قرآن مجید کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ فلاح کا واحد راستہ اللہ تعالیٰ کا دین‘ اسلام ہے ۔اللہ تعالیٰ نے سورہ آل عمران کی آیت نمبر 19میں واضح فرما دیا کہ ''بے شک دین اللہ کے نزدیک اسلام ہے‘‘۔اسی سورہ کی آیت نمبر 85میں اللہ نے ارشاد فرمایا کہ اسلام کے سوا کسی اور دین کو اختیار کرنے والوں کے اعمال مقبول نہیں ہوں گے اور یہ لوگ آخرت میں خسارہ پانے والوں میں سے ہوں گے ۔
اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ دین کی معرفت حاصل کرنے کے دو ہی اہم اور مستند ترین ذرائع ہیں۔ ایک اللہ تعالیٰ کی کتاب جس کو اللہ تعالیٰ نے ہر قسم کی تبدیلی اور تغّیرسے محفوظ رکھا ۔سورہ حم سجدہ کی آیت نمبر 42میں ارشاد ہوا: ''باطل اس کو آگے اور پیچھے سے نہیں آ سکتا،اتاری گئی ہے دانا اور قابل تعریف کی طرف سے ‘‘۔ صدیاں گزر جانے کے باوجود قرآن مجید ہر قسم کی تحریف سے پاک ہے اور اس کی ایک آیت تو درکنار ایک لفظ بلکہ ایک حرف اور ایک حرکت کو بھی تبدیل نہیں کیا جا سکا ۔
قرآن مجید چونکہ رسول ﷺ کے قلب اطہر پہ نازل ہوااس لیے آپ ﷺ اس کے الفاظ کے ساتھ ساتھ اس کے مفہوم کو بھی بیان فرمانے والے تھے۔ قرآن مجید کی متعدد آیات سے اس حقیقت کی وضاحت ہوتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی زندگی اہل ِ ایمان کے لیے ایک نمونے کی حیثیت رکھتی ہے۔ اسی طرح جو آپ ﷺ کے نقشِ قدم پر چلتا ہے‘ اللہ تعالیٰ کے محبوب لوگوں میں شامل ہو جاتاہے۔ جو آپ کی اطاعت کرتا ہے درحقیقت اللہ تعالیٰ ہی کی اطاعت کرتا ہے اس لیے کہ آپ ﷺ اپنی مرضی کے ساتھ کلام نہیں کرتے بلکہ اللہ تعالیٰ کی وحی کے مطابق گفتگو فرمایا کرتے تھے۔ چنانچہ قرآن مجید کے بعد دین کو سمجھنے کے لیے آپ ﷺ کی سنت کی طرف رجوع کرنا انتہائی ضروری ہے ۔
اللہ تعالیٰ نے جہاں قرآن مجید کو قیامت تک کے لیے محفوظ ومامون فرما دیا ‘وہیں پر اللہ تعالیٰ نے اُسوہ رسول ﷺ کو بھی رہتی دنیا تک محفوظ فرما دیا ۔ قرآن مجید جن ذرائع سے آنے والوں نسلوں تک منتقل ہوا‘ انہی ذرائع سے حدیث رسول اللہ ﷺ بھی آنے والی نسلوں تک منتقل ہوتی رہی ۔قرآن مجید عہد رسالت مآب میں لکھا جاتا رہا اور دلوں میں بھی محفوظ ہوتا رہا۔ اسی طرح حدیث رسول اللہ ﷺ بھی کتابت اور حفظ کے مراحل سے گزرتی رہی اور صحابہ کرامؓ سے تابعین اور تبع تابعینؒ تک منتقل ہوتی رہی۔ قرآن مجید ابتدائی طور ہی کتابی شکل میں محفوظ ہو گیا جبکہ حدیث پاک کو محدثین عظام نے چھان بین کے بعد کتابی شکل میں مدون کیا ۔اگرچہ کتب احادیث میں اقوال ،اعمال اور واقعات تو نبی کریم ﷺ ہی کے تھے لیکن ان کی ترتیب محدثین نے اپنے اپنے انداز میں کی ۔
احادیث کی کتب کی تدوین کے دوران جس محنت اور احتیاط سے کام لیا گیااور جس انداز میں راویوں کی چھان پھٹک کی گئی‘ تاریخ نویسی میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی ۔علم الرجال کے نام سے ایک مستقل علم مدون ہواجس میںہزاروں راویوںکے حالات زندگی پر تفصیلی کتابیں لکھی گئیں ۔ اتنی بڑی تعداد میں راویوں کی حالات زندگی پر تحقیقی کام کیا جانا اور ان میں سے ثقہ ، عادل او رحافظ راویوں کو مجروح ،ضعیف اورمتساہل راویوں سے علیحدہ کرنا بلاشبہ اس امر کی دلیل ہے کہ نبی کریم ﷺ کی ذاتِ والا صفات کائنات کے لیے ایک نمونے کی حیثیت رکھتی ہے ۔ جرح اور تعدیل کے اس فن نے مستشرقین اور اسلام کے ناقدین کو بھی حیرت زدہ کر دیا اور قرآن و سنت کے بہت سے نقادصرف تدوین حدیث کے حیرت انگیز کام کو دیکھ کر اسلام کی طرف مائل ہوگئے ۔کتب احادیث بڑی تعداد میں مرتب کی گئیں لیکن صحاح ستہ جن میں صحیح بخاری ، صحیح مسلم ،سنن ابی داؤد ،جامع ترمذی ،سنن نسائی اور سنن ابن ماجہ شامل ہیں کو خصوصی مقبولیت حاصل ہوئی۔ ان کتب کے علاوہ موطا امام مالک ، مسند احمد ،سنن بیہقی،سنن دارمی اور دار قطنی کو بھی نمایاں مقام حاصل ہے۔
ہر سال رجب اور شعبان میں مدارس دینیہ کے سالانہ امتحانات ہوتے ہیں۔ اس موقع پر کتاب وسنت کی تعلیم سے آراستہ اور پیراستہ ہونے والے طلبہ کو سندِ فراغت دی جاتی ہے ۔ چونکہ علوم دینیہ میں فہم سنت اور تدریسِ احادیث کا ایک امتیازی مقام ہے اس لیے تقسیم اسناد کی تقاریب کو عموماً تکمیل بخاری کی تقاریب سے بھی موسوم کیا جاتا ہے۔ ان تقاریب میں خصوصیت سے تدوین احادیث کے لیے امام بخاری ؒکی محنتوں کا ذکر کیا جاتاہے جس کا مقصد طلبہ کو ترغیب دینا ہوتا ہے کہ جس طرح امام بخاری ؒ نے اپنی زندگی کو فرامین رسول اللہﷺ کی ترتیب و تدوین کے لیے وقف کر دیا تھا‘ اسی طرح دور حاضر کے طلبہ کو بھی رسول ﷺ کے فرامین مبارکہ سے اپنی زندگیوں کو منور کرنا چاہیے۔ ہر سال کی طرح مجھے اس مرتبہ بھی مختلف مدارس کی تکمیل بخاری شریف کی تقاریب میں جانے کا اتفاق ہوا۔میں نے مناسب خیال کیا کہ قارئین کے سامنے بھی یاد دہانی کے لیے بعض اہم معلومات کو رکھا جائے ۔ امام بخاری ؒ نے صحیح بخاری کوانتہائی جانفشانی اور عرق ریزی کے بعد مرتب کیا اور اپنے پاس جمع شدہ لاکھوں احادیث میں سے تقریباًساڑھے سات ہزار کے لگ بھگ احادیث کو علیحدہ کرکے اس کتاب کو ترتیب دیا۔ اس محنت کا نتیجہ یہ نکلا کہ اگر کوئی شخص علم الرجال کے فن پر عبور نہ بھی رکھتا ہو تو بلا جھجک بخاری شریف کی احادیث کے بارے میں کہہ سکتا ہے کہ اس کتاب میں تمام احادیث سنداً درست اور ثابت شدہ ہیں اور ان کی رسول ﷺ سے نسبت ہر قسم کے شک وشبہ سے بالاترہے ۔
امام بخاری ؒ بہت ذہین اور فطین انسان تھے۔ انہوں اپنی کتاب مرتب کرتے وقت انسانی زندگی اور اعمال کی ترتیب کو خصوصی اہمیت دی ۔ ہر ذی شعور انسان اس بات کو جانتا ہے کہ اعمال کی ابتدا نیت یا ارادے سے ہوتی ہے ۔ اگر نیت درست ہوتو عمل بھی درست قرار پائے گا‘ اگر نیت میں کھوٹ ہو تو عمل بھی مقبول نہیں ہو سکتا ۔اسی فطری اور طے شدہ حقیقت کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے امام بخاری ؒ نے اپنی کتاب کا آغاز ''بے شک اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے‘‘ جیسی عظیم حدیث سے کیا ۔
اسی طرح ہر مسلمان اس حقیقت سے بھی آگاہ ہے کہ انسان کی زندگی مرنے سے ختم نہیں ہوتی بلکہ اس کو مرنے کے بعد برزخ کی زندگی سے گزرنا پڑے گا اور برزخ کے بعد حشر کی زندگی کا سامنا کرنا ہوگا ۔سورۃ القارعہ کے مطابق جس کا دایاں پلڑا بھاری ہوگا وہ اہل جنت میں شامل ہوگا اور جس کا بایاں پلڑا بھاری ہو گا وہ جہنمیوں میں شامل ہوگا۔ گویا انسانی زندگی کا انجام اعمال نامے کے تُلنے کے ساتھ ہے جس کے بعد انسان اپنے انجام کو پہنچ جائے گا ۔ امام بخاری ؒ اپنی کتاب میں جو آخری حدیث لے کر آئے اس کا تعلق اعمال کے تُلنے کے ساتھ ہے‘ گویا نیت سے شروع ہونے والے عمل کا وزن میزان میں تل کر سامنے آجائے گا ۔ حضرت امام بخاری ؒ نے نیت سے اپنی کتاب کا آغاز کیا اور میزان پر تلنے والی حدیث پر اختتام کرکے مسلمانوں کی پوری زندگی کی ترتیب اور نظام ِاوقات کو واضح فرمادیا ۔ امام بخاری ؒ کی پر خلوص محنت اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں مقبول ہوئی ۔ اللہ تعالیٰ نے رسول ﷺ کو کائنات کی رہنمائی کے لیے منتخب فرما لیا اور محدثین کورسول ﷺ کے فرامین کی تدوین اور ترسیل کے لیے منتخب کر لیا۔
اللہ تعالیٰ نے سورہ آل عمران کی آیت نمبر 195میں واضح فرما دیا کہ '' یقینا میں تم سے کسی اچھے عمل کرنے والے کا عمل ضائع کرنے والا نہیں ہوں ‘‘اللہ تعالیٰ نے حدیث سے محبت میں کی جانے والی امام بخاری ؒ کی مخلصانہ محنت کو بھی قبول فرمالیااور ان کی کتاب صحیح بخاری شریف کو قیامت کی دیواروں تک کے لیے شرف قبولیت سے نواز دیااور اس کتاب کے مطالعے کو دین کے ہر طالب علم اور استاد کے لیے ناگزیربنا دیا ۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کوبھی قرآن و سنت سے محبت کرنے اور اس پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!