قسطیں کراؤ ورنہ جیل جائو!

مجھے یہ کہانی میرے تینوں بیٹوں میں سب سے چھوٹے نے سنائی۔ آصف نے میرے گھر کے ہفتہ وار چکر کے دوران بتایا۔ ابو! کل ایک عجیب ماجرہ ہوا۔ ٹیلیفون پر کوئی گرجدار لہجے میں کہہ رہا تھا: IRS سے جان سمتھ بول رہا ہوں۔ آپ پر ٹیکس کی مد میں کچھ رقم واجب الادا ہیں۔ قسطیں کرانے کے لئے 800 پر فون کیجئے‘ وگرنہ جیل کی ہوا کھانا پڑے گی۔ کالر امریکی لہجے میں بات کر رہا تھا۔
آصف یو ایس آرمی میں رہا ہے۔ اس کے علم میں ہے کہ انٹرنل ریونیو سروس‘ جو ٹیکس جمع کرنے والا ایک وفاقی ادارہ ہے‘ کسی موکل کو فون نہیں کرتا۔ بوقت ضرورت ایک مودبانہ خط لکھتا ہے۔ وہ ایک ٹیلی کمیونی کیشن کمپنی میں ملازم ہے۔ اسے یہ بھی معلوم ہے کہ ٹیکنالوجی ترقی کر گئی ہے اور دنیا میں کوئی بھی 800 تو کجا‘ لوکل نمبر بھی خرید سکتا ہے۔ اس لئے فون کرنے والے اور آصف کے درمیان ایک مختصر سا مکالمہ ہوا۔ ''مسٹر سمتھ‘ آپ کہاں سے بول رہے ہیں؟‘‘ آصف نے امریکی لہجے میں پوچھا۔ جواب ملا‘ انڈیا سے۔ ''مگر میں نے تو آئی آر ایس کا کوئی پیسہ نہیں دینا‘‘... ''اچھا تو اشوک کمار سے بات کرو‘‘... ''اداکار سے؟‘‘... ''ناہیں جی‘ ہمارے سپروائزر سے‘‘۔ آصف پاکستان میں پیدا ہوا تھا اور اس نے اشوک کو غالباً فلم محل میں دیکھا تھا‘ مگر اب تک وہ ہندوستانی کال سنٹر کی جعلسازی بھانپ گیا تھا‘ اور کالر سے مذاق کر رہا تھا۔ ''ابو‘ یہ جعلساز کسی جھگڑے کو طول نہیں دیتے‘‘۔ 
ہندوستان میں کال سنٹرز کے ظہور اور پھیلاؤ نے جرائم کو بھی جنم دیا ہے۔ انڈین پولیس مجرموں کو پکڑنے میں امریکی حکام سے تعاون کر رہی ہے۔ پولیس نے اب تک ساٹھ سے زیادہ افراد کو گرفتار کیا ہے‘ جنہوں نے مبینہ طور پر پندرہ سو امریکیوں سے 250 ملین ڈالر بٹورے ہیں۔ انفرمیشن ٹیکنالوجی کی ترقی کے کچھ نقصانات بھی ہیں۔ کال سنٹر کے جرائم پیشہ لوگ امیگریشن افسر کے روپ میں بھی غیر ملکیوں کو فون کرتے ہیں۔ اس انتباہ کے ساتھ کہ مجھے ادائیگی کرو ورنہ تمہیں جرمانہ ہو گا‘ ڈی پورٹ کئے جاؤ گے یا گرفتار ہو گے۔ کچھ ضرب پذیر افراد ان لوگوں سے جان چھڑانے کے لئے ہر وہ کام کرتے ہیں‘ جو ان سے کہا جاتا ہے۔ ان کا کاروبار وسیع اور نفع بخش ہے۔ محکمہ انصاف کی ایک اہلکار کو امید ہے کہ امریکی اور بھارتی حکام کا تعاون فون فراڈ دھندے میں رخنہ ڈالے گا۔ مہاراشٹر پولیس نے ممبئی کے ایک کال سنٹر پر چھاپہ مار کر 770 ملازمین کو پوچھ گچھ کے لئے حراست میں لیا۔ امریکی پولیس نے کہا کہ اس کی نظر احمد آباد کے کال سنٹروں پر بھی ہے‘ اور کچھ مالکان پر فرد جرم عائد کی گئی ہے۔ خاتون نے بتایا کہ بعض جرائم پیشہ اپنے شکار کا تعین کرنے کے لئے آن لائن ریسرچ کرتے اور فیس بک اور دوسرے آن لائن وسائل بروئے کار لاتے ہیں۔
ہندوستانی جعلسازوں اور بہت سے جنوبی ایشیاؤں کو یہ غلط فہمی ہے کہ ڈالر خزاں زدہ پتوں کی طرح درختوں سے جھولتے ہیں‘ اس لئے جدید ٹیکنالوجی کی امداد سے امریکیوں سے جتنے چاہو ڈالر لے لو۔ جعلساز امریکیوں سے دن میں مبینہ طور پر پندرہ لاکھ ڈالر بٹورتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ فراڈ کئی برسوں سے چلا آ رہا ہے اور جعلساز 55 ملین ڈالر سالانہ بناتے رہے ہیں۔ ٹیکس جمع کرنے والے ادارے کو جعلسازوں کی جانب سے تقریباً دس لاکھ فون کالز کی شکایات ملی ہیں‘ جن میں پانچ لاکھ افراد نشانہ بنے ہیں‘ جنہوں نے فراڈیوں کو اب تک 26 ملین ڈالر ادا کئے ہیں۔
کاروباریوں کے ادارے BBB نے اطلاع دی کہ اس نے شکایات کا جو دفتر کھول رکھا ہے‘ اسے ملنے والی ہر چوتھی رپورٹ اس فون فراڈ کے متعلق تھی۔ ممبئی میں ایک کال سنٹر پر پولیس کے چھاپے کے بعد ان رپورٹوں میں ''ڈرامائی کمی‘‘ دیکھی گئی اور شکایات کی شرح 95 فیصد گھٹ گئی۔ جعلسازوں نے امریکی لب و لہجے میں خاص تربیت پائی ہے۔ ایک خاتون اہلکار بولیں: ''دیرینہ تجربہ کی بنا پر کہا جا سکتا ہے کہ ہندوستانی جعلساز موقع پرست ہیں۔ وہ تادیر دوبارہ ایسی حرکت نہیں کریں گے مگر ہماری نظریں ان کی سرگرمیوں پر ہیں تاکہ ہم صارفین کو بروقت خبردار کر سکیں کہ ان کے ساتھ فراڈ میں آئندہ کیا ہونے والا ہے‘‘۔
یہ جعلساز امریکیوں کے دو زمروں کو بطور خاص نشانہ بناتے ہیں۔ اول آصف جیسے لوگ‘ جن کے نام ہندوستانی یا پاکستانی لگتے ہیں‘ اور دوم‘ وہ امریکی جو پیرانہ سال ہیں۔ ایسے لوگ امریکی جعلسازوں کے ہتھے بھی چڑھ جاتے ہیں‘ اس لئے میرا بڑا بیٹا جو کمپیوٹر کی مہارت کا دعویٰ رکھتا ہے‘ ہر کسی کو مشورہ دیتا ہے کہ اپنا پاس ورڈ‘ اپنا سوشل سکیورٹی نمبر اور اپنے گھر کا پتہ کسی اجنبی کو نہ دیجئے گا‘ اور اگر کہیں تاریخ پیدائش کا اندراج ضروری ہو تو اس میں ایک دو نمبر بڑھا یا کم کرکے بتائی جائے۔ یہ آئی ڈی کی چوری سے بچنے کا ایک طریقہ ہے۔ شناخت کے سرقے سے‘ جو ان دنوں عام ہے‘ آپ کو بھی واسطہ پڑا ہو گا‘ مگر آپ اس کے نتائج چھپانے کی کوشش کریں گے۔ میرے ساتھ ایسا ہوا ہے۔ کوئی نو سال پہلے مجھے ایک خاتون کی ای میل ملی جس میں نائجیریا پہنچنے‘ پرس چوری ہونے اور کانو شہر کے ہوٹل کی طرف سے اس کا پاسپورٹ قبضے میں لینے کا رونا رویا گیا تھا‘ اور کچھ قرض مانگا گیا تھا۔ ساتھ ہی یہ تاکید کی گئی تھی کہ یہ بات میرے گھر والوں کو نہ بتائیں کیونکہ میں نے ان کی اجازت کے بغیر اپنا آزاد کاروبار شروع کرنے کی ٹھانی تھی۔ میں اس خاتون اور اس کے شوہر کو اچھی طرح جانتا تھا۔ وہ دونوں میری لینڈ میں اپنے گھر کے اندر خوش گپیاں کر رہے تھے‘ مگر وہ اس حقیقت سے بے خبر تھے کہ خاتون کی شناخت چوری ہو چکی ہے‘ اور کوئی جعلساز اس کی جانب سے ادھار مانگ رہا ہے۔ میں نے اپنی بساط کے مطابق ایک رقم بھیج دی‘ یہ احساس کئے بغیر کہ مدعا علیہ امریکہ کے دائرہ اختیار سے باہر ہے۔ پولیس سے شکایت کی مگر اس سارے عرصے میں شکایت کی رسید تک نہیں ملی۔ اس کے بعد کئی بار مجھے ایسے ''مطالبات‘‘ کی ای میل آئیں جو میں نے ردی کی ٹوکری میں ڈال دیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں