"AIZ" (space) message & send to 7575

لبیک اللّٰھم لبیک…!

حج اسلام کا پانچواں رکن ہے اور ہر صاحب حیثیت مسلمان پر حج کرنا واجب ہے۔ قرآن مجید کے مطابق جو شخص استطاعت کے باوجود حج نہیں کرتا تو اللہ تعالیٰ ایسے منکرین کے افعال سے غنی ہے ۔عمرہ اور حج میں فرق ہے۔ بڑا فرق یہ ہے کہ عمرہ سال بھر کے دوران کسی بھی وقت کیا جاسکتا ہے جبکہ حج ذوالحجہ کے دوران ہی کیا جاتا ہے ۔حج کی تین قسمیں ہیں (1)حج افراد (2)حج تمتع (3)حج قران۔ حج تمتع چو نکہ افضل ترین حج ہے اور اس حج میں انسان کو اضافی عمرے کا موقع بھی ملتاہے اس لیے ان ایام میں حج تمتع کا طریقہ بیان کیا جاتا ہے۔ 
حج تمتع کی نیت کرنے والے حاجیوں کو میقات پر پہنچ کر احرام پہننا چاہیے اگر وہ احرام اپنے گھر سے پہن کر نکلتے ہیں تو اس صورت میں انہیں میقات پر پہنچ کر احرام کی نیت کر نا ہوگی ۔رسول اللہ ﷺ نے حج اور عمرے کے لیے مختلف ممالک اور شہروں سے آنے والوں کے لیے مختلف مقامات کو میقات مقرر کیا۔ حج تمتع کی نیت کرنے والا شخص جب احرام پہننا چاہے تو اس کو غسل کر نے کے بعد دواَن سلی چادریں پہن لینی چاہئیں اور ایسے جوتے پہننے چاہئیں جن میں اس کے ٹخنے ننگے ہوں۔ حضرت عبد اللہ بن عمرث سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا تمہیں تہہ بند، چادر اور جوتوں میں احرام باندھنا چاہیے۔ اگر جوتے نہ ہوں تو موزے پہن لو لیکن انہیں ٹخنوں کے نیچے سے کاٹ لو۔ مسلم شریف میں حدیث مذکور ہے کہ حضرت جابرص کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جسے جوتے نہ ملیں وہ موزے پہن لے اور جسے تہہ بند نہ ملے وہ پائجامہ پہن لے ۔
احرام باندھنے کے ساتھ ہی باآواز بلند تلبیہ پڑھنا چاہیے ۔تلبیہ کے الفاظ کاسلیس ترجمہ یہ ہے۔ ''حاضر ہوں اے اللہ ، میں حاضر ہوں ، تیرا کوئی شریک نہیں ہے بے شک ہر قسم کی تعریف اور نعمت تیری ہی ہے اور بادشاہت بھی تیری ہی ہے اور تیرا کوئی شریک نہیں ہے ‘‘۔تلبیہ پڑھنے کے بعد انسان کو اللہ تعالیٰ کی خوشنودی اورجنت کا سوال کرنا چاہیے اور آگ سے پنا ہ مانگنی چاہیے اس لیے کہ یہ عمل مسنون ہے۔ بلند آواز سے تلبیہ پڑھنے سے حج اورعمرے کے اجر وثواب میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ 
مسجد الحرام میں داخل ہوتے ہوئے وہی دعا مانگنی چاہیے جو رسو ل اللہ ﷺ مساجد میں داخل ہوتے ہوئے مانگتے کہ ''اللہ کے نام سے داخل ہوتا ہوں ، اللہ کے رسول ﷺ پر سلام ہو ۔اے اللہ میرے گناہوں کو معاف فرما اور اپنی رحمت کے دروازے میرے لیے کھول دے‘‘۔ صحیح بخاری و صحیح مسلم شریف میں روایت ہے کہ حضرت عروہ بن زبیرث کہتے ہیں کہ نبی کریمﷺ کے حج کے بارے میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا نے مجھے بتایا کہ جب رسو ل کریم ﷺ مکہ میں تشریف لائے تو سب سے پہلے آپ ﷺ نے وضو کیا پھر بیت اللہ شریف کا طواف کیا ۔طواف کی ابتداء حجر ِ اسود کو بوسہ دینے ،چھونے یا اس کی طرف اشارہ کرنے سے ہوتی ہے۔ طواف سات چکروں میں مکمل کیا جاتا ہے اور یہ سات چکر گھڑی کی سوئیوں کی حرکت سے الٹی جہت پر لگائے جاتے ہیں ۔طواف کا سنت طریقہ یہ ہے کہ پہلے تین چکر تیز رفتاری سے اور باقی چکر عام رفتار سے مکمل کیے جائیں ۔رکن یمانی اور حجر اسود کے درمیان ''ربنا اٰتنا فی الدنیا حسنۃ وفی الاٰخرۃ حسنۃوقنا عذاب النار ‘‘کا کثرت سے ورد کرنا چاہیے ۔جب سات چکر مکمل ہوجائیں تو اس کے بعد مقام ابراہیم پر آکر دو نوافل ادا کرنے چاہئیں اور اگر مقام ابراہیم پر جگہ نہ مل سکے تو اس جگہ کے دائیں ،بائیں
یا عقب میں جہاں بھی جگہ ملے دو نوافل ادا کرے۔ طواف کے مکمل کرنے کے بعد حاجی کو صفا پہاڑی کا قصد کرنا چاہیے اور صفا پہاڑی پر پہنچ کر اس دعا کو مانگنا چاہیے جو نبی کریمﷺ نے مانگی تھی۔حضرت جابر بن عبد اللہث فرماتے ہیں کہ آپﷺباب الصفا سے صفا پہاڑی کی طرف نکلے۔ جب پہاڑی کے قریب پہنچے تو آپﷺ نے اس آیت کی تلاوت فرمائی کہ ''بے شک صفا اور مروہ اللہ کی نشانیاں ہیں ‘‘۔ آپﷺ نے فرمایا میں سعی کی ابتداء اسی پہاڑی سے کرتا ہوں جس کے ذکر سے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ابتداء کی ہے۔پس آپ ﷺ نے سعی کی ابتداء صفا سے کی آپﷺ صفا پہاڑی کی اتنی بلندی پر چڑھے کہ بیت اللہ شریف نظر آگیا پھر قبلہ رخ ہوئے اور اللہ کی توحید اور تکبیر ان الفاظ میں بیان فرمائی ''اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں بادشاہی اور حمد اسی کے لیے ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ اکیلا ہے اس نے وعدہ پورا کیا،اپنے بندے کی مدد فرمائی اور تمام لشکروں کو تنہا شکست دی ‘‘پھر اس کے بعد آپ ﷺ نے دعا فرمائی اور یہ عمل آپﷺ نے تین مرتبہ کیا ۔صفا پر کی جانے والی دعائوں سے سعی کا آغاز ہوتا ہے اور حاجی مروہ تک جاتا ہے صفا کی طرف جاتے ہوئے جب نشیبی علاقہ آئے تو حاجی کو تیز قدم اٹھانے چاہئیں اور جب نشیبی علاقہ ختم ہوجائے تو حاجی کو رفتا ر دوبارہ معمول پر لے آنی چاہیے۔تیز رفتار سے چلنے والے علاقے کے تعین کے لیے صفا اور مروہ کے درمیان چھت پر سبز نشان لگا دیے گئے ہیں ان نشانات کے درمیان تیز چلنا چاہیے اور باقی حصہ میں آرام سے چلنا چاہیے، اگر بڑھاپے یا بیماری کی وجہ سے کوئی تیز نہ چل سکے تو آرام سے چلنا درست ہے ۔صفا سے مروہ تک ایک چکر اور مروہ سے صفا تک دوسرا چکر مکمل ہوتا ہے ،ان چکروں کے درمیان حاجی کو کثرت سے اللہ کا ذکر کرنا چاہیے جب سات چکر مکمل ہوجائیں تو حاجی کو اپنے بال منڈوانے یا کتروانے چاہئیں اور خواتین کو سر کے بال اکٹھے کرکے آخر سے کاٹ یا کٹوا لینے چاہئیں بال کٹوانے کے بعد عمرہ مکمل ہوجاتا ہے اور حاجی عمرے کا احرام اتار کر احرام کی پابندیوں سے آزاد ہو جاتا ہے۔8ذ ی الحجہ تک حاجی کو چاہیے کہ کثرت سے دعائیں، استغفار، درودشریف کا ورد ، بیت اللہ شریف کا طواف کرتا رہے۔ اس کے بعد جب 8 ذی الحجہ آجائے تو حاجیوں کو اپنی قیام گاہوں میں ہی دوبارہ احرام باندھ لینے چاہئیں۔ حضرت عبداللہ بن عباسث فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے
میقات کے اندر رہنے والوں کے بارے میں فرمایا کہ وہ اپنی رہائش گاہ سے احرام باندھیں حتیٰ کہ مکہ مکرمہ میںرہائش پذیر لوگ مکہ مکرمہ سے ہی احرام باندھیں ،احرام باندھنے کے بعد حاجیوں کو ظہر سے پہلے منیٰ پہنچنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ حضرت جابر صسے حجۃ الوداع کی حدیث میں روایت ہے کہ جب یوم ترویہ آیا تو صحابہ کرام نے مکہ مکرمہ سے ہی احرام باندھا اور منیٰ کے لیے روانہ ہوئے۔ رسول کریمﷺ سواری پر نکلے اور منیٰ میں ظہر، عصر، مغرب، عشاء اور فجر کی نمازیں ادا کیں پھر تھوڑی دیر رکے یہاں تک کہ سورج طلوع ہوگیا۔ اگرچہ 8ذی الحجہ کو ظہر سے قبل منیٰ پہنچنا سنت ہے لیکن اگر کوئی شخص وقت پر وہاں نہ پہنچ سکے تو اس کا حج ادا ہوجاتا ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنھامکہ مکرمہ سے جب منیٰ پہنچیں تو ایک تہائی رات بیت چکی تھی ۔8ذی الحجہ کو منیٰ پہنچنے کے بعد پانچ نمازوں کی ادائیگی مکمل ہونے پر 9ذی الحجہ کا آغاز ہوجاتا ہے۔ (جاری) 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں