غیر قانونی تارکینِ وطن

پرنس ولیم کاؤنٹی میں ہمارے گھر سے کوئی دو میل دْور ایک سیون الیون ہے۔ روٹ ون کے آس پاس رہنے والے بیشتر لاطینو ہر صبح اس کارنر سٹورکے گرد جمع ہو جاتے ہیں۔ کوئی کافی لیتا ہے۔ کوئی پیزا کھاتا ہے اور کوئی کھلونے خریدتا ہے‘ اور جنوبی امریکہ کے کسی ملک میں اپنے بچوں کو بھیجنے کی امید کرتا ہے۔ یہ سب دیہاڑی دار ہیں۔ ایک مالک مکان اپنی موٹر میں آتا ہے، مزدور اس کی طرف بڑھتے ہیں اور وہ ان میں سے دو ایک کو چھانٹ کر اپنے ساتھ لے جاتا ہے۔ کارکن‘ مالک کی چھت بناتا ہے‘ اس کے گھر کی چاردیواری کی مرمت کرتا ہے‘ اس کی کھڑکیاں بدلتا ہے اور آٹھ گھنٹے کا محنتانہ وصول کرنے کے بعدچل دیتا ہے۔ دیہاڑی دار مزدوروں کے ایسے چھوٹے بڑے غیر سرکاری مراکز ہر گلی کوچے میں واقع ہیں اور دوسرے شہروں میں بھی ہوں گے مگر جب سے ڈونلڈ ٹرمپ نے تارکین وطن کو جرائم پیشہ قرار دے کر اپنی صدارتی مہم کا آغاز کیا ہے‘ ان ٹھکانوں کی رونق ماند پڑ گئی ہیں۔
صدر ٹرمپ نے غیر قانونی امی گرینٹس کی پکڑ دھکڑ کی جو وارننگ دی تھی اس کا اثر عظیم تر واشنگٹن میں دکھائی دے رہا ہے اور اس کے لئے لوگ ‘ امی گریشن انفورسمنٹ ایجنسی (ICE ) کے ان متعصب کارکنوں کے شکر گزار ہیں جو غیر قانونی تارکین وطن پر جھپٹنے کے لئے '' اوپری‘‘ اشارے کے منتظر رہتے ہیں۔ اب بہت کم لوگ خواہ وہ قانونی طور پر اس ملک میں مقیم ہوں ان سٹوروں اور شاپنگ سنٹروں کا رخ کرتے ہیں جو ایک مہینہ پہلے ان کے دم قدم سے آباد و شاد تھے۔ نتیجہ: اس علاقے کی اکو نو می یا پیداوار اورخدمات ویران ہیں۔ جو اس ملک کے شہری ہیں یا گرین کارڈ پر ہیں وہ شادی غمی یا وا لدین سے ملنے کے لئے آبائی وطن جانے سے گھبراتے ہیں‘ مبادا واپسی کے لئے دشواریاں پیدا ہوں۔ امریکی ہیرو کے فرزند محمد علی جونیئر سے جمیکا سے واپس آتے ہوئے جو سلوک روا رکھا گیا‘ وہ سب کے سامنے ہیں۔
گورنر نے‘ جو ڈیمو کریٹ ہیں‘ تارکین وطن سے یک جہتی کے اظہار کے لئے جس سٹور کا انتخاب کیا وہ سیون الیون یا لاطینو دکان نہیں بلکہ ایک پاکستانی کا سٹور تھا‘ جو قانونی ہے۔ ثاقب چوہدری اور اس کا خاندان شمالی ورجینیا میں ایسے سٹوروں کے ایک سلسلے کے مالک ہیں۔ اس نے بتایا کہ وہ ایک اور سٹور کھولنے والے تھے مگر نئے صدر کا حکم آنے پر ملتوی کر دیا۔ گورنر صاحب بولے'' کا روبار بہت مندا ہے۔ذرا دیکھو تو‘‘۔ ڈیموکریٹک پارٹی نے ایک لاطینو اور ایک مسلمان کو جماعت کے دونوں بڑے عہدوں پر فائز کر دیا ہے۔ وہ دونوں کانگرس کے رکن ہیں۔ ثاقب کی دکان پر لاطینو کم آتے ہیں مگر میکسیکو کا ایک شہری وہاں موجود تھا جو ترکھان ہے اور کا م کاج کی تلاش میں اس طرف نکل آیا تھا۔ ہولیو امنزر نے‘ جو خودقانونی طور پر مقیم ہے‘ کہا:حالت بڑی خراب ہے اور لوگ سہمے ہوئے ہیں۔ بعض بالغ انگریزی زبان کی کلا سوں میں نہیں جاتے اور بعض نے آئس (ICE ) کے ڈر سے اپنے بچوں کو سکول سے اٹھا لیا ہے حالانکہ یہ بچے امریکہ میں پیدا ہوئے تھے۔ان سے متعلق یا ان کے غیر قانونی والدین کی حفاظت کی پالیسی اوبا ما کے دور سے چلی آ رہی ہے۔
امی گریشن(ترک وطن یا نقل مکانی) کی اصطلا حات یا ان کے اردو ترجمے بکثرت آ رہے ہیں۔ کیوں نہ پاکستانی قارئین کو‘ جو اس عمل سے نہیں گزرے یا گزرنے والے ہیں‘ ان مصطلحات کے معنی بتا دوں جو میری سمجھ میں آ تے ہیں۔ وزٹ ویزا: عارضی طور پر امریکہ آنے والوں کو یہی ویزا دیا جاتا ہے خواہ وہ H-1B کام کا اجازت نامہ ہو یا کانگرشنل فیلو شپ۔ سیر و سیاحت کا ویزا دستیاب ہے مگر ویزا افسر کو پتہ ہوتا ہے کہ امیدوار امریکہ میں ہوٹل اور کھانے پینے کے اخراجات برداشت کر سکتا ہے یا نہیں۔ ویزا افسر کا فیصلہ آ خری ہو تا ہے۔ جو '' خوش نصیب‘‘ امریکہ میں لا پتہ ہو جاتا ہے وہ مستقل رہائش (گرین کارڈ) کے لئے درخواست کر سکتا ہے۔ اکثر لوگ گرین کارڈ پر رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اگر کوئی شہریت (citizenship) کی درخواست دینا چا ہے تو اسے کم سے کم دس سال انتظار کرنا ہو گا۔ پاکستانی چونکہ ہوائی جہازوں میں امریکہ آتے ہیں اس لئے گمشدگی کی صورت میں ان کا پتہ لگانا آسان ہوتا ہے۔ان کی تعداد لاطینو کے مقابلے میں کچھ نہیں جو بسوںاور ریل گاڑیوں میں سفر کرتے ہیں اور بعض اوقات پیدل چل کر اس ملک میں داخل ہوتے ہیں۔ تفصیل کے لئے سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی ویب سائٹ دیکھئے یا فارم بھروانے کے لئے کسی واقف کار یا اٹارنی (وکیل ) سے رجوع کیجئے گا۔
لاطینی یا ہسپانوی زبان بولنے والوں کی تعداد ایک کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے۔ حکومت اور اکثر اوقات ان سے ہمدردی رکھنے والے ذرائع ابلاغ انہیں سفری دستاویز کے بغیر immigrants undocumentedکہتے ہیں۔ یہ لوگ زیا دہ تر غیر قانونی ہیں اورہیٹی‘ ونیز ویلا‘ کولمبیا‘ گوئٹے مالا‘ بولیویا‘ پیرو اور یوراگوئے سے آتے ہیں۔ وہ اب تک امریکہ کو آباد کا روں کی جنت خیال کرتے ہیں۔ انہیں نہیں معلوم کہ نیو یارک کی بندرگاہ پر ایلس آئی لینڈ اب ایک عجائب گھر کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ امریکہ کے کچھ قوانین ہیں جو ویزا کے بغیر سرحد پار کرنے کی ممانعت کرتے ہیں۔ کون سی سرحد؟ قبائلیوں کی طرح وہ اس ڈیورنڈ لائن کو نہیں مانتے۔ روز گار کی تلاش میں ادھر اْدھر جانا وہ اپنا حق سمجھتے ہیں۔ ان میں چند ایک جرائم پیشہ بھی ہیں جو ٹرمپ کے نشانے پر ہیں۔ جنوبی ایشیا کے لوگ خواہ مخواہ ان جرائم پیشہ افراد کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں جیسا کہ جنوبی ہند سے آئے ہوئے ایک سافٹ ویئر انجینئر کے ساتھ ہوا ۔ کسی نے '' نفرت‘‘ کے ساتھ اسے کینسس کی ایک کلب میں گولی ماری اور مار ڈالا۔
ثاقب چوہدری کے سٹوروں کی خصوصیت حلال گوشت ہے مگر جو چند لاطینو ان دکانوں کا رخ کرتے ہیں انہیں گوشت کی حلت اور حرمت کے فرق کا کیا پتہ‘ وہ گروسری خریدنے کے بعد گوشت کے کاؤنٹروں کی طرف بڑھتے ہیں اور بکرے کی بوٹیاں یا چکن لے کر چل دیتے ہیں۔ وہ خشخا ش کا پیسٹ‘ آم کا جوس اور باسمتی کے تھیلے بھی خریدتے ہیں۔
آئس (ICE )نے ان ہفتوں کے دوران ہزاروں افراد کو غیرقانونی طور پر امریکہ میں رہائش اختیار کرنے اور چھوٹے موٹے کام دھندے اپنانے پر گرفتار کیا ہے۔ ان میں اس سیون الیون پر اکٹھے ہونے والے لاطینو بھی تھے۔ ٹرمپ کا حکم نامہ کہ جرائم پیشہ لوگوں کے علاوہ غیر قانونی تا رکین کو کس طرح ہدف بنایا جائے متعصب اور جوشیلے اہل کاروں کے کام آ رہا ہے۔واشنگٹن کے علاقے اور باقی ملک میں تارکین وطن میں پریشانی کی لہر اسی حکم نے دوڑائی ہیں۔ ٹرمپ نے مسلم اکثریت کے ملکوں سے امریکہ آنے پر پابندی کا حکم نامہ دوبارہ جاری کیا ہے۔ عراق کو نکال دیا گیا ہے۔ اب یہ حکم ایسے ملکوں پر محیط ہے جو متحارب ہیں یا زیر قبضہ‘ پاکستان‘ سعودی عرب‘ مصراور افغانستان ان میں شامل نہیں مگر ایران ہے۔اس حکم نامے کو قانونی چیلنج کرنے والوں کی بھی کمی نہیں۔ علاوہ ازیں پناہ گزینوں کا پروگرام معطل کر دیا گیا ہے۔ امریکہ سال میں پچاس ہزار سے زیادہ لوگوں کو بسانے کا ذمہ دار نہ ہوگا۔ اوباما نے یہ تعداد ایک لاکھ دس ہزار رکھی تھی۔
ایڈون‘ جو گوئٹے مالا کا رہنے والا ہے‘ آئس کے ڈر کے مارے اپنا آخری نام بتانے سے انکار کرتا ہے مگر بیس سال سے باس ملک میں پڑا ہے اور چھوٹی موٹی نو کری کے لئے اپنی کوشش جاری رکھے گا۔ وہ اس خیال کا حامی ہے کہ امریکی معیشت اْس جیسے لوگوں پر انحصار کرتی ہے۔ جب سے صدر ٹرمپ نے سخت گیر پالیسی کا تاثر عام کیا ہے روزانہ پانچ سو افراد صرف میکسیکو سٹی جانے والے ہوائی جہازوں پر ڈالے جارہے اور ان میں سے کئی اپنے بچوں اور ملازمتوں کو پیچھے چھوڑ کر ملک بدر deport کئے گئے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں