جمہوریت کا چہرہ

اندیشہ ہے کہ امریکی جدید تاریخ میں پہلی بار صدارتی الیکشن پْرامن نہیں ہو گا۔ ری پبلکن امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ نے‘ جن کی شکست ناگزیر ہے‘ کہہ دیا ہے کہ وہ اس سلسلے میں کوئی وعدہ نہیں کر سکتے اور ڈیموکریٹک پارٹی کی ہلری راڈم کلنٹن نے اس اجتناب کو ''ہولناک‘‘ قرار دیا ہے۔ ٹرمپ کی اپنی پارٹی اس بیان پر ملفوف افسوس کا اظہار کر رہی ہے۔ ایک پچھلے انتخاب میں ڈیموکریٹک امیدوار ایل گور نے ری پبلکن صدر کو عوام کے ووٹ لے کر ہرا دیا تھا‘ مگر ان کے حریف نے زیادہ ریاستوں کے 270 الیکٹورل ووٹ لئے تھے‘ جو الیکشن جیتنے کے لئے کافی اور ضروری تھے۔ سپریم کورٹ نے آئین کا ساتھ دیا تو دونوں فریقوں نے عدالت کا فیصلہ تسلیم کر لیا‘ اور اس طرح جارج بش کو عراق کی متنازعہ جنگ سے قطع نظر منصب کی دوسری مدت مل گئی۔ ادارے بڑی حد تک غیر جانبدار ہیں اور زیادہ لوگوں کو ان پر اعتماد ہے۔ اس کی تازہ مثال‘ پولیس کے ایک اہلکار نے محکمہ انصاف کو بیان دیا کہ ہلری کلنٹن نے بطور وزیر خارجہ اپنی پرائیویٹ ای میلز کی کیٹیگری تبدیل کرانے کی کوشش کی تھی۔ ایک فرق ہے دونوں نظاموں میں‘ پارلیمانی جمہوریت‘ جو پاکستان میں ہے‘ اور صدارتی جمہوریت‘ جو امریکہ میں ہے۔ یہاں بھی چیف ایگزیکٹو کا الیکشن بالواسطہ ہوتا ہے۔ سیاسیات کے پروفیسر بتاتے ہیں کہ ''ہجوم کی حکومت‘‘ سے بچنے کے لئے ایسا کیا گیا ہے۔ بعض ملکوں میں جمہوریت کا نام پر بادشاہت یا عددی آمریت رائج ہے۔ جمہوریت کا چہرہ نکھرنے میں وقت لگے گا۔ امریکہ نے یہ سطح دو صدیوں میں پائی ہے اور اب بھی اس کا جمہوری نظام ناقص ہے۔
صحافی کرس والس نے دونوں امیدواروں کے مابین تیسرے اور آخر ی مباحثے میں مسٹر ٹرمپ سے براہ راست جب یہ سوال کیا کہ اگر مسز کلنٹن آٹھ نومبر کے انتخاب میں غالب رہتی ہیں تو آپ یہ نتیجہ قبول کر لیں گے؟ تو وہ کسی قدر توقف سے بولے: ''میں آ پ کو سسپنس میں رکھوں گا‘‘۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ان کے حواری لڑائی جھگڑا کریں گے‘ اور نوبت خون خرابے تک جا پہنچے گی۔ مخالف امیدوار بولیں: یہ ہماری جمہوریت کو نیچا دکھانے کی کوشش ہے۔ ٹرمپ بالواسطہ یہ کہتے ہیں کہ اگر میں ہار گیا تو یہ انتخابی نتائج میں ہیر پھیر کا نتیجہ ہو گا اور ا گر میری جیت ہوئی تو شکست خوردہ مخالف کو جیل میں ڈالوں گا۔ ان کا اشارہ‘ پرائیوٹ ای میل کو ''سرکاری‘‘ میں بدلوانے کی کوشش کی طرف تھا۔
سیاہ فام‘ مسلمان عورتیں‘ سابق فوجی اور لاطینی بڑی تعداد میں ہلری کو ووٹ دیں گے‘ مگر پھر بھی خاتون کو حریف پر گیارہ فیصد سے زیادہ برتری حاصل نہیں۔ اب تک ایک درجن عورتیں ری پبلکن امیدوار پر انہیں جنسی اعتبار سے ہراساں کرنے کا الزام لگا چکی ہیں۔ وہ ان سب کو جھوٹی کہتے ہیں اور انہیں عدالت میں گھسیٹنے کی دھمکی دیتے ہیں۔ ووٹر اس الزام کو زیادہ اہمیت نہیں دیتے۔ وہ اسے بھی انتخابی حربوں میں شمار کرتے ہیں۔ وہ ہلری کو بھی اپنے شوہر کی جنسی بے راہروی کے معاملے میں ''مظلوم‘‘ خیال کرتے ہیں۔ ٹرمپ کہتے ہیں کہ وہ مسلمانوں کے داخلے پر پابندی لگا کر اور میکسیکو کے راستے وسطی اور جنوبی امریکہ کے لوگوں کی نقل وطن روک کر دہشت گردی اور جرائم پر قابو پا سکتے ہیں۔ دہشت گردی کی واردات کہیں بھی ہو‘ اس کا زیادہ فائدہ ٹرمپ کو ہوتا ہے اور انہیں دائیں بازو کے قدامت پسندوں کے کچھ اور ووٹ مل جاتے ہیں۔ بل کلنٹن نے دوسری مدت کے آخر میں کہا تھا: امریکہ اگلی صدی میں سفید فام نہیں رہے گا۔ صدی کے سولہ سال بیت گئے ہیں اور سابق صدر کی پیشگوئی سچ ثابت ہوئی ہے۔ امریکہ آج رنگدار لوگوں کا گھر ہے اور گورے اپنی قوت دکھانے کے لئے مجتمع اور متحد ہو رہے ہیں۔
ایک اخبار نے ''امریکہ کو خیر باد‘‘ اور ''چین کو خوش آمدید‘‘ کہنے کی خبر دیتے ہوئے سنگا پور کے ایک پروفیسر کا بیان نقل کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ہلری کلنٹن کو‘ جو بطور وزیر خارجہ فلپائن کے لئے پالیسی ساز تھیں‘ صدر راڈریگو دوترتے سے ایک ''باعزت‘‘ اور ''مصالحانہ‘‘ سلسلہ جنبانی کرنا پڑے گا‘ مگر کیا وہ ایسا کریں گی؟ ٹرمپ حقیقت میں صدر دوترتے کو پسند بھی کرنے لگے ہیں۔ پچھلے مہینے اس کالم میں اندیشہ ظاہر کیا گیا تھا کہ ایشیا میں سابق امریکی کالونی اپنے آقا سے قطع تعلق اختیار کر لے گی۔ دوترتے نے کہا تھا: ''فلپائن‘ چین اور روس بمقابلہ دنیا‘‘۔ اب کہتے ہیں کہ میں نے خارجہ پالیسی کے معاملے میں امریکہ سے علیحدگی کا اعلان کیا تھا (اقتصادی اور فوجی نہیں)۔ ٹرمپ بھی دوترتے سے ملتے جلتے ہیں۔ انہوں نے مسلمانوں اور میکسیکو کے لوگوں کے بارے میں اپنے خیالات نرم کئے ہیں‘ مگر اپنی مدمقابل کو اب بھی کرپٹ کہتے ہیں‘ اور ان کا تکیہ کلام یہ ہے: ''مجھ پر اعتبار کیجیے‘‘۔ امریکی خارجہ پالیسی بالعموم ''ذوالجماعتی‘‘ ہی رہتی ہے۔ اس معاملے میں دونوں امیدوار چین زدہ ہیں اور زیادہ سے زیادہ جاپان اور جنوبی کوریا سے اتحادوں کو مضبوط بنانے کی بات کرتے ہیں۔
میں نے اپنے علاقے کا بیلٹ پیپر دیکھا ہے۔ اس کے مطابق دو چھوٹی پارٹیاں اور ایک آزاد امیدوار بھی صدارتی انتخاب میں حصہ لے رہے ہیں‘ اور ان کے منشور بھی دلکش ہیں‘ مگر گزشتہ صدی میں ری پبلکن یا ڈیموکریٹوں کی حکومت بننے کی روایت مستحکم ہو گئی ہے۔ ہمارے علاقے سے ان بڑی پارٹیوں کے امیدواروں کے علاوہ ایک آزاد امیدوار بھی حصہ لے رہے ہیں‘ اور صدر کی طرح کانگرس میں بھی رائے دہندگان کے لئے اپنی پسند کے کسی فرد کو ووٹ دینے کی گنجائش چھوڑی گئی ہے‘ مگر وائٹ ہاؤس کا مکین یا دو ایوانوں کا رکن بڑی پارٹیوں کا نمائندہ ہو گا۔ ڈیموکریٹک پارٹی کی کوشش ہے کہ کم ازکم سینٹ میں وہ اکثریت حاصل کر لے‘ جہاں ری پبلکن کو دس ووٹ کی برتری حاصل ہے۔
یہ الیکشن کی سرزمین ہے۔ یہاں آوارہ کتے پکڑنے والے سے لے کر صدر تک ہر عہدیدار کا الیکشن ہوتا ہے‘ مگر بدقسمتی سے الیکشن‘ جو جمہوریت کا ضامن ہے‘ بہت مہنگا ہے۔ امریکی صدارتی الیکشن سب سے زیادہ مہنگا ہے۔ اس کے لئے امیدواروں نے اب تک ایک اعشاریہ دو بلین ڈالر فراہم کئے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے بائیس کروڑ اور مسز کلنٹن نے چوالیس کروڑ سے زیادہ جمع کئے ہیں۔ کلنٹن کی انتخابی مہم کی ایک اہم رکن ہما عابدین‘ جو پاکستانی ماں اور ہندوستانی باپ کی اولاد ہیں‘ اس تاثر پر پریشان ہیں کہ ان کی باس نے چندہ جمع کرنے کے جوش میں غیر ملکی حکومتوں اور بین الاقوامی کارپوریشنوں کے عطیات بھی قبول کر لئے ہیں‘ اور انہیں سرمایہ داروں کی صف میں جانے کا مزہ آتا ہے‘ جبکہ ان کے حریف مسلمہ طور پر سرمایہ دار ہیں‘ اور سرکاری پیسہ قبول کرنے سے انکار کر چکے ہیں‘ کیونکہ اس صورت میں انہیں انتخابی اخراجات کا حساب دینا پڑتا۔
فرانس‘ روس اور چین وغیرہ سے انسان نے یہ سبق سیکھا ہے کہ انقلاب پْرامن طور پر بھی برپا کیا جا سکتا ہے۔ آئس لینڈ واحد ملک ہے جس کے وزیر اعظم نے پاناما پیپرز لیک ہونے کے نتیجے میں استعفا دیا‘ اور حکمران پارٹی کی جگہ جو جماعت آج اقتدار سنبھال رہی ہے‘ چار سال پہلے مفقود تھی۔ ایک خاتون نے اس جماعت کی بنیاد رکھی اور ''تبدیلی‘‘ اس کا نعرہ قرار پایا۔ آج وہ خاتون کہہ رہی ہیں: ''لوگ حقیقی تبدیلیاں چاہتے ہیں اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ہمیں اس نظام کو بدلنا ہے اور ہمیں اپنی قانون سازی جدید خطوط پر استوار کرنی ہے‘‘۔ آئس لینڈ کی آبادی تین لاکھ سے کچھ اوپر ہے اور نئی جماعت سابق بحری قزاقوں اور دوسرے گرے پڑے یورپی لوگوں پر مشتمل ہے۔ وہاںجمہوریت تھی‘ مگر انہوں نے جمہوری نظام کو بدلنے کی بات نہیں کی۔ تبدیلی پر زور دیا ہے‘ جو خونریزی کی نہیں ارتقا کی علامت ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں