ایمان کے بعد صحت اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے۔ بیماری خواہ کسی بھی قسم کی ہوانسان کو پریشانی اور تکلیف میں مبتلا کرکے معمول کی سرگرمیوں پر منفی اثرات مرتب کرتی ہے۔اس کے قریبی عزیز و اقارب بھی متاثر ہوتے ہیں ۔ اگر بیماری طول پکڑ جائے تو پورا خاندان بے قرار ہو جاتا ہے۔
جسمانی صحت کے ساتھ ساتھ کارکردگی کا نفسیاتی صحت سے بھی بہت گہرا تعلق ہے۔ ترقی پذیر معاشروں میں عام طور پر نفسیاتی مسائل یا بیماریوں کو اہمیت نہیں دی جاتی اور انہیں وہم سمجھ کر نظر انداز کر دیا جاتا ہے ؛حالانکہ نفسیاتی امراض کے بھی انسانی زندگی پر انتہائی مضر اثرات ہوتے ہیں۔نفسیاتی عارضوں میں مبتلا بھی اسی طرح توجہ اورپیار کا مستحق ہوتا ہے جس طرح جسمانی بیماریوں سے دوچار شخص ۔ کئی مرتبہ مناسب توجہ اور علاج معالجہ کی سہولیات نہ ملنے کی وجہ سے نفسیاتی مسائل انتہائی گمبھیرہو جاتے ہیں ۔مایوس اور مضطرب شخص معاشرے کی تعمیر وترقی کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کی بجائے معاشرے پر بوجھ بن جاتا ہے ۔
ہمارے معاشرے میں لوگ قسم قسم کے نفسیاتی مسائل کا شکار ہیں ،جن میں احساس کمتری، احساسِ محرومی، حسد، جنسی گھٹن اور ڈپریشن سرفہرست ہیں۔ 19 مئی 2012ء کو ایک انگریزی اخبار میں تجزیاتی رپورٹ چھپی، جس میں بتایاگیا کہ پاکستان کی دو تہائی آبادی کسی نہ کسی طرح ڈپریشن کا شکار ہے۔ ڈپریشن کا مریض اپنی ذمہ داریوں، سرگرمیوں اور مشاغل میں دلچسپی کھو بیٹھتا ہے ،بیماری طول پکڑنے کی صورت میں انسان کو زندگی بوجھ لگنے لگتی ہے۔ تندرست انسان کھانے پینے، سیروسیاحت اور میل جول سے طمانیت حاصل کرتا ہے جبکہ ڈپریشن کے مریض کو ان تمام معاملات سے کسی قسم کی خوشی اور سکون نہیں ملتا ۔ڈپریشن کی متعدد اہم وجوہ جن میں سے کسی ایک کو بھی حتمی یا واحد وجہ قرار نہیں دیا جا سکتا ،یہ ہیں۔ 1: کسی قریبی عزیز کی ناگہانی موت 2:کاروبار میں بڑا نقصان۔ 3: معاشرے میں کسی بڑے حادثے کا رونما ہونا۔ 4: قتل، ڈکیتی یا روڈ ایکسیڈنٹ کے کسی چشم دید واقعے کا ذہن پرنقش ہو جانا۔5: بچپن میں والدین کے مستقل اختلافات کا مشاہدہ کرنا ۔6: کم عمری میں جنسی تشدد کا نشانہ بننا۔7: گھریلو ناچاقی کا طلاق پر منتج ہونا۔ 8: عقیدے اور مذہب کے مسئلے میں الجھن اور تردد کا شکار رہنا۔ 9: امتحان میں ناکام ہونا۔10: بے روزگاری۔ 11: بے اولادی یا اولادِنرینہ سے محروم رہنا۔12: کسی حادثے یا بیماری کے نتیجے میں کسی جسمانی عضو کا بے کار ہو جانا۔ 13: لمبے عرصے تک کسی بیماری میں مبتلا رہنا۔ 14: طویل عرصے تک قید کاٹنا ۔ 15: وضعِ حمل کے بعد ماں پر اداسی کی کیفیت کا طاری ہونا ۔ 16: ایک عرصے تک معاشی یا تعلیمی مجبوری کی وجہ سے خاندان سے دور رہنا ۔17: یتیمی اور غربت کی وجہ سے رشتہ داروں کی محبت اور شفقت سے محروم رہنا۔ 18: کسی کبیرہ گناہ کے ارتکاب کے بعد احساس گناہ کی وجہ سے غم کا طاری ہونا۔
کئی مرتبہ مذکورہ بالا تمام اسباب کی عدم موجودگی میں بھی انسان یک لخت ڈپریشن کا شکار ہو جاتا ہے۔ ڈپریشن کا مریض اپنے اندر عجیب سی اداسی محسوس کرتا ہے اور کھانے پینے سے اکثر اس کی رغبت بہت کم اور بسا اوقات بہت بڑھ جاتی ہے۔ کئی مرتبہ ڈپریشن کا مریض رات کو سونے سے قاصر رہتااور 24گھنٹے منفی اور مایوس کن خیالات کے تانے بانے بُنتارہتا ہے۔ نفسیاتی مرض کئی مرتبہ انسان کی فطری صلاحیتوں اور استعداد کو اس قدر متاثر کر دیتا ہے کہ اس بیماری کا شکار ہونے والا انتہائی ذہین و فطین انسان بھی دوسروں کو سست ،کاہل اور غبی محسوس ہوتا ہے۔ عام طور پر کم پڑھے لکھے لوگ نفسیاتی مرض کو مرض ہی تسلیم نہیں کرتے اور مریض کو طعن و تشنیع کا نشانہ بنا کر اس کی بیماری میں مزید اضافے کا باعث بنتے ہیں۔ اس کے برعکس پڑھے لکھے لوگ نفسیاتی امراض کے بڑھتے ہوئے اثرات کو دیکھ کر نفسیاتی معالج سے رجوع کرتے ہیں۔ ماہرین نفسیات بالعموم انتہائی درجے کے نفسیاتی دباؤ کو کم کرنے کے لیے مریض کو مسکن ادویات دیتے ہیں۔ ان ادویات کے استعمال کے بعد وقتی طور پر انسان کے اعصابی تنائو میں کمی آ جاتی ہے۔ پھر انسان بتدریج ان ادویات کا عادی ہوتا چلا جاتا ہے اور ان کے استعمال کے بغیر زندگی گزارنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ میں نے اپنی زندگی میں ڈپریشن اور دیگر نفسیاتی امراض کے شکار کئی ایسے مریض دیکھے‘ جو برس ہا برس سے بھاری مقدار میں ان ادویات کا استعمال کر رہے ہیں۔ ماہرین نفسیات مسکن ادویات کے علاوہ علاج کے لیے تحلیل نفسی اور ہپناٹزم کا استعمال بھی کرتے ہیں۔ نفسیات کے علم کی افادیت اور اہمیت مسلّم ہے اور تحلیل نفسی ایک مـؤثر طریقہ علاج ہے لیکن سچی بات یہ ہے کہ نفسیاتی امراض کا حقیقی اور مؤثر ترین علاج دین کی طرف پلٹنے میں ہے۔ سائنس اور مادے کی ترقی نے جہاں انسا ن کی سہولیات، تعیشات اور مشغولات میں اضافہ کیا ہے وہیں انسان کو اپنے رب کی بندگی اور عبادت سے دور کرکے دلوں کو مردہ کر دیا ہے۔ مادہ پرستی نے انسان سے ایثار اور قربانی کے اوصاف چھین کر اسے خود غرضی اور بے مروتی کی دلدل میں دھکیل دیا ہے۔ اس ساری صورتحال کو بھانپ کر ہی علامہ اقبال نے کہا تھا ؎
ہے دل کے لیے موت مشینوں کی حکومت
احساس مروت کو کچل دیتے ہیں آلات
جس طرح جسم کو اچھی خوراک کی ضرورت ہے اسی طرح انسان کی روح اور دل کو توانا رہنے کے لیے پروردگار کی یاد کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سورت رعد کی آیت نمبر 28 میں ارشاد فرمایا کہ مومن اپنے دلوں کو اللہ کی یاد سے مطمئن کرتے ہیں۔ کیا اللہ کے ذکر سے دلوں کو اطمینان نہیں ملتا؟ خود نفسیات کا علم بھی اس حقیقت کو تسلیم کرتا ہے کہ انسان کو اپنے خالق اور پروردگار کی عبادت سے ذہنی سکون حاصل ہوتا ہے۔ قرآن مجید کو جہاں اللہ نے کتاب ہدایت کے طور پر نازل فرمایا ،وہیں اس کتاب میں اللہ نے انسان کے نفسیاتی عارضوں اور دلوں کی بے سکونی کا علاج بھی تجویز فرما دیا ہے۔
قرآن میں غم اور خوف کی کیفیت سے نجات کے لیے اللہ تعالیٰ نے بہت سی تدابیر بتلائیں۔ چند ایک درج ذیل ہیں۔ 1:آنے والی مصیبت پر صبر کرنا‘ سورہ بقرہ کی آیات 157,156,155 میں اللہ تعالیٰ نے اس حقیقت کو واضح کیا کہ جب انسان اپنی زندگی میں ہونے والے نقصانات کو اللہ کا امر سمجھ کر صبر کرتا ہے اور ''اناللہ وانا الیہ راجعون‘‘ کا ورد کرکے اپنے آپ کو سمجھاتا ہے کہ بے شک ہم اللہ کے لیے ہیں اور ہم نے اسی کی طرف پلٹنا ہے تو اللہ تعالیٰ اس پر اپنی رحمتوں کا نزول فرماتے ہیں اور یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں۔ 2: اللہ کی ذات پر بھروسہ: جو شخص اپنے معاملات کو اللہ کے سپر د کر دیتا ہے تو سورہ طلاق کی آیت نمبر3 کے مطابق اللہ تعالیٰ ایسے شخص کے لیے کافی ہو جاتے ہیں ۔3: مصیبتوں کے وقت دعا: جو شخص تکلیف کے وقت اللہ کی بارگاہ میں آکر دعا مانگتا ہے تو سورہ نمل کی آیت نمبر62 کے مطابق اللہ تعالیٰ اس کی فریاد سنتے اور اس کی تکلیف اور مشکل کو دور فرماتے ہیں۔ 4: ایمان اور تقویٰ کے راستے کو اختیار کرنا: جو شخص اللہ کی ذات پر پختہ ایما ن رکھتا ہے اور اپنے آپ کو ہر طرح کے گناہوں سے بچاتا ہے تو سورت یونس کی آیت نمبر62 کے مطابق ایسا شخص اللہ کے دوستوں میں شامل ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ اس کو خوف اور غم سے نجات دیتے ہیں۔ 5: اپنے مال کو خفیہ اور علانیہ طور پر اللہ کے راستے میں خرچ کرنا: جو شخص تواتر کے ساتھ اپنے مال کو خفیہ اور علانیہ طور پر اللہ کے راستے میں خرچ کرتا ہے‘ سورہ بقرہ کی آیت 274 کے مطابق ایسے شخص کا اجر اللہ کے پاس ہے اور اس کو خوف اور غم نہیں ہو گا۔ اگر دور حاضر کا مسلمان قرآن مجید کی حکمت آموز باتوں پر عمل پیرا ہو جائے تو اس کے تمام نفسیاتی اور مادی مسائل آناً فاناً حل ہو سکتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ ہمارے موجودہ نفسیاتی عارضوں کی اصل وجہ قرآن سے دوری ہے۔ علامہ اقبال نے بجا طور پر کہا تھا ؎
وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارکِ قراں ہو کر