اْردو بولنے والے

لاہور میں ابوالحسن نغمی اور انتظار حسین میرے ہمسائے تھے۔ اردو بولنے والے کئی اور لوگ مثلاً فیاض انصاری اور ابرار حسن گھر کے دائیں اور سامنے رہتے تھے۔ اس بستی میں یو پی اور دہلی سے آنے والے پناہ گزین بکثرت تھے مگر کسی کو مہاجر قومی موومنٹ بنانے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔ یہ میرے علم میں تھا کہ نغمی اور انتظار کے دوستوں میں زیادہ تر پنجابی تھے‘ جو انہیں دیکھتے ہی اردو بولنے لگتے تھے جیسے ان کے جسم میں کوئی بٹن لگا ہو۔ میں اپنی والدہ کو دیکھنے گاؤں گیا تو خاتون نے بڑے فخر سے بتایا کہ تمہاری بھتیجی کم سنی ہی میں اردو بولنے لگی ہے۔
جنگ آزادی کے بعد دلی اجڑی تو بہت سے دانشور اپنے اساتذہ کے دیوان بغل میں دبائے لاہور پہنچے اور موچی دروازہ میں فرو کش ہوئے مگر انہوں نے بھی کسی مہاجر تنظیم کے بارے میں نہیں سوچا۔ نغمی اپنے ''سوانحی ناول‘‘ ''داستان جاری ہے‘‘ میں لکھتے ہیں کہ لاہور میں ان کی پہلی ملاقات مرزا ولایت علی سے ہوئی جو پنجابی تھے اور سیتا پور میں اپنے سسرالیوں کا احوال جاننے کے لئے بے قرار۔ نغمی امریکہ میں بھی میرے پڑوسی ہیں اور ہمسائے میں ایک اضافہ ہوا ہے۔ عبیدالرحمن کراچی میں وکالت کے پیشے سے ریٹائر ہونے کے بعد اپنے خاندان کے ساتھ ستر کے عشرے میں امریکہ منتقل ہو گئے تھے۔ اب وہ سب آمنے سامنے ایک ہی کورٹ یارڈ میں تین بڑے بڑے مکانوں میں رہتے بستے ہیں۔ ان کے دو صاحبزادے جدید وضع کا ایک ریسٹورنٹ چلاتے ہیں۔ تیسرے ہارٹ سرجن اور ایک عبادالرحمن ایم کیو ایم شمالی امریکہ کے صدر ہیں‘ مگر کراچی میں تنظیم کے بانی الطاف حسین کی ٹیلی فونی تحریک پر جو پاکستان مخالف نعرے لگے اور ان کے بیچوں بیچ اٹھنے والی تحریک میں پاکستان‘ زندہ باد کے جو نعرے گونجے‘ ارادی یا غیر ارادی طور پر ان سے بے خبر ہیں۔ کم از کم ان کی ویب سائٹ سے یہی لگتا ہے۔ ایم کیو ایم کراچی کے ایک سابق عہدیدار عبدالرحمان صدیقی‘ جو مستقل طور پر امریکہ میں رہتے ہیں‘ بتاتے ہیں کہ عباد آج کل بہت پریشان ہیں کیونکہ سابق وفاقی وزیر بابر غوری کی طرح وہ بھی الطاف حسین کے زیر عتاب ہیں۔ جناب عبدالرحمن صدیقی‘ جو اچھے شاعر اور ایک ریٹائرڈ صحافی ہیں‘ کہتے ہیں کہ جو عورتیں اگلی صفوں میں ٹیلی وژن پر دکھائی دیں‘ وہ بلدیہ کراچی اور دوسرے سرکاری محکموں میں ملازمت کرنے والے لوگوں کی بیویاں اور بہنیں تھیں‘ جنہیں ایم کیو ایم نے نوکر کرایا تھا۔ علاوہ ازیں پاکستان میں جن دفاتر پر بلڈوزر چلائے گئے‘ وہ سرکاری زمینوں پر ناجائز قبضہ کرکے تعمیر کیے گئے تھے‘ اور اس وقت اقتدار میں ایم کیو ایم کے حصے دار خاموش رہے تھے۔ الطاف حسین برہم ہیں کہ قومی اسمبلی میں ان کے خلاف قرارداد کیوں پاس ہوئی‘ اور کیوں ایم کیو ایم نے اس کے حق میں ووٹ دیا۔ ''ایم کیو ایم کا نظام دھونس اور دھمکی سے چلتا رہا ہے‘‘۔ ان کے بقول کوٹہ کہیں لاگو ہوتا تھا اور کہیں نہیں۔
یکم ستمبر کو اس ویب سائٹ پر ''تنظیم سازی‘ فیصلہ سازی اور پالیسی سازی کے مکمل اختیارات رابطہ کمیٹی کے سپرد کرنے‘‘ سے متعلق الطاف حسین کا بیان تو شامل ہے‘ مگر ساتھ ہی ان کا یہ بیان بھی شائع کیا گیا ہے کہ ''بر سوں سے مہاجروں کا سیاسی‘ معاشی اور جسمانی قتل عام کیا جا رہا ہے‘‘۔ سر فہرست الطاف حسین کی چالیس سال پرانی تصویر سے مزین کراچی پریس کلب کے باہر متحدہ کی تادم مرگ بھوک ہڑتال ہے‘ جس کا تختہ گیارہ دن پہلے الٹ دیا گیا تھا۔ کراچی سے خبر آئی ہے کہ الطاف حسین کے حامی بھی میدان میں آئے ہیں‘ اور انہوں نے سندھ ہائی کورٹ کے احاطے اور شہر کے چوراہوں میں فاروق ستار کے خلاف کتبے لگائے ہیں۔ ایسے کتبے فاروق ستار کے حق میں بھی آویزاں کئے گئے ہیں۔ گویا جس مہم کو نورا کشتی اور ملی بھگت کہا جاتا تھا‘ وہ حریفانہ رخ پر چل نکلی ہے مگر اب بھی بعض مبصرین کو شک ہے۔ کچھ کہتے ہیں کہ لندن سے قطع تعلق واضح نہیں۔ وہ خواہ لندن میں ہوں یا کراچی میں ''متحدہ‘‘ سے ''مہاجر‘‘ کی طرف واپس جا رہے ہیں اور اپنے آپ کو ''بانیان پاکستان‘‘ کی اولاد کہتے ہیں۔ 
اْردو ادب کے حوالے سے جناب عبیدالرحمن ایڈووکیٹ سے اکثر ملاقات رہتی ہے‘ اور جمعہ کے دن مسجد میں بھی ان سے مڈبھیڑ ہو جاتی ہے مگر ایم کیو ایم یا ان کے لوگوں کے ''قتل عام‘‘ کی بات کبھی نہیں ہوئی‘ ماسوا ان کی اس رائے کے جو انہوں نے 22 اگست کو ظاہر کی کہ ''بے نظیر بھٹو نے پہلی بار اقتدار سنبھالا تو کوٹہ سسٹم نافذ ہوا۔ سندھ میں پچاس فیصد مہاجرین کے لئے صرف دو فیصد؛ چنانچہ بچوں کی تعلیم اور روزگار کی خاطر ملک چھوڑ دیا‘‘۔ مہاجروں میں (مشرقی) پنجاب‘ بنگال‘ سی پی اور بہار وغیرہ کے لوگ بھی شامل ہیں اور ان کو بھی وفاقی حکومت سے بجا طور پر بڑے گلے شکوے ہیں مگر انہوں نے ''قتل عام‘‘ کا شکوہ کبھی نہیں کیا اور نہ یہ دعویٰ کہ پاکستان ان کے آبائواجداد کی قربانیوں کے طفیل معرض وجود میں آیا۔ اگر ایسا ہے تو بنگال والے کیا سوچیں گے‘ جن کے اے کے فضل الحق نے لاہور میں وہ قرارداد پیش کی تھی‘ جو قرارداد پاکستان کہلاتی ہے۔ سرحد میں ایک ریفرنڈم ہوا‘ جس میں عوام نے کثرت رائے سے پاکستان کے حق میں ووٹ دیا۔ سندھ کی صوبائی اسمبلی نے قرارداد پاکستان منظور کی‘ اور جب پاکستان بن گیا تو بلوچستان کی ریاستوں نے پاکستان میں ضم ہونے کا فیصلہ کیا۔ زبان کا افسانہ چھیڑ کر ہم ملک کے مشرقی بازو سے محروم ہو چکے ہیں۔ کیا یہ نقصان‘ سبق کے لئے کافی نہیں؟ الطاف حسین 1953ء میں کراچی میں پیدا ہوئے تھے مگر وہ دھرتی کا لعل ہونا رد کرتے ہیں۔ محمد علی جناح بھی کراچی میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کی جدوجہد کے ثمر میں پاکستان معرض وجود میں آیا‘ اور ان کو قائد اعظم کا خطاب دیا گیا۔ ابوالحسن نغمی‘ عبیدالرحمن اور عبدالرحمن اس وقت نابالغ تھے مگر وہ سب قائد اعظم کے‘ جو اردو بولنے پر قادر نہیں تھے‘ سپاہیوں میں شامل تھے حالانکہ ان کو معلوم تھا کہ ان کا گھر پاکستان میں نہیں آئے گا۔ الطاف حسین نے پاکستان کے خلاف نعرہ ایک ایسے وقت لگایا جب قیام پاکستان کی مخالفت کرنے والی مسلم تنظیمیں دم توڑ چکی ہیں یا انہوں نے اپنے نظریات کی اصلاح کر لی ہے۔
سندھ رینجرز کے ڈائریکٹر جنرل بلال اکبر نے کوٹہ سسٹم کا معاملہ اپیکس کمیٹی میں اٹھانے کی کوشش کی مگر ناکام رہے۔ یہ سسٹم میرٹ کے بنیادی اصولوں کے منافی ہے۔ مشیر اطلاعات مولا بخش چانڈیو نے اخبار نویسوں کے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ایسا معاملہ کمیٹی میں زیر غور نہیں آیا۔ حقیقت یہ ہے کہ اکبر نے کمیٹی کا اجلاس شروع ہونے سے قبل وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ کو کوٹہ سسٹم‘ جسے بعض زیر حراست افراد نے میرٹ کے منافی قرار دیا‘ ختم کرنے کو کہا تھا اور اس وقت کم از کم دو صوبائی وزیر بھی موجود تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے واشنگٹن سے جا کر سندھ میں تعلیم اور نوکریوں کے لئے ساٹھ چالیس کے تناسب کا جو قانون منظور کرایا تھا‘ اس پر دس سال عملدرآمد رکا رہا اور ایم کیو ایم نے‘ جو اس قانون کی منسوخی کے نعرے پر اقتدار میں آئی تھی اور صدر ضیاالحق اور ان کے فوجی جانشین جنرل پرویز مشرف سے اشتراک کر رہی تھی‘ اپنے بنیادی مقصد کو فراموش کر دیا۔ یہ قانون صرف دس سال کے لئے تھا‘ اس لئے کہ کھوکھرا پار کے راستے بہت سے مہاجر کراچی آ گئے تھے اور کراچی کے بعد حیدر آباد‘ سکھر‘ میر پور خاص اور سندھ کے دیہی علاقوں تک پھیل رہے تھے۔ یہ قانون اندرون سندھ کے حقوق محفوظ کرنے کے لئے بنایا گیا تھا‘ اور باقی صوبے اس سے مستثنیٰ تھے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں