اولاد انسان کی زندگی میں بہت زیادہ اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔ اولاد کی قدر صحیح معنوں میں وہ لوگ پہچانتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی اس نعمت سے محروم ہیں ۔ اولاد کی عدم موجودگی میں گھر ویران ہو جاتا ہے اور اولاد کی وجہ سے گھر میں رونق اوربہار آ جاتی ہے۔
عام طور پر حقوق والدین کے حوالے سے بہت سی قیمتی نصیحتیں اور باتیں سننے کو ملتی ہیں لیکن اولاد کے حقوق کے حوالے سے کم سننے اور پڑھنے کو ملتا ہے۔ چنانچہ آج میں نے ارادہ کیا کہ قرآن وسنت کی روشنی میں حقوق اولاد کے حوالے سے بھی کچھ اہم باتیں قارئین کے سامنے رکھی جائیں۔
اولاد کی ولادت سے قبل ہی والدین کو ان کے بارے میں نیک تمنائیں رکھنی چاہئیں۔ قرآن مجید نے اس حوالے سے حضرت ابراہیم علیہ السلام ، حضرت مریم علیہا السلام کی والدہ اور حضرت زکریا علیہ السلام کا ذکر فرمایا۔ ان تمام ہستیوں نے نیک اولاد کی تمنا کی۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے صالح بیٹے کی دعا مانگی۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کی دعا کو یوں پورا فرمایا کہ آپ کو حضرت اسماعیل علیہ السلام کی شکل میں ایک حلیم بیٹا عطا فرما دیا۔ حضرت مریم علیہا السلام کی والدہ نے ان کی پیدائش سے قبل نذرمانی کہ اللہ تعالیٰ ان کو جو اولاد عطا فرمائیں گے اسے اللہ تعالیٰ کی بندگی کے لیے وقف کر دیں گی اور ساتھ ہی آپ نے یہ بھی کہاکہ میں اس کو اللہ کی پناہ میں دیتی ہوں شیطان مردود کے شر سے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کی اس نذر کو قبول فرمایا۔ اسی طرح حضرت زکریا علیہ السلام نے بھی پاک اولاد کی دعا مانگی۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا قبول فرماتے ہوئے ان کو حضرت یحییٰ علیہ السلام جیسی فرمانبردار، نیک اور صالح اولاد عطا فرما دی۔ گویا اولادکی ولادت سے قبل ہی والدین کویہ دعا مانگنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ ان کو نیک اولاد عطا فرمائے۔
اولاد کا والدین پر دوسرا حق یہ ہے کہ والدین ان کے اچھے نام رکھیں ۔ مسلمانوںکو انبیائے کرام ، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات، آپ کے خاندان اور آپ کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ناموں پر نام رکھنے چاہئیں۔ احادیث مبارکہ سے ثابت ہوتا ہے کہ ''عبداللہ اور عبدالرحمن‘‘ بہترین نام ہیں۔ حدیث پاک کے مطالعے سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ بعض نام اللہ کی نظر میں ناپسندیدہ ہیں جن میں سرفہرست 'شہنشاہ‘ ہے۔ ان ناموں سے بھی اجتناب کرنا چاہیے جن میں شرک کی آمیزش ہو یعنی کسی بت یا غیراللہ کے ساتھ نسبت کی گئی ہو۔ نام رکھنے کے ساتھ ساتھ بچوں سے تکلیف دور کرنے کے لیے ساتویں دن بچے کا عقیقہ بھی کرنا چاہیے۔ عقیقے کے بعد رضاعت بھی بچے کا بنیادی حق ہے۔ صحت مند ماں کو اپنے بچے کو کسی بھی طور پر اس سے محروم نہیں کرنا چاہیے۔ والدہ کو دو برس تک رضاعت کی مدت مکمل کرنی چاہیے۔
رضاعت کی تکمیل کے بعد بچوں کو اللہ تعالیٰ کے نام اور اچھی باتیں سکھانی چاہئیں اور بچوں کے ساتھ گالی گلوچ اور بدکلامی سے اجتناب کرنا چاہیے۔ بچے عام طور پر ان باتوںکو سیکھتے ہیں جو وہ دیکھتے ہیں یا ان کے سامنے بیان کی جاتی ہیں۔ برے ماحول کے بچوں کی نفسیات پر بہت گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں؛ چنانچہ بچوں کی کفالت خوشگوار ماحول میں کرنی چاہیے۔ والدین کے باہمی اختلاف کی وجہ سے بچوں کی نفسیات پر بہت گہرا اثر پڑتا ہے۔ جس گھر میں والدین پیار اوراتفاق سے رہتے ہیں بچوں میں صبر وتحمل اور بردباری پیدا ہوتی ہے اور جن گھروں میں والدین کی آپس میں ناچاکی اور لڑائی جھگڑا ہوتا ہے وہاں بچوں میں احساس محرومی اور تشدد کا عنصر پیدا ہوجاتا ہے۔
والدین کو ابتدائی عمر میں بچوں کو اپنے سامنے رکھنا چاہیے اور حتی المقدور ان کی تربیت کے لیے کوشاں رہنا چاہیے۔ جو والدین اپنی پیشہ ورانہ مصروفیات کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں ان کے بچوں کے بگڑنے کے امکانات بھی پیدا ہوجاتے ہیں۔ بچوں کو غیر مردوں کے ہاتھ تھمانے سے بھی گریزکرنا چاہیے۔ ہمارے معاشرے میں بڑھتے ہوئے غیراخلاقی واقعات کا بڑا سبب والدین کی لاپروائی بھی ہے جو اپنے بچوں کو غیر مردوں کے حوالے کر دیتے ہیں ۔ پڑھے لکھے خاندانوں کی کئی خواتین بچوں کی پرورش کے لیے خادماؤں کا سہارا لیتی ہیں، یہ خادمائیں ماں کا ہرگز نعم البدل نہیں ہوسکتیں،لہٰذا ماؤںکو حتی الوسع ان کی تربیت کے لیے وقت نکالنا چاہیے۔ اگر مجبوری میں خادمہ رکھنی پڑ جائے تو بھی خادمہ کی نگرانی کرنی چاہیے کہ وہ بچوںکی تعلیم وتربیت صحیح اندازمیں کررہی ہے یا بچوں کے بگاڑکا سبب بن رہی ہے۔
بچوں کی تعلیم کا بندوبست کرنا بھی والدین کی ذمہ داری ہے۔ والدین کو بچوں کی دینی اور دنیاوی تعلیم کے لیے اچھے تعلیمی اداروں اور اساتذہ کا انتخاب کرنا چاہیے۔ دنیاوی تعلیم کے ساتھ ساتھ قرآن کی تلاوت اور اس کے مفہوم کا شعور فراہم کرنا بھی والدین کے فرائض منصبی میں شامل ہے۔ سات برس کی عمر میں بچوں کو نماز سکھانا انتہائی ضروری ہے۔ نمازسیکھنے کی وجہ سے بچوں میں تنظیم ، روحانی کیفیت اور خالق ومالک کی شناسائی کا شعور پیدا ہوتا ہے۔ نمازکی برکت سے بچے غیر اخلاقی سرگرمیوں سے بھی محفوظ رہتے ہیں ۔ بچوں کی تعلیم کے حوالے سے صرف تعلیمی اداروں پر ساری ذمہ داری ڈال دینا ہرگز درست نہیں۔ والدین کوخود بھی بچوں کی تعلیم سے آگاہ رہنا چاہیے تاکہ بچے کی ذہنی نشوونما اورتعلیمی ترقی کی راہیں ہموار ہوسکیں ۔
سکول جانے والے طلبا اور طالبات کی صحبت سے آگاہی حاصل کرنا والدین کی ذمہ داری ہے۔ اچھی صحبت کے مثبت اثرات اور بری صحبت کے منفی اثرات ہوتے ہیں۔ اگر بچے کی صحبت بگڑ جائے توبچے کی زبان، رویے اور عادات بھی بگڑ جاتی ہیں ۔ بچوں کی عادات میں نمایاں تبدیلی رونما ہو تو اس کو مثبت علامت نہیں سمجھنا چاہیے اور ان کی عادات اور رویوں کی نگرانی کرکے اصل سبب تک پہنچنے کی جستجوکرنی چاہیے۔
بچوںکی غیر نصابی سرگرمیوں کا تعین بھی والدین کی اہم ذمہ داری ہے ۔ موبائل، لیپ ٹاپ کا استعمال سکول جانے والے بچوں کے لیے مفید نہیں ہوتا ۔ ان کے لیے اچھی کتب کا انتخاب کرنا اور ان کومیدانی کھیلوں کی طرف راغب کرنے کے نتائج انتہائی مثبت نکلتے ہیں ۔کمپیوٹرکا غیر ضروری استعمال بچوں کی نفسیات کو مسخ کرنے کا سبب بن سکتا ہے۔ مڈل پاس کرنے والے طلبہ کے لیے مستقبل کی نشاندہی کرنا بھی والدین کی ذمہ داری ہے۔ اس سلسلے میں والدین کو بچوں کی صلاحیتوں اور میلان کو مدنظر رکھنا چاہیے۔ اگر بچہ کسی اور میدان کی طرف رغبت رکھتا ہے تو جبراً اس کو بدلنا غلط ہے۔ بچوں کی کامیابی پر ان کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے، لاپروائی پر سرزنش کرنی چاہیے اور ناکامی پر حوصلہ شکنی کرنے کی بجائے ان کی ہمت بندھانی چاہیے تاکہ بچے کی خود اعتمادی میں کمی واقع نہ ہو۔
تعلیم کے آخری مراحل تک بچوں کوپہنچانے کے بعد ان کے لیے اچھے رشتوں کا انتظام کرنا والدین کی ذمہ داری ہے۔ والدین کو اس سلسلے بچوں کی پسند ناپسندکو بھی مدنظر رکھنا چاہیے۔ اگرچہ ولی کی اجازت کے بغیرکیا گیا نکاح درست نہیں تاہم لڑکی کو نکاح کے لیے مجبورکرنا بھی درست نہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسانکاح فسخ کر دیا تھا جس میں لڑکی کے والد نے اس کی ناپسند کے باوجود نکاح کر دیا تھا۔ احادیث کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ عورت سے نکاح خاندان ، مال، حسن اور دین کی وجہ سے کیاجاتا ہے؛ تاہم اگر یہ نکاح دین اوراخلاق کی بنیاد پرکیا جائے تو اس کی کامیابی کے امکانات روشن ہوجاتے ہیں۔
والدین کاحسن انتخاب لڑکے اور لڑکی کی زندگی کو جنت بنا دیتا ہے اور والدین کی طرف سے کی جانے والی کوتاہی خاندانوں کی تباہی و بربادی کا سبب بن جاتی ہے۔ والدین کی تربیت اور رہنمائی اولاد کی دنیاوی اور اخروی کامیابی کا سبب اور ان کی غفلت و لاپروائی اولاد کی ناکامی اور بربادی کا سبب بن جاتی ہے۔ چنانچہ والدین کو اولاد کے مستقبل کو سنوارنے کے لیے اپنی ذمہ داریاں اور کرداراحسن طریقے سے ادا کرتے رہنا چاہیے۔