اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے جو زندگی کے تمام شعبوں میں اپنے ماننے والوں کی مکمل رہنمائی کرتا ہے ۔اسلام ایک ایسی فلاحی ریاست کے قیام پر یقین رکھتا ہے ،جس میں بسنے والے کسی بھی شہری کی جان ،مال اورعزت کو کسی قسم کا کوئی خطرہ لاحق نہ ہو ۔اسلامی معاشرے میں بسنے والی تمام اقلیتوں کو اپنی مذہبی تعلیمات اور رسومات پر عمل پیرا ہونے کی مکمل اجازت ہوتی ہے اور اُن کو مذہبی اختلافات کے باوجود تمام بنیادی حقوق حاصل ہوتے ہیں۔ کسی بھی مذہب کے پیروکار کو دینِ اسلام کی تبلیغ تو کی جاسکتی ہے اور کرنی چاہیے مگر البقرہ کی آیت 256کے مطابق ان کو قبولیتِ اسلام پر مجبور نہیں کیا جاسکتا ۔غیر مسلموں کی عبادت گاہوں کے بارے میں معاندانہ جذبات رکھنے کی بھی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں۔اللہ تعالیٰ نے سورہ حج کی آیت نمبر 40میں ارشاد فرمایا:''اگر اللہ تعالیٰ لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعے دفع نہ کرتا رہے تو خانقاہیں ،گرجے ،عبادت خانے اور مسجدیں جن میں اللہ کا نام کثرت سے لیا جاتا ہے ڈھا دی جائیں ‘‘مذکورہ آیت اس امر پر دلالت کر تی ہے کہ کسی بھی مذہب کی عبادت گاہوں کو منہدم کرنا جائز نہیں ہے اور اہل ِ اسلام کو اقلیتوں کے ساتھ رواداری کے ساتھ رہنا چاہیے۔
غیر مسلموں کے ساتھ سماجی تعلقات کی بنیاد انصاف اور عدل پرہے اور مسلمانوں کو اپنی اکثریت ،سماجی اور سیاسی حیثیت اور طاقت کا فائدہ اُٹھا کر غیر مسلموں کی حق تلفی نہیں کر نی چاہیے۔اگرکبھی مسلمان اور غیر مسلم کا کاروباری اور سماجی معاملات میں تنازع ہوجائے تو مسلمانوں کوصرف مذہبی اختلاف کی وجہ سے غیر مسلموں کے ساتھ زیادتی نہیں کرنی چاہیے۔اگر غیر مسلم اہلِ کتاب ہوں تو مسلمانوں کے معاملات ان کے ساتھ مزید بہتر ہونے چاہئیں۔سورہ مائدہ کی آیت 5میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو اہلِ کتاب کی پاک دامن عورتوں سے نکاح کرنے کی بھی اجازت دی ہے ۔اہلِ کتاب کے دسترخوان سے پاک اور حلال کھانا کھانابھی مسلمانوں کے لئے درست اور جائزہے ۔اللہ تعالیٰ نے سورہ عنکبوت کی آیت نمبر 46میں مسلمانوں کو تہذیب کے دائرے میں رہتے ہوئے اہل کتا ب سے مذہبی اختلاف کرنے کا حکم دیا ہے اور سورہ آلِ عمران کی آیت نمبر 64میں ان کو کلمہ توحید کی بنیاد پرمسلمانوں کے ساتھ اکٹھے ہونے کی دعوت دی ہے ۔ان تمام باتوں کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کو اس حقیقت سے بھی باخبر کردیا گیا ہے کہ اہلِ کتاب مسلمانوں سے اُس وقت تک راضی نہیں ہوسکتے جب تک مسلمان ان کی ملت کو اختیار نہیں کرلیتے ۔اہلِ کتاب کی اس کجروی کے باوجوداہلِ اسلام کوان سے نرمی کا برتاؤ جاری رکھنا چاہیے اور ان کو متواتر دین حق کی دعوت دیتے رہنا چاہیے۔اس تبلیغ ِ دین کے نتیجے میں مختلف ادوار میں بہت سے باشعور مسیحی اوریہودی افراد نے اسلام کی دعوت کو قبول کیا اور تاحال کر رہے ہیں ۔انگلستان میں عبدالرحیم گرین اور یوسف چیمبرز،کینیڈا میں بلال فلپس اور امریکہ میں یوسف ایسٹس کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔یہ تمام لوگ مسیحی پسِ منظر سے تعلق رکھتے تھے لیکن قرآن وحدیث کا مطالعہ کرنے بعد مشرف بہ اسلام ہو گئے۔
پاکستان کا معاشرہ اگرچہ مثالی اسلامی معاشرہ نہیں ہے اور اس میں بہت سی کمزوریاںپائی جاتی ہیں لیکن مجموعی لحاظ سے پاکستان میں اقلیتوں کے ساتھ اچھا سلوک کیا جاتا ہے ۔چند برس قبل بشپ آف لاہورڈاکٹر الیگزینڈر جان ملک سے 25دسمبرعیدکے روز اقلیتوں کے حقوق پر ایک ٹی وی مذاکرہ ہو ا تھا۔ ڈاکٹر صاحب کو گلہ تھا کہ پاکستان میں مسیحی برادری کو مکمل حقوق نہیں مل رہے ۔ اُس وقت میں نے ان کے سامنے بعض ٹھوس شواہد رکھے تھے کہ پاکستان میں اقلیتوں کو مکمل حقوق حاصل ہیں۔میں نے ان کے سامنے کچھ نکات رکھے جن کا خلاصہ کچھ یوں تھاکہ پاکستان کے انتخابات میں مسلمان مسلمانوں کے حلقہ انتخاب میں ووٹ کاسٹ کر سکتے ہیں جب کہ مسیحی برادری کے پاس ووٹ ڈالنے کا دوہراحق ہے۔وہ اپنے مخصوص نمائندوں کے حق میں بھی ووٹ استعمال کر سکتے ہیںاورعام انتخاب میں بھی ووٹ ڈال سکتے ہیں ۔مسیحی مشنری سکولوں کو اپنی تعلیمی اور تدریسی سر گرمیاں جاری رکھنے کی مکمل
آزادی ہے اور فقط لاہور شہرمیں ان کے کئی اعلیٰ معیار کے ادارے موجود ہیں ۔ان اداروں میں سینٹ انتھونی ، کیتھیڈرل،کانونٹ اور کوئین میری سکول نمایاں ہیں۔ اور ان تمام اداروں میں متمول مسلما ن گھرانوں کی ایک بڑی تعداد تعلیم حاصل کر رہی ہے ۔مسیحی برادری کے لیے سرکاری ملازمتوں کا کوٹہ بھی مقرر کیا گیا ہے اور وہ اوپن میرٹ پر بھی ملازمت کی درخواست دے سکتے ہیں ۔
اسی طرح پاکستان کے مسلمان قانونی طور پر نشہ آور اشیا ء کو استعمال نہیں کر سکتے جبکہ مسیحیوں کے پاس شراب کے پرمٹ بھی موجود ہیں ۔ڈاکٹر صاحب نے اس موقع پر کہا تھا کہ ان پرمٹوںسے مسلمانوں کی بڑی تعداد استفادہ کر رہی ہے ۔ میںنے جواباً کہا تھا کہ اگر مسیحیوں کے نام پر پرمٹ جاری نہ ہوں تو بدعمل مسلمانوں کو کبھی شراب پینے کی ہمت نہیں ہو سکتی ۔اسی طرح ایک اور معروف مسیحی رہنما کے ساتھ ہونے والے مذاکرے میں میںنے یورپ میں بعض ہوائی اڈوں پرقائم امیگریشن کاؤنٹرز پرمسلمانوں کے ساتھ ہونے والے جانبدارانہ سلوک کا تذکرہ کیاتو انہوں نے کہاکہ ایسا داڑھی اور پردے کی وجہ سے ہوتا ہے۔ میں نے جواب میں کہا تھا کہ آپ نے گرجا گھروں میںحضرت عیسیٰ علیہ السلام کے جو مجسمے اورتصاویر نصب کر رکھی ہیں وہ توداڑھی اور لمبے بالوںوالی تصاویر ہیں۔ اگر عیسیٰ علیہ السلام داڑھی اور لمبے بال رکھتے تھے تو مسیحیوں کواس مسئلے میں مسلمانوں سے اختلاف کیوں ہے۔ اسی طرح میں نے کہاکہ سیدہ مریم علیہا السلام کے مجسمے اور تصاویر کو دیکھ کر کسی مذہبی مسلمان عورت کا گمان ہوتا ہے اس لئے ہمیں داڑھی اور پردے کے بارے معاندانہ رویہ نہیں رکھنا چاہیے۔
اہل ِ اسلام اوراہلِ پاکستان کا عمومی رویہ تمام اقلیتوں اوربالخصوص مسیحیوں کے بارے میں انتہائی فراخ دلانہ ہے اورپاکستان کے سیاسی رہنما تو کئی مرتبہ ان کی حمایت میں اس حد تک آگے بڑھ جاتے ہیں کہ کئی مرتبہ بلاجواز مسلمانوں پر انتہا پسندی اور شدت پسندی کے الزامات لگانے سے بھی گریز نہیں کرتے ۔وزیراعظم پاکستان نے حال ہی میں گورنر ہاؤس میں کرسمس کیک کاٹتے ہوئے صرف اقلیتوں اور مسیحی برادری کے حقوق کے تحفظ کی یقین دہانی نہیں کروائی بلکہ اسلام کا نام لینے والوں کو بھی شدید تنقید کا نشانہ بنایاحالانکہ اس موقع پر اس طرح کے بیان کی خاص ضرورت نہیں تھی ۔
یہ درست ہے کہ مسلمانوں معاشروں میں اقلیتوں کی حق تلفی نہیں ہونی چاہیے اوران کی جان ،مال ،عزت اور عبادت گاہوں کو کسی قسم کا کوئی خطرہ لاحق نہیں ہونا چاہیے، لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ جہاں مسلمانوں کی حق تلفی ہورہی ہے وہاں ان کے حقوق کا محافظ کون بنے گا؟آج فرانس میں مسلمان عورت حجاب کے بنیادی حق سے محروم ہے ،سوئٹزرلینڈ میں مسجد کے میناروں پر پابندی عائد کی جا چکی ہے ،برما میں اسلام کے نام لیواؤں کا جینا محال کیا جا چکا ہے،فلسطین اور کشمیر میں ہزاروں کی تعداد میں عورتیں ،بوڑھے اور بچے ذبح کیے جاچکے ہیں ۔انگولامیں مساجد کی تالہ بندی کی جارہی ہے ،کئی مسیحی معاشروں میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے توہین آمیز خاکے بنائے جا چکے ہیں۔اسی طرح امریکہ میں پادری ٹیری جونز نے سرعام قرآن کریم کو آ گ لگانے کی ناپاک جسارت کی تھی ۔ ان تمام واقعات پر کیا کبھی کسی نمایاں مسیحی سیاسی اورمذہبی رہنما نے صدائے احتجاج بلند کی ؟ انگلستان مذہبی رواداری کے اعتبار سے مثالی ملک سمجھا جاتا ہے لیکن وہاں پر بھی ملکہ الزبتھ نے سلمان رُشدی جیسے شاتم رسول کو اس کی نام نہاد ادبی خدمات پر نائٹ ہڈ کا خطاب دیاتھا۔ آج مسلمانو ں کے سیاسی رہنما مسیحی برادری اور اقلیتوں کے ساتھ ہم آہنگی کے اظہار کے لیے کرسمس کیک کاٹ رہے ہیںاور کرسمس ٹری اور سانتا کلاز کی بڑی بڑی شبیہیں نصب کی جا رہی ہیں،مسیحیوں کے جان ،مال اور آبرو کے تحفظ کی یقین دہانیاں کروائی جا رہی ہیں ۔اس وقت یقینا ہمیں پُرامن اور بقائے باہمی پر مبنی معاشروں کے قیام کی ضرورت ہے لیکن مقام فکر یہ ہے کہ دنیا کے مختلف مقامات پر مسلمانوں کا استحصال کون روکے گا؟ کیا مسلمانوں کے سیاسی رہنما کبھی مسلمان اقلیتوں کے حقوق کے لئے بھی آواز اُٹھائیں گے ۔