23 مئی کی شام ایک نجی ٹی وی چینل پر بار بار ایک آڈیو اور ویڈیو کلپ ''بریکنگ نیوز‘‘ کے طور پر چلائی گئی جس میں ایک مرد اور ایک عورت کی باہمی گفتگو سنائی گئی۔ جلد ہی چینل کے بعد یہ ویڈیو اور آڈیو سوشل میڈیا پر پھیل گئی۔ ''نیوز ون‘‘ نے نشاندہی کی کہ اس کلپ میں مردانہ آواز چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال کی ہے۔ اس خبر سے سبھی کو دھچکا لگا اور نیب کے کرپشن پر بنائے گئے مقدمات کا سامنا کرنے والوں کی باچھیں کھل گئیں۔
قومی اسمبلی میں مسلم لیگ ن کے رہنما خواجہ آصف نے ایک بار پھر سفید جھوٹ بولنے کی اپنی مہارت ثابت کی‘ اور الزام عائد کیا کہ نیوز ون میں تحریک انصاف کے رہنما جہانگیر ترین شراکت دار ہیں‘ اور حکمران جماعت نے نیب کے زیر تفتیش اپنے لوگوں کو بچانے کے لیے اس ادارے کے سربراہ کو بلیک میل کرنے کا منصوبہ بنایا۔ جارحیت کو بہترین دفاع کہا جاتا ہے لیکن خواجہ آصف نے ماضی کے مقابلے میں زیادہ ہی تلخ لہجہ اپنایا۔
ٹی وی چینلز پر اس سے متعلق بحث سے قطع نظر ان ٹیپس کے منظر عام پر لانے کے پیچھے، کسی بھی قیمت پر، چیئرمین نیب کو ان کے عہدے سے ہٹانے کے مذموم عزائم واضح نظر آتے ہیں۔ حقائق کو مسخ کرنا، جعلی اور گمراہ کن خبریں پھیلانا ہائبرڈ وارفیئر کے حربے ہیں‘ جو چیئرمین نیب کو بدنام کرنے کے لیے بھی استعمال کیے گئے۔ نیب نے ویڈیو کو جعلی قرار دیا اور اسے بلیک میلر گروہ کے خلاف احتساب کو روکنے کی کوشش سے تعبیر کیا۔ نیب اس گروہ کے خلاف 42 ایف آئی آر درج کروا چکا ہے‘ اور اس کے دو کارندوں کے خلاف ریفرنس بھی دائر کر دیا گیا ہے۔
ظاہر ہے کہ آنے والے دنوں میں ان معاملات پر مزید پیش رفت ہو گی اور اس کے نتیجے میں حقائق سامنے آئیں گے تو صورتحال واضح تر ہوتی چلی جائے گی۔ الجھی ہوئی گتھیاں سلجھتی چلی جائیں گی۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ اس معاملے کو سنجیدگی سے لیا جائے اور اس کی جامع تحقیقات کی جائیں‘ تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو سکے۔
اس مہم جوئی میں اگلا قدم کیا ہونا چاہیے؟ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی اس سوال کے جواب میں پر یکسو نہیں ہیں۔ چیئرمین نیب کو نرغے میں لینے کے لیے پیپلز پارٹی سرگرمی دکھا رہی ہے اور پیش پیش ہے جب کہ مسلم لیگ ن کے بارے میں محسوس ہوتا ہے کہ وہ ابھی کوئی فیصلہ نہیں کر پائی ہے اور 'دیکھو اور انتظار کرو‘ کی پالیسی اپنائے ہوئے ہے اور تماشے میں کوئی نیا رنگ بھرنے کے لیے جلتی پر تیل ڈال رہی ہے۔ پیشہ ورانہ صحافتی آداب کو پس پشت ڈال کر میڈیا کے بعض حصوں نے اس قدر اناڑی پن کا مظاہرہ کیا ہے کہ کسی تحقیق یا ثبوت فراہم کرنے کی زحمت اٹھائے بغیر اس سکینڈل کے ڈانڈے ''وزیر اعظم آفس‘‘ سے جا ملائے۔ کیا کسی نے ان مشتبہ خاتون سے یہ سوال کیا کہ آپ نے کس مقصد کے تحت پہلے یہ ویڈیو اور آڈیو ریکارڈ کیں اور پھر کیوں انہیں ایک چینل کے حوالے کر دیا؟ اسی طرح کے اور بھی بہت سے سوالات ہیں‘ جن کے جواب تلاش کرنا اس معاملے میں پائے جانے والے ابہام کو ختم کرنے کے لیے ضروری ہے۔
''ہنی ٹریپ‘‘ صرف کہانی کی بات نہیں، بلیک میلر ذاتی، سیاسی یا مالی مفاد حاصل کرنے کے لیے رومان یا جنسی تعلقات کے ذریعے ہدف کو رجھانے کی یہ تکنیک نہ جانے کب سے استعمال کرتے چلے آ رہے ہیں۔ تاریخ پر نظر ڈالیں تو بالخصوص جاسوسی کے لیے یہ پینترا بارہا استعمال ہوا اور آج بھی ہوتا ہے۔ اس مقصد کے لیے حصول کے لیے پہلے تعلقات بنائے جاتے ہیں اور پھر اس سے متعلق کوئی معلومات یا تصاویر بدنام کرنے کے لیے استعمال ہوتی ہیں۔ کرسٹائن کیلر اور جون پرفمو کا معاملہ یاد کیجیے۔ پرفمو برطانیہ کے سیکرٹری دفاع اور وزارتِ عظمیٰ کے لیے موزوں ترین افراد میں شمار ہوتے تھے، لیکن انہیں راستے سے ہٹانے کے لیے یہ سکینڈل سامنے لایا گیا اور بعد میں معلوم ہوا کہ کیلر کے جی بی کے ایک ایجنٹ کی داشتہ بھی تھی۔ 2009ء میں برطانوی خفیہ ادارے ایم آئی سکس نے برطانوی بینکوں، کاروباری حلقوں اور مالیاتی اداروں کو ''چینی جاسوسی کا خطرہ‘‘ کے عنوان سے ایک دستاویز ارسال کی، جس میں چینیوں کی جانب سے مغربی دنیا کی کاروباری شخصیات کو جنسی تعلقات کے سکینڈلز کے ذریعے بلیک میل کرنے سے متعلق تفصیلات فراہم کی گئی تھیں۔ اس رپورٹ میں الزام عائد کیا گیا کہ تھا چینی انٹیلی جنس اپنے مطلوبہ نتائج کے لیے اہم افراد کو ''دیرینہ تعلقات‘‘ اور ''جنسی تعلقات جیسی کمزوریوں‘‘ سے بلیک میل کر کے تعاون پر مجبور کرتی ہے۔
ایسے چند معروف کیسز میں پہلی مثال آپریشن مڈ نائٹ کلائمیکس کی ہے۔ اس میں سی آئی اے نے تحقیقات کے لیے سان فرانسسکو میں پہلے جسم فروشی کے جعلی اڈے قائم کیے اور منشیات کا استعمال کیا۔ اڈوں کا سہارا اس لیے لیا کہ وہاں منشیات کا استعمال کرنے پر پولیس کو اطلاعات کے امکانات بہت کم ہوتے ہیں۔ دوسری مثال سیلون کٹی کی ہے، دوسری عالمی جنگ میں برلن میں اس جسم فروشی کے اڈّے کو جاسوسی کے لیے استعمال کیا گیا تھا۔ تاریخ کو کھنگالیں تو ایسی اور کئی مثالیں تلاش کی جا سکتی ہیں‘ جن میں کسی کی جاسوسی کے لیے کسی دوسرے فرد کو استعمال کیا گیا۔
نیب اور اس کے چیئرمین کا وقار مجروح ہونے سے بچانے اور اس ادارے کی احتساب کے لیے کی گئی کوششوں کا بھرم قائم رکھنے کے لیے اس معاملے کی مکمل تحقیقات ہونی چاہئیں۔ فرانزک آڈٹ اور آواز کی ریکارڈنگ کے فرانزک جائزے ہی سے معلوم ہو سکتا ہے کہ یہ ٹیپس جعلی ہیں یا اصلی۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو یہ ان عناصر کے ہاتھ مضبوط کرنے کے مترادف ہو گا جو احتساب سے فرار کے لیے سر توڑ کوششوں میں مصروف ہیں۔
ہرولڈ روبنز نے ہالی ووڈ کے فلم سازوں پر "The Dream Merchants" (خوابوں کے سوداگر) کے عنوان سے ناول لکھا تھا۔ اس میں اس نے بتایا تھا کہ فلم اچھی ہو یا بری اسے بیچنے کے لیے فلم سازوں کو کیا پاپڑ پیلنے پڑتے ہیں اور یہ ساری تگ و دو اشتہار کاری کے شعبے سے تعلق رکھنے والے لوگ بہتر جانتے ہیں۔ ہمارے ہاں ''جھوٹ کے سوداگر‘‘ نیب کو رسوا کرنے کے لیے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کرنے پر اُتر آئے ہیں۔ نیوز ون اگرچہ چیئرمین نیب سے متعلق بد نامی کا باعث بننے والا مواد نشر کرنے پر پیمرا کے نوٹس کے جواب میں اپنی خبر سے دست بردار ہو چکا ہے اور اس حرکت پر معافی بھی مانگ لی ہے۔ لیکن کیا اس معاملے میں معافی مانگ لینا ہی کافی سمجھا جانا چاہئے؟ یاد رہے مسلم لیگ ن کے کچھ سرکردہ لوگ نواز حکومت کے دوران آئی ایس آئی کے خلاف جعلی خبریں پھیلانے کی پاداش میں برطرف کیے گئے، ان پر غداری کے الزامات عائد ہوئے اور انہیں گھر جانا پڑا۔
صرف ''سوری‘‘ کہہ دینا کافی نہیں ہوتا۔ ان سے سوال ہونا چاہیے کہ کوئی بھی ایسی خبر یا اطلاع، جس سے قومی مفاد بھی وابستہ تھا، بغیر تصدیق کے کیسے نشر کر دی گئی؟ قومی اداروں کا وقار مجروح کرنے کی ایسی کوششوں کو روکنے کے لیے مثال قائم کرنا پڑے گی۔ ہمارے اداروں کا عزت و وقار ایسے افراد کے ہاتھوں مجروح نہیں ہونے دیا جا سکتا جو اپنے مفاد کے لیے کچھ بھی کرنے سے دریغ نہیں کرتے۔
صرف ''سوری‘‘ کہہ دینا کافی نہیں ہوتا۔ ان سے سوال ہونا چاہیے کہ کوئی بھی ایسی خبر یا اطلاع، جس سے قومی مفاد بھی وابستہ تھا، بغیر تصدیق کے کیسے نشر کر دی گئی؟ قومی اداروں کا وقار مجروح کرنے کی ایسی کوششوں کو روکنے کے لیے مثال قائم کرنا پڑے گی۔