یہاں دہلی تھا‘ یہاں لاہور ہوا کرتاتھا

یہ دّلی تھی‘ یہ لاہور تھا
پْرسا دینے کی تفصیل میں کیوں جاؤں میں؟
آنسو کس کے پونچھوں‘ سوگ مناؤں کس کا؟ آہ‘ اْف‘ تعزیت‘ ماتم وائے‘ حیف‘ افسوس‘ عزاداری کے جملے
میرا کلیجہ پھٹ جانے سے خوں شوئی میں بہہ نکلے ہیں
میں ناشکرا‘ اس دھرتی کا بیٹا جس نے
مجھ جیسے ناخلف کو جیون دان دیا تھا
آج کے اس منحوس لگن میں
بوم شوم کے اس بدفال اگھن میں
ایک اگھور وقت کے ان منحوس پلوں میں
ہنستے بستے شہروں کی سکرات مرگ کو دیکھ رہا ہوں!
کاش کہ میں نابینا ہوتا
پھوٹ گئی ہوتیں یہ آنکھیں‘ جو یہ منظر دیکھ رہی ہیں!
یہ دلّی ہے‘ یہ لاہور ہے
ستیہ پال آنند نے حلقہ ارباب ذوق‘ شمالی امریکہ کے ماہانہ اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے بتایا کہ ان کی یہ ساری نظم ہندوستان اور پاکستان میں ''وائرل‘‘ ہو گئی ہے یعنی انٹرنیٹ پر ڈالی اور تشویش سے پڑھی جا رہی ہے اور انہوں نے نظم کا پورا مسودہ حوالے کرتے ہوئے میرے کان میں کہا: ہندوستان میں بٹن وزیر اعظم کے پاس ہے اور آپ جانتے ہیں کہ آج کل وہاں کون برسر اقتدار ہے؟ پروفیسر آنند صاحب جہلم کے ایک گاؤں میں پیدا ہوئے تھے۔ اس لحاظ سے وہ ''پاکستانی‘ ہندوستانی‘ امریکی‘‘ ہیں اور مجھ سے قرب کی ایک وجہ یہ ہے کہ میں مشرقی پنجاب کے ایک گاؤں میں پیدا ہوا تھا اور اس لحاظ سے میں ''ہندوستانی‘ پاکستانی اور امریکی‘‘ ہوں اور ہم ایک دوسرے کا درد بخوبی سمجھتے ہیں۔
امریکہ میں انتخابی مہم زوروں پر ہے اور دونوں بڑی پارٹیوں کے صدارتی امیدوار ایک دوسرے پر تابڑ توڑ حملے کر رہے ہیں؛ تاہم ڈیموکریٹ ہلری راڈم کلنٹن اور ریپبلکن ڈونلڈ ٹرمپ میں جوہری ہتھیاروں کے ایک پہلو پر اتفاق ہے کہ وہ ملک کی سلامتی کے لئے سب سے بڑا خطرہ ہیں‘ مگر اس کے بعد دونوں کی راہیں الگ ہو جاتی ہیں۔ کلنٹن نے ایران کے ساتھ نیوکلیائی سودے کی تعریف کی اور جوہری دہشت گردی کے اندیشے پر تشویش ظاہر کی۔ ٹرمپ نے کہا کہ امریکی جوہری بارود خانہ‘ روسی اسلحے کے مقابلے میں آگے نہیں بڑھ رہا۔ امریکہ نے روس کے ساتھ شام میں جنگ بندی کا تعاون منسوخ کر دیا ہے اور نیوکلیائی اسلحے کے لئے تیار پلوٹونیم کو ٹھکانے لگانے کے پرانے معاہدے پر عمل درآمد روک دیا ہے۔ جوہری ہتھیار شروع دن سے ہی ایک افسانے میں لپٹے ہوئے ہیں۔ بہت سوں کا خیال ہے کہ جاپان کے دو شہروں پر ایٹم بم گرانے سے دوسری جنگ عظیم ختم کرنے میں امداد ملی۔ اس واقعہ کے 71 سال اور سرد جنگ کو بند ہوئے ایک عشرہ گزرنے کے بعد بھی یہ ہتھیار سفارت کاری پر چھائے ہوئے ہیں۔ ہندوستان اور پاکستان میں تین بڑی لڑا ئیاں ہو چکی ہیں۔ آخر میں جو جنگ ہوئی اس کے نتیجے میں پاکستان کا مشرقی بازو الگ ہو گیا۔ اگرچہ دونوں ملکوں کے بیشتر سیاستدان اور تجزیہ کار مانتے ہیں کہ جنگ سے کسی ملک کو فائدہ نہیں ہو گا‘ مگر دونوں اس جنگ میں ایٹمی اسلحہ بروئے کار لایا جانا خارج از امکان قرار نہیں دیتے۔ نتیجہ کراچی‘ لاہور‘ نئی دہلی اور ممبئی کی تباہی ہے۔ زیرک لوگ‘ خواہ وہ ہندوستان میں ہوں یا پاکستان میں‘ امریکہ میں ہوں یا روس میں باہمی کشیدگی کم کرنے کی بات کرتے ہیں اور سیاست گری کو جنگ کے امکان کا سبب بتاتے ہیں۔
کیمبرج یونیورسٹی پریس نے امریکہ کی جوہری طاقت پر ایک کتاب شائع کی‘ جس میں یہ تاثر دیا گیا تھا کہ ہیروشیما اور ناگاساکی کے بعد ایٹم بم نہیں چلایا گیا۔ گو 1945ء کے بعد لڑائی میں ایٹمی ہتھیاروں کا استعمال نہیں ہوا‘ مگر یہ حقیقت ہے کہ دھماکوں یا تجربات میں ایٹمی ہتھیار داغے گئے‘ اور ایسے زیادہ تر تجربات امریکہ اور روس نے کئے‘ جو اپنی استعداد کار بڑھانے کے لئے ہمہ وقت کوشاں رہتے ہیں۔ انہوں نے دو ہزار سے زیادہ بار یہ دھماکے کئے۔ امریکہ نے مارشل آئی لینڈز میں اور روس نے قطب شمالی کے نزدیک اور موجودہ قازقستان میں۔کچھ تجربات ہندوستان اور پاکستان نے کئے اور وہ ''ایٹمی کلب‘‘ کے رکن بن گئے۔ یہ کہنا کہ نئی دہلی اور اسلام آباد نے 1998ء کے بعد ایٹمی ذخائر کے معاملے میں اپنے تجربات میں تمول پیدا نہیں کیا‘ قرین قیاس نہیں۔ یہ ہتھیار کارنس کی سج دھج کے لئے نہیں بنائے گئے۔ ان کی مار اور تاثیر میں مسلسل اضافہ کرنا پڑتا ہے۔ اکیسویں صدی میں شمالی کوریا واحد ملک ہے جس نے زیر زمیں پانچ دھماکے اپنے دشمنوں کو خوف زدہ کرنے اور نیچا دکھانے کی غرض سے کئے ہیں۔ امریکہ ہر روز ایسا کرتا ہے۔ اب جنوبی کوریا‘ جاپان‘ سعودی عرب‘ مصر اور بعض دوسرے ملک‘ جو روایتی ہتھیاروں کے معاملے میں اپنے مخالفین کا مقابلہ کرنے سے قاصر ہیں‘ اسی ڈگر پر چل رہے ہیں۔ مشرق وسطیٰ کے عرب‘ اسرائیل سے خائف ہیں۔ نائب صدارت کے ریپبلکن امیدوار مائک پنس نے منگل کی رات مباحثے میں خطے کی صورت حال کو بے قابو کہا۔ اسرائیل ان نو ملکوں میں شامل نہیں جنہوں نے ایٹمی ہتھیار بنائے‘ مگر اس کے پاس نوے ایٹم بم سمجھے جاتے ہیں۔ آج کل ہر نئی قوت یہی کہتی ہے کہ اس نے ''مانع‘‘ کے طور پر ایٹم بم حاصل کیا‘ یا بنایا ہے۔
وزیر دفاع ایشٹن کارٹر نے اگلے روز کہا کہ ہم نیٹو کی نیوکلیئر پلے بک کو تازہ دم رکھ رہے ہیں‘ تاکہ روس یہ سوچنے نہ پائے کہ اسے لڑائی میں جوہری اسلحے کے استعمال سے فائدہ ہو سکتا ہے۔ امریکہ نے بارہ سال تک روس کو متاثر کرنے کی خاطر ہر دن ایٹمی تجربے کئے۔ پاکستان‘ امریکہ سے دور اور روس کے قریب ہو رہا ہے جس کا ایک ثبوت مشترکہ فوجی مشقیں ہیں۔ کاش وہ تعلقات کا یہ توازن شروع دن سے بر قرار رکھتا۔ ہندوستان نے بھی یہ غلطی کی مگر وہ اس توازن سے محروم ہو رہا ہے۔ رچرڈ نکسن کا یہ کہنا کہ وہ ویت نام کی جنگ جیتنے کے لئے ایٹمی اسلحے کے استعمال سے بھی گریز نہ کرتے۔ وہ نہ تو خون خرابہ رکوا سکے اور نہ روس‘ چین اور ویت کانگ کو رام کیا۔ آج ان کا موقف ''نظریہ دیوانگی‘‘ کہلاتا ہے۔ کیوبا کا میزائلی بحران بھی ایٹمی جنگ کا باعث نہ بنا‘ حالانکہ جان ایف کینیڈی نے اس کی بنیادیں رکھ دی تھیں۔
حقیقت ہے کہ نیوکلیائی ہتھیاروں نے جنگ کی آگ بھڑکانے میں امداد کی‘ جبکہ ایسی جنگ کی بنیاد ہی نہیں تھی۔ محض یہ افواہ کہ نیوکلیئر عراق یا صدام حسین اپنے جوہری ہتھیار‘ دہشت گردوں کے حوالے کر رہے ہیں‘ امریکہ کے وہ مہنگی لڑائی مول لینے کے لئے کافی تھی جو کئی اور جنگوں کا سبب بنی اور جن سے وہ آج تک نکل نہیں سکا۔ جوہری ہتھیار امن کے ضامن ہیں کیونکہ وہ جنگ کی قیمت کو اوپر لے جاتے ہیں‘ اس قدر اونچی کہ وہ قابل قبول نہیں رہتی۔ امریکہ نے مشرق وسطیٰ کی جنگ میں کود کر وہی بھول کی تھی جو آج پاکستان پر حملے کی دھمکی دے کر نریندر مودی کی حکومت کر رہی ہے۔ یہ چوتھی بڑی لڑائی ہو گی جو بالآخر ایک ایٹمی جنگ میں تبدیل ہو سکتی ہے۔
ٹرمپ کا موقف یہ جان پڑتا ہے کہ اتنے زیادہ ملکوں کے پاس ایٹمی ہتھیار ہیں کہ ان کا پھیلاؤ روکنا تقریباً ناممکن ہے۔ بلاشبہ نیوکلیائی طاقتوں کی تعداد ان تیس برسوں میں بڑھی ہے مگر اسی دوران سفارت کاروں کے مذاکرات اور عدم پھیلاؤ کے ماہرین کی محنت سے ایٹم بموں کی تعداد کم ہوئی ہے۔ پچھلے مہینے اوباما حکومت نے چھ ملکوں کی ایک قرارداد کی حمایت کی جس کا مقصد جوہری ہتھیاروں پر پابندی کے مذاکرات کو بحال کرنا ہے۔ اس وقت دنیا میں تقریباً پندرہ سو ایٹمی ہتھیار ہیں جبکہ سن اسی کے عشرے میں ان کی تعداد ساٹھ ہزار سے زیادہ تھی۔ لہٰذا ایٹمی اسلحے کا پھیلاؤ ناگزیر ہے‘ ناممکن نہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں