کی مون نے ایدھی کی وفات پر ایک تعزیتی پیغام بھی ارسال کیا۔ ان اداروں نے رفاہی گاڑیاں تک ایدھی کو بطور عطیہ دی تھیں اور خاک نشین کے پاس کم و بیش سینکڑوں ایمبولنس وہیکل تھے جو رات دن قدرتی اور غیر قدرتی سانحات میں لاشیں اور زخمی ڈھونے میں مصروف دکھائی دیتے تھے۔ پاکستان کے لوگ ٹیکس دینے میں لیت و لعل سے کام لیتے ہیں مگر خیرات کرنے میں مشہور ہیں کیونکہ زکوٰۃ دینا فرض ہے اور صدقہ و فطرانہ دین کے احکامات‘ شاید وہ حکومت پر اعتبار نہیں کرتے۔ چندہ جمع کرنے کا ایک دفتر نیو یارک شہر میں بھی ہے جو بلقیس ایدھی ٹرسٹ کہلاتا ہے اور امریکی پاکستانی اپنے چیک وہاں بھجواتے ہیں۔ وہ لڑکوں اور لڑکیوں کے لئے یتیم خانے اور بڑوں کے لئے دارالامان قا ئم کرتا تھا اور اسے رضاکار بھی بکثرت ملتے تھے۔ سنتے ہیں کہ جب کوئی فرد کا م کاج سے معذور ہو جاتا ہے تو بعض خاندان اسے ایدھی ہاؤس چھوڑ جاتے ہیں اس دلخراش امید میں کہ جب بڈھا مرے گا تو ایدھی کے لوگ کفن دفن کا انتظام توکر ہی لیں گے۔ کراچی میں یہ رسومات خاصی مہنگی ہیں۔ اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے اگر عبدالستار ایدھی کے لئے نوبیل پرائز کی سفارش کی ہے تو انہیں ناروے کمیٹی کو لکھا جانے والا خط پوشیدہ رکھنا چاہیے تھا۔ خط کے مضمون کو ریلیز کرنا تعلقات عامہ کی ذیل میں آئے گا۔ ایسا ایک مکتوب جو وزیر اعظم بینظیر بھٹو نے بھی اپنے وزیر اقلیتی امور کے حق میں کمیٹی کے نام لکھا تھا، یہ صاحب اسلام آباد سے واشنگٹن تک سب کو دکھاتے پھرتے تھے۔ آج وہ پیپلز پارٹی میں کہیں دکھائی نہیں دیتے۔کمیٹی کی اپنی مصلحتیں ہوتی ہیں اور وہ سوچ سمجھ کر ہر سال اپنے فیصلوں کا اعلان کرتی ہے۔ ایدھی ان فیصلوں کا انتظار کرنے والوں میں سے نہیں تھے۔
ہر مہینے بڑے لوگوں کا انتقال ہوتا ہے اور پسماندگان غمگین ہوتے ہیں۔ انجمن ادب اردو (SOUL) اختر عباس پیرزادہ اور آغا ناصر کی وفات پر سوگوار تھی۔ دونوں لاہور کے زمانے سے دوست تھے جو ایک ہی ہفتے میں چل بسے۔ معظم صدیقی نے پیر زادہ کے بارے میں کہا کہ وہ نشر کار‘ اداکار اور گلو کار تھے۔ وہ VOA سے کوئی دس سال پہلے ریٹائر ہوئے تھے۔ ایک عرصے سے علیل چلے آ رہے تھے اور فیر فیکس میں اپنے گھر میں پڑے تھے۔ بیٹی ثمینہ نے حاضرین کو مرحوم کی آواز میں ایک نظم سنوائی جو اس نے ا پنے ٹیلیفون پر ریکارڈ کی تھی۔ ڈاکٹر صدیقی نے بتایا کہ یہ دراصل سورۃ رحمٰن کا منظوم ترجمہ تھا جو جوش ملیح آبادی مرحوم نے کیا تھا۔
آغا ناصر پاکستان ٹیلی وژن کے بانیوں میں سے ایک تھے۔ جب لاہور میں پی ٹی وی کی مستقل عمارت نہیں بنی تھی اور ٹیلی وژن کا منصوبہ ایک پائلٹ پراجیکٹ کہلاتا تھا، زیڈ اے بخاری کے تربیت یافتہ اس کے افسر تھے۔ مجھے تو ایک خوبرو‘ خوش رنگ‘ خوش نوا اور دراز قامت نوجوان یاد ہے۔ میری خوش نصیبی ہے کہ میں نے پاکستان ٹیلی وژن کے کسی کارکن کو بوڑھے ہوتے نہیں دیکھا، خواہ وہ اسلم اظہر ہو یا آغا ناصر‘ ظفر صمدانی ‘ مصلح الدین‘ ممتاز حمید راؤ ہو یا نصیر ملکی، میری یادداشت میں سب جوان ہیں۔ 1964ء میں جب صدر محمد ایوب خان نے شارع عبدالحمید بن بادیس پر‘ اگر آپ کو الجزائری مجاہد کا نام لینے میں دشواری ہو تو آپ اس سڑک کو اس کے پرانے نام ایمپریس روڈ سے بھی پکار سکتے ہیں، ریڈیو پاکستان کی نئی عمارت کا افتتاح کیا تو ساتھ ہی ٹیلی وژن کے پراجیکٹ نے اس عمارت کے پچھواڑے ایک قنات میں کام شروع کیا۔ سڑک کے پار نیوز سٹاف کے لئے ڈاکٹر یعقوب علی کی کوٹھی کرائے پر لی گئی۔ اْس زمانے میں صحافی اور ٹیلی وژن ٹیلنٹ مل جل کر کام کرتے تھے۔ پا کستان ٹائمز کے ظفر صمدانی رتن چند روڈ کی متروکہ عمارت چھوڑ کر ٹیلی وژن میں جا بیٹھے تھے۔ وڈیو فلموں کی کمنٹری لکھنے کے لئے مجھ جیسے اخبار نویسوں کو بلایا جاتا تھا۔ میں نے روس کا بنا ہوا ایک ٹیلی وژن سیٹ بھی قسطوں پر خریدلیا تھا اور شام کو جب صحن میں وہ چلتا تھا تو محلے کی عورتیں اور بچے اس نئی تفریح سے لطف اندوز ہو تے تھے۔ 1965ء کی جنگ چھڑی تو یہی سیٹ معلومات کا وسیلہ بن گیا۔ ریٹائر منٹ کے بعد آغا نا صر نے''گلشن یاد‘‘ کے نام سے ایک کتاب لکھی جو ''گمشدہ لوگ‘‘ کے بعد ان کی دوسری اور آخری تصنیف تھی۔ یہ کتابیں ابو الحسن نغمی کے پاس ہیں۔ اس زمانے میں وہ ریڈیو پاکستان کے '' بھائی جان‘‘ تھے اور امروز میں ایک قطعہ بھی لکھتے تھے۔ ان کی آپ بیتی ''داستان جاری ہے‘‘ سنگ میل نے چھاپی ہے جو اس سے پہلے '' یہ لاہور ہے‘‘ ، ''امریکہ میں بتیس سال‘‘ اور '' سعادت حسن منٹو‘‘ شائع کر چکا ہے۔
حلقہ ارباب ذوق‘ شمالی امریکہ کا اجلاس ہوا تو اس میں بھی مرزا محمد رفیع سودا کے تذکرے کے علاوہ پاکستان کے لیڈروں کا ذکر خیر تھا۔ خرم یوسف زئی جو ریڈیو پاکستان سے وابستہ رہے سفارت خانے سے ریٹائر ہونے کے بعد امریکہ میں بس گئے ہیں، کلیر واٹر‘ فلوریڈا سے آئے تھے۔ انہوں نے ایک نظم پڑھی جس میں قائد اعظم کو خراج عقیدت پیش کیا گیا تھا:
''اسیری‘‘ کی داد ستیہ پال آنند نے بھی دی جو اس محفل کے صدر تھے مگر انہوں نے حسب معمول مصرع کی تقطیع نہیں کی۔ وہ کوٹ سارنگ‘ ضلع چکوال ‘ پاکستان میں پیدا ہوئے تھے۔ ہندوستان کے پاسپورٹ پر سعودی عرب‘ مغربی یورپ اور شمالی امریکہ کی یونیورسٹیوں میں پڑھا تے رہے اور آج کل ایک امریکی تعلیمی ادارے سے فارغ ہونے کے بعد ورجینیا میں آباد ہیں:
رہنے کے واسطے نہ زمیں تھی نہ آسماں
ہم جس میں سر چھپائیں وہ گھر دے گیا ہمیں
وہ خضر تھا بتا گیا راہوں کے سب رموز
جس سے مفر نہیں وہ ڈگر دے گیا ہمیں 
وہ قافلہ کہاں جو اس سمت چل سکے
جس سمت کا وہ اذن سفر دے گیا ہمیں
سب اس کے ساتھ ہی گئیں اس کی بڑائیاں
ایسا خلا نہ پْر ہو مگر دے گیا ہمیں
پروفیسر عزیز قریشی حیدر آباد (دکن) میں پیدا ہو ئے تھے اور کراچی میں قانون کی تعلیم پائی تھی۔ انہوں نے حکیم ملت کو نذرانہ تحسین پیش کیا:
یوم اقبال منانے کو مناتے ہم ہیں
ان کے اشعار نصیحت کے سناتے ہم ہیں
پھول اقبال کی تربت پہ چڑھاتے ہم ہیں
یاد بھی ہم نے کیا بھول بھی جاتے ہم ہیں
گر یہی رسم رہی کوئی افادہ ہی نہیں
یعنی کچھ کرکے دکھانے کا ارادہ ہی نہیں 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں