نئے امریکی وزیر خارجہ اور دوسرے عہدیدار

اہلِ پاکستان ہلری راڈم کلنٹن اور جان کیری کے نام جانتے پہچانتے ہیں۔ وہ اوباما انتظامیہ سے معاملات کرتے رہے ہیں۔ اب انہیں اپنا وزیرِ خارجہ نہ ہونے کے باوجود ڈونلڈ ٹرمپ کے سیکرٹری آف سٹیٹ (وزیرِ خارجہ) ریکس ٹلرسن (Rex Tillerson) سے واسطہ پڑے گا‘ جنہیں ایسے خارجہ معاملات کا تجربہ نہیں مگر جو (Exxon Mobil) کے سربراہ ہیں اور روس کے صدر ولادیمیر پوتن اور مشرقِ وسطیٰ کے لیڈروں کے قریب سمجھے جاتے ہیں‘ اور یہی بات سینیٹ سے ان کی توثیق میں رکاوٹ ہے۔ سینیٹ میں رپبلکن کے پاس ڈیموکریٹس سے دو نشستیں زیادہ ہیں‘ مگر ارکان بالعموم ووٹ اپنی مرضی سے دیتے ہیں۔ ٹرمپ اپنی انتخابی مہم میں کئی بار کہہ چکے ہیں کہ وہ یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت بنانے میں مدد کریں گے اور ٹلرسن کو اپنے باس کی اس خواہش کی تکمیل میں اپنے عزائم کا اظہار کرنا ہو گا۔ واشنگٹن‘ تل ابیب کو اسرائیل کا صدر مقام خیال کرتا ہے۔ منتخب صدر نے دائیں بازو کے وکیل ڈیوڈ فریڈمن کو اسرائیل میں نیا سفیر مقرر کیا ہے‘ جس کا تل ابیب میں غیر معمولی گرمجوشی سے خیر مقدم کیا گیا۔ ایف بی آئی اتفاق کرتی ہے سی آئی اے کے اس خیال سے کہ روس نے امریکی الیکشن میں مداخلت کی‘ مگر کسی نے ان اداروں کی غیر جانبداری پر شک نہیں کیا۔ ہلری کلنٹن کا بیان ہے: ایک بار انہوں نے شکایت کی تھی کہ روسی انتخابات میں دھاندلی روا رکھی گئی۔ صدر اوباما نے اسرائیل کو امداد کی نئی رقم جاری کر دی ہے حالانکہ ایک سال سے زیادہ عرصہ قبل اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو چندہ جمع کرنے کے لئے امریکہ آئے تو وائٹ ہاؤس میں حاضری دیے بغیر وطن واپس چلے گئے تھے۔ اب جو وہ آئے تو انہوں نے امداد کو اگلے صدر کی صوابدید پر چھوڑنے کی بجائے موجودہ انتظامیہ سے لینے کا فیصلہ کیا۔ اسرائیل کے حوالے سے سودا بْرا نہیں رہا۔
امریکہ اگلے دس سال کے لئے اسرائیل کو 38 بلین ڈالر کی فوجی امداد دے گا جبکہ اس مد میں فلسطینیوں کی امداد صفر ہے۔ یہ پیکیج تاریخ کا سب سے بڑا ہے۔ اس سے اسرائیلی اپنے بیشتر لڑاکا طیاروں کو اپ گریڈ کرے گا (ایف 16 کو ایف 35 سے بدلے گا) اپنی زمینی فوجوں کی نقل و حرکت کو بہتر بنائے گا اور اپنے میزائلی نظام کو مضبوط کرے گا۔ اب اس کی نظریں فلسطینیوں پر نہیں‘ ایران پر ہیں‘ جسے وہ دشمن سمجھتا ہے۔ امریکہ ہر سال 500 ڈالر فی کس اسرائیل کو دیتا رہا ہے‘ جو اس کے بیرونی امداد کے بجٹ کے پانچویں حصے کے برابر ہے۔ ٹرمپ کی صاحبزادی ایونکا بھی نیو یارک سے واشنگٹن منتقل ہو رہی ہیں۔ انہوں نے جیرڈکشنر سے شادی کرنے سے پہلے یہودی مذہب اختیار کر لیا تھا‘ اور اب ان کے تین بچے ہیں۔ ایک بچے کو یہودی سکول میں داخل کرائیں گی‘ اور میاں بیوی صدر ٹرمپ کے غیر سرکاری مشیر ہوں گے؛ تاہم انہیں اس بات کو یقینی بنانا ہو گا کہ خدمتِ عامہ‘ صدر تک رسائی اور اثر و رسوخ ''برائے فروخت‘‘ نہیں۔ 
کیا ڈونلڈ ٹرمپ کے وائٹ ہاؤس جانے کے بعد اسرائیل سے فلسطینیوں کا کوئی سمجھوتہ ہو سکتا ہے؟ یہ سوال یروشلم میں ایک قانون ساز ییر لیپڈ Yair Lapid سے پوچھا گیا تو ٹیلی وژن کے سابق صحافی اور ایک سابق وفاقی وزیر کے فرزند نے جواب دیا: میرے خیال میں اس بات کا قوی امکان ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ فلسطینی ہیئت حاکمہ اور صدر (محمود) عباس کی بنیادی حکمتِ عملی ڈھے چکی ہے۔ کچھ عرصے سے وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ اسرائیل سے بات کرنے کی کوئی ضرورت نہیں‘ اور یہ کہ ہمیں اسرائیل پر بین الاقوامی دباؤ سخت سے سخت تر کرنا چاہیے‘ مگر نئی امریکی انتظامیہ یہ اعلان کر چکی ہے کہ ان کے لئے یہ حکمتِ عملی سود مند نہیں ہو گی‘ اور میں یہ خیال کرتا ہوں کہ اگر اسرائیل اب مذاکرات کی میز واپس جانا چاہے تو وہ طاقت کی ایک دلچسپ پوزیشن سے ایسا کرے گا جو اسے حالیہ برسوں میں میسر نہیں آئی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ایک نئے تصور پر زور دے رہا ہے۔ وہ ایک ایسی علاقائی کانفرنس کا انعقاد چاہتے ہیں جس میں مصر‘ اردن‘ سعودی عرب اور باقی خلیجی ریاستیں شریک ہوں۔ ''بات غزہ سے شروع کی جا سکتی ہے۔ علاقائی کرداروں کی موجودگی میں ہمیں حماس سے گفتگو کی ضرورت نہیں ہو گی۔ پھر غزہ میں کوئی یہودی آبادی نہیں۔ کوئی مقدس مقام نہیں۔ اگر ہم غزہ سے شروع کریں تو ہم سب کی جیت ہو گی۔ میرے خیال میں سارے علاقے کو ترقی دیکھنے کی ضرورت ہے‘‘۔
لیپڈ واحد اسرائیلی ہیں جو اگلے الیکشن میں نیتن یاہو کو چیلنج کر سکتے ہیں۔ گھریلو معاملات میں وہ میانہ رو ہیں اور ان کا پیغام Centrist ہے مگر فلسطینیوں پر ان کا موقف سخت ہے۔ ٹرمپ بیت المقدس میں‘ جسے فلسطینی اپنا دارالحکومت کہتے ہیں‘ نئی اسرائیلی بستیاں بسانے کے لئے چندہ دیتے رہے ہیں۔ امریکہ ان بستیوں کو خلافِ قانون کہتا ہے۔ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق وہ بیت المقدس کو بھی اسرائیل کا دارالخلافہ ماننے کے لئے تیار نہیں۔ ٹرمپ کہتے ہیں کہ پہلے سو دن کے اندر وہ امریکی سفارت خانہ مضافاتی تل ابیب سے یروشلم پہنچائیں گے۔
دوسرا عہدیدار‘ جس سے پاکستان‘ بالخصوص فوج کو سامنا ہو گا‘ جیمز میٹس (James Mattis) ہیں‘ جو میرین فوج میں جرنیل تھے تو ''پاگل کتا‘‘ کہلاتے تھے (کتا یہاں امریکہ میں ناپاک نہیں سمجھا جاتا)۔ وہ افغانستان میں کام کر چکے ہیں اور اس حیثیت سے پاکستان آتے جاتے رہے ہیں۔ اس لحاظ سے وہ ہمارے نئے آرمی چیف قمر جاوید باجوہ سے واقف ہیں۔ جو خلا قومی سلامتی کے مشیر لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) مائیکل لین کی بے خبری سے پیدا ہو گا‘ نئے وزیر دفاع اسے پْر کر سکیں گے۔ وہ ایران کے بارے میں سرکاری امریکی موقف کے خلاف ہیں‘ جس کے تحت تہران کو ایٹم بم بنانے سے روکا گیا‘ اور جس کی رو سے دنیا کو دس سال کے لئے امن کی ضمانت ملی۔ باس کی طرح وہ بھی چاہیں گے کہ معاہدے پر نظرثانی کی جائے۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی کا بینہ کے لئے بہت سے ارب پتی اکٹھے کر لئے ہیں کیونکہ ان کی طرح وہ بھی پیسہ بنانا جانتے ہیں جبکہ حکومتیں کم آمدنی والے یا تہی دست لوگوں کے لئے معرض وجود میں آتی ہیں۔ ایک مثال پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف کی ہے۔ وہ جب بھی کسی ترقیاتی منصوبے کا افتتاح کرتے ہیں ''عوام‘‘ کا نام لینا نہیں بھولتے۔ امریکی لوگ ''عظمت‘‘ کے لئے جمع ہوئے ہیں۔ کوئی واقعہ رونما ہو گا تو وہ استعفا دے گھر چلے جائیں گے۔ یوں بھی ان کی مدتِ ملازمت چار سال ہے۔ پاکستان میں حادثہ کتنا بھی بڑا ہو‘ وزیر یا ذمہ دار عہدیدار استعفا کی بات ہی نہیں کرتا۔ ملک میں ہزاروں طوفان آئے اور مالیاتی بحران پیدا ہوئے مگر ذہن میں ایک ہی سیاستدان آتا ہے‘ جس نے ذاتی وجوہ کی بنا پر استعفا دیا۔ وہ میاں محمود علی قصوری تھے۔ ایک دن وہ اپنے باس ذوالفقار علی بھٹو کے دفتر میں گئے اور ان کی خدمت میں استعفا پیش کرکے بولے: سر اس تنخواہ میں گزارا نہیں ہوتا‘ اور سر نے جواب دیا: قانون کے تحت اس سے زیادہ آپ کو مل بھی نہیں سکتا۔ کاش وہ بعد کے ادوار میں وزیر ہوتے جب عہدیدار اپنے اختیارات بیچ دیتے تھے‘ اور مسٹر ٹین پرسنٹ اور بیرون ملک سکنی جائدادوں کے بے نامی مالک کہلاتے تھے‘ اور ایک دوسرے کا دفاع کرتے تھے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں