نائب صدر کی غریبی

اچھا ہوا کہ جوزف بائڈن کی ٹرم ختم ہو گئی۔ ارب پتیوں کی اس محفل میں غریبوں کا بھلا کیا کام؟ صدر اوباما کے پاس یہی ہتھیار باقی تھا‘ جس سے انہوں نے نائب صدر کو سول سروس کا سب سے بڑا اعزاز دے دیا‘ مگر اس دوران یہ خبر آئی کہ نائب صدر بائڈن بڑے غریب سرکاری ملازم تھے۔ اتنے غریب کہ اپنے سب سے بڑے بیٹے کا علاج نہ کرا سکے اور سرطان کا یہ مریض ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مر گیا۔ وہ بھی سر کاری ملازم تھا اور اپنی آبائی ریاست ڈیلاویر میں قانون کی پاسداری کرتا تھا۔ پتہ چلا کہ بو بائڈن Beau Biden))کینسر میں مبتلا ہے اور اس کے پاس اتنے پیسے نہیں کہ اپنا علاج کرا سکے۔ اس نے باپ سے ذکر کیا تو نائب صدر نے سر کھجاتے ہوئے جواب دیا کہ اتنے پیسے تو ان کے پاس بھی نہیں مگر وہ صاحبزادے کے علاج معالجے کی خاطر اپنا گھر بیچ دیں گے۔ دوسری ماں جل نے‘ جو پی ایچ ڈی ہیں‘ بھی میڈیکل بل میں حصہ ڈالنے سے معذرت چاہی۔ نائب نے صدر سے تذکرہ کیا تو اوباما نے دماغ پر زور دیتے ہوئے کہا کہ درس و تدریس اور قانون کی پریکٹس سے کچھ رقم بچا رکھی ہے‘ وہ نائب صدر کو ادھار دے دیں گے‘ اور وہ اس سے فرزند ارجمند کا علاج کرا سکیں گے۔ اتنے میں بو بائڈن چل بسے۔
نئے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ''کیپیٹل‘‘ کی مغربی سیڑھیوں پر اپنے افتتاح کی تقریب سجائی۔ اس میں ٹرمپ کی طرح ارب پتیوں کی اکثریت تھی‘ جن میں سے بعض نے سیکرٹریوں (وزیروں) کی حیثیت سے حلف بھی اٹھایا۔ امریکہ صدر اور نائب صدر کو سرکاری رہائش گاہیں مہیا کرتا ہے‘ جو وائٹ ہاؤس اور نیول ہاؤس کہلاتی ہیں‘ اور دونوں میں فاصلہ کوئی تین میل کا ہے۔ باقی تمام وزیر کرائے کے مکانوں میں رہائش اختیار کرتے ہیں۔ آٹھ سال نائب صدر اور پینتیس سال کانگرس میں ایک ڈیموکریٹ کی حیثیت سے کام کرنے کے باوجود جو بائڈن اتنے ڈالر نہ بنا سکے کہ اپنے بیٹے کے علاج معالجے پر صرف کر سکتے۔ ان کو سینیٹ میں اپنی ننھی سی ریاست کی‘ جو واشنگٹن سے نیو یارک جائیں تو دس منٹ میں لپیٹی جا سکتی ہے‘ خدمت کا شوق تھا اور کئی بار وہ خارجہ معاملات کی سٹینڈنگ کمیٹی کے چیئرمین بھی رہے۔ ان کا مشاہرہ دوسرے سینیٹروں کے برابر تھا۔ وہ سیراکیوس یونیورسٹی (نیو یارک) کے گریجویٹ تھے جہاں سے بل کلنٹن‘ جارج بش اور کئی دوسرے صدور نے تعلیم پائی تھی۔ وہ کام کی ابتدا ایک اہم گھریلو مسئلے سے کریں گے اور '' اوباما کیئر‘‘ کو منسوخ کرا کے ''سب باشندوں کی صحت کا بیمہ‘‘ مہیا کریں گے۔
صدر ٹرمپ منہ پھٹ واقع ہوئے ہیں۔ اس بات کی تصدیق سی آئی اے کے سابق سربراہ جان برینن نے بھی کر دی ہے۔ انہوں نے اپنی انتخابی مہم کا آغاز کھلی بیباکی سے کیا تھا۔ پیرس اور کیلے فورنیا میں گولی چلنے کے واقعات کے بعد ٹرمپ نے تجویز کیا کہ ان کے اقتدار میں امریکہ میں مسلمانوں کے داخلے پر مشروط پابندی ہو گی۔ پھر انہوں نے جنوبی امریکہ بالخصوص میکسیکو کے لوگوں کو ان ملکوں کی حدود میں رکھنے کی تجاویز پیش کیں جن میں ایک خیالی دیوار کی تعمیر بھی شامل تھی۔ کچھ دنوں بعد انہوں نے نیٹو اور یورپی یونین کے وجود پر نکتہ چینی کی اور اسرائیل کے دارالحکومت کو تل ابیب سے یروشلم منتقل کرنے میں امداد کا ارادہ ظاہر کیا۔ اکثر وہ اپنے خیالات کا اظہار ٹویٹر پر کرتے ہیں۔ برینن نے کہا: معاملہ ٹرمپ کا نہیں امریکہ کا ہے۔ معاشرتی رابطے پر قومی اہمیت کے بیانات جاری نہیں کئے جاتے۔ الیکشن کے بعد نہ صرف قوم بٹ چکی ہے بلکہ یورپ‘ پہلی بار امریکہ کے بغیر زندہ رہنے کے بارے میں سوچ رہا ہے۔
پاکستان میں ایک خاتون کے مرنے کے بعد کینسر ہسپتالوں کی بنیاد پڑی اور اس میں مرحومہ شوکت خانم کے نامور فرزند عمران خان نے نمایاں حصہ لیا۔ آج لاہور اور پشاور میں شوکت خانم ہسپتال کامیابی سے کام کر رہے ہیں اور غریبوں کو علاج معالجے کی مفت سہولتیں مہیا کرتے ہیں۔ کراچی میں بھی ایسے ایک ہسپتال اور ریسرچ سنٹر کی بنیاد رکھ دی گئی ہے۔ امریکہ میں ہر بڑے ہسپتال میں اونکالوجی وارڈ کام کرتے ہیں‘ جہاں علاج کے انتظامات موجود ہیں‘ جن کے خطیر اخراجات مریض اٹھاتے ہیں یا ان کی انشورنس کمپنیاں۔ بعض اوقات ہسپتال کے بل سے بیمے کی رقم کم ہوتی ہے۔ یہ فرق مریض برداشت کرتا ہے۔ جواں سال بائڈن کی گرہ میں یہ رقم بھی نہیں تھی۔
امریکہ میں ہر سال ایک لاکھ ساٹھ ہزار افراد پھیپھڑے کے سرطان سے مرتے ہیں۔ بو بائڈن اسی کینسر میں مبتلا تھے۔ بیشتر ہسپتال چندے میں اپنا حصہ وصول کرتے ہیں۔ دل کی بیماریوں کے بعد نجی سطح پر کینسر سوسائٹی کی بنیا د پڑ گئی تھی‘ جو لوگوں سے چندہ جمع کرتی ہیں اور حصہ رسدی ریسرچ ہسپتالوں کو دیتی ہیں۔ ان سوسائٹیوں اور ہسپتالوں کا انتظام میڈیکل ڈاکٹروں کے ہاتھ میں ہے‘ جو نئی گرانٹ دینے سے پہلے تحقیقات کے نتائج مانگتے ہیں۔ بیشتر مریضوں کی تشخیص مرض کے آخری دنوں میں ہو پاتی ہے اور اذیت ناک کیموتھراپی کے بعد بھی ان کا علاج معالجہ دشوار ہوتا ہے۔ آدھے سے زیادہ بیمار ایک سال کی مدت میں رحلت کر جاتے ہیں۔ پھیپھڑوں کے سرطان کی تحقیقات میں سائنسدان قدم بقدم آگے بڑھ رہے ہیں۔ تحقیقات کرنے والے بتاتے ہیں کہ سابق صدر جمی کارٹر کے خون کے سرطان کے کامیاب علاج کے بعد امیون تھراپی کی نئی دوا (Keytruda) لاکھوں دوسرے مریضوں کو بھی شفا دے سکتی ہے۔ سابق صدر نے ایک ''الوداعی‘‘ پریس کانفرنس سے خطاب بھی کر ڈالا تھا۔ گویا آج کل کی دوائیں‘ کیمو سے زیادہ بہتر انداز میں کام کرتی ہیں۔
سائنسدان کہتے ہیں کہ امیون تھراپی سے تمباکو نوش یا سابق سگریٹ نوش زیادہ استفادہ کرتے ہیں بہ نسبت غیر تمباکو نوشوں کے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ سگریٹ ان کے سیل میں بہت زیادہ میوٹیشن (نوعی تبدل) پیدا کرتے ہیں‘ جو امیون سسٹم کے لئے ان سے مقابلہ کرنا آسان کر دیتے ہیں۔ بو کسی زمانے میں سگریٹ پیتے تھے مگر اب چھوڑ چکے تھے۔ کیٹروڈا کی آزمائش میں ایسے تین سو افراد شامل کئے گئے جن کی بیماری بہت بڑھ چکی تھی مگر ان میں زیادہ خطرے کی میوٹیشن نہیں تھی۔ امریکہ میں سالانہ دو لاکھ بیس ہزار سے زیادہ افراد کو پھیپھڑے کا کینسر لاحق ہوتا ہے اور تقریباً ایک لاکھ اٹھاون ہزار اس بیماری سے مر جاتے ہیں۔ عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ دنیا میں دس لاکھ ساٹھ ہزار افراد پھیپھڑے کے سرطان سے مرتے ہیں۔ پاکستانیوں کو اس کہانی سے کیا سبق ملتا ہے؟ اگر آپ سرکاری ملازم ہیں تو ٹھیکوں میں کمشن لینے کی کوشش نہ کریں بلکہ اسی تنخواہ پر گزارا کریں‘ خواہ ایک یا دو جانوں کی قربانی ہی کیوں نہ دینا پڑے۔ سگریٹ نوشی ترک کیجیے یا ان برسوں پر پریشان رہیے جن میں آپ سگریٹ پیتے تھے۔ اگر آپ کو لنگ کینسر ہو تو ہسپتال جائیں اور جدید دواؤں کا مطالبہ کریں۔ اگر آپ صاحبِ نصاب ہیں تو ریسرچ کے اداروں کی حوصلہ افزائی کریں اور اگر آپ کے ہاں ایسے ادارے نایاب یا کمیاب ہوں تو ان کی تشکیل میں ہاتھ بٹائیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں