اللہ تعالیٰ نے انسان کو بہترین تقویم (شکل و صورت اور دماغی صلاحیتیں) میں پیدا کیا۔ زمین وآسمان میں موجود مختلف طرح کی نعمتوں کے دروازوں کو اُس پرکھول دیا۔ انسان اگر اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو شمار کرنا چاہے تو کبھی نہ کر سکے۔
اللہ تعالیٰ نے سورج کو حرارت اور روشنی کا منبع بنایا۔ اس حرارت اور روشنی سے انسان کو بیسیوں قسم کے فوائد ملتے ہیں۔ گندم ، چاول، سبزیاں، پھل اور پھول اسی حرارت اور روشنی کی وجہ سے اگتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے آسمان اور زمین کے درمیان بادلوں کو معلق فرمایا۔ ان بادلوں سے رحمت والی بارشیں اترتی ہیں جن کی وجہ سے مردہ زمین زندہ ہو جاتی ہے اور اُس پر بہار آجاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرحت بخش ہوا کوتخلیق کیا کہ جس کے چلنے سے انسان کو سکون کا احساس ہوتا ہے اور جس کے رک جانے سے انسان یوں محسوس کرتا ہے کہ جیسے دم گھٹ رہا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے قدرت میں حسن ولطافت کو اس طرح سمو دیا کہ انسان اللہ تعالیٰ کی جس مخلوق کو بھی دیکھے اس کا حسن اور دلکشی اُسے حیرت میں گم کر دے۔ فطرت کے حسین مناظر خالق کائنات کی صناعی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ اُس نے پہاڑوں کو سرمئی رنگت عطا فرمائی تو کہیں بھورے رنگ سے سجا دیا، بعض کو مٹی سے بنایا تو بعض کو پتھروں سے تخلیق فرما دیا۔ کئی پہاڑ سنگلاخ بنائے تو کئی ایک کو نرم وگداز بنا دیا۔ پھولوں کو تخلیق کیا تو کچھ کو پیلے رنگ سے اور کچھ کو سرخ رنگ سے سجا دیا۔ کسی کو دھیمی،کسی کو ترش اور کسی کو تیز خوشبو عطا فرمائی۔ حسن فطرت کو دو چار رنگوں سے ہی مزین نہیں کیا بیسیوں طرح کے رنگوں سے دل کشی عطا کی۔
آسمان ِ دنیا کو جہاں دن کے وقت سورج سے مزین فرمایا وہیں پر رات کی دلکشی کے لیے چاند کا حسین چہرہ تخلیق فرمادیا۔ چاند کو مرکز بنا کر اس کے گردو نواح میں کہکشاؤں کے حسین تاروںکو بن دیا۔ اماوس کی راتوں میں جب آسمان کا حسین چہرہ چاند کے وجود سے خالی ہو جاتا ہے تو جگ مگ کرتے ستارے آسمان کی دلکشی اور رعنائی کو ماند نہیں پڑنے دیتے۔ یہ ستارے جہاں آسمان کی رونق میں اضافہ کرتے ہیں وہیں پر سمندروں اور صحراؤں میں سفر کرنے والے مسافروں کو ان کی منزل تک پہنچانے کا فریضہ بھی بطریق احسن انجام دیتے ہیں۔ انہیں ستاروں کے جھرمٹ میں موجود بعض سیارچوں کے ذریعے اللہ تعالیٰ شیاطین کو بھی رجم فرماتے ہیں۔ انسان کی نظر کو سرور دینے کے لیے جہاں اللہ تعالیٰ نے اتنے حسین مناظر انسان کی بصارت کے سامنے بکھیر دیئے‘ وہیں پر انسان کی دیگر حسوں کو سکون اور فرحت عطا فرمانے کا بھی بہترین انداز میں بندوبست فرمایا۔ انسان کے کھانے کے لیے فقط سبزیاں یا پھل ہی کافی تھے لیکن اللہ تعالیٰ نے جانوروں اور پرندوں کے گوشت کی شکل میں اس کی غذا کو ایک نیا تنوع عطا فرمادیا۔ انسان کو اللہ تعالیٰ نے کھانا پکانے کا وہ سلیقہ عطا فرمایا کہ اُس نے ایک ہی گوشت اور سبزی سے طرح طرح کی غذائیں تیار کرلیں۔دنیا کے اطراف و اکناف میں بسنے والے انسان فطرت کی عطا کردہ سبزیوں اور گوشت کو استعمال کرتے ہوئے ہزاروں طرح کی مزیدار ڈشیں تیار کر رہے ہیں‘ جنہیں کھانے کے بعد انسان کے ذائقے کی حسوں کو عجیب طرح کی فرحت کا احساس ہوتا ہے۔
انسان تنہا رہنے میں دقت محسوس کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی تنہائیوں کو دور کرنے کے لیے اس کی جنس میں سے صنف مخالف (عورت )کو پیدا فرما دیا۔ رفیقِ زندگی (بیوی)کے ساتھ رہتے ہوئے انسان زندگی کے نشیب وفراز کا خندہ پیشانی سے مقابلہ کرنے کے قابل ہو جاتا ہے۔ اس رفیق زندگی کے ساتھ گزرنے والے پر سکون وشیریں لمحات کا احساس انسان کی زندگی میں عجیب طرح کی توانائی اور قوت کو پیدا کرتا ہے۔
انسان کو بچپن سے ہی دل لگی کے لیے کھلونوں کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ والدین بچوںکی اس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے بڑے چاؤ اور شوق سے اسے مختلف طرح کے کھلونے لا کر دیتے ہیں جب انسان جوان ہو جاتا ہے تو من کی فطری خواہش کو پورا کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے انسان کو دھڑکتے ہوئے دل اور توتلی زبان سے باتیں کرنے والے پیارے پیارے بیٹے اور بیٹیاں عطا فرما دیں ۔ انسان کو تن ڈھانکنے اور زیب وزینت کے لیے لباس کی ضرورت تھی ۔اللہ تعالیٰ نے انسان کو ایسا سلیقہ عطا فرمایا کہ اس نے قدرتی اور مصنوعی طریقے سے حاصل ہونے والے وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے درجنوں طرح کے دیدہ زیب لباس بنا لیے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو ہر موسم کے مطابق لباس بنانے کا سلیقہ عطا فر ما دیا۔ اس لباس کے ذریعے جہاں انسان نے اپنے جسم کے عیوب اور کمزوریوںکو چھپا لیا وہیں پر اپنی وجاہت اور شخصیت میں اضافے کے لیے بھی لباس کو موقع کی مناسبت سے خوب استعمال کیا۔
انسان کو معاش اور ضروریات کی تکمیل کے لیے سواریوں کی ضرورت تھی۔ جسے پورا کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے اُونٹ، گھوڑے، گدھے اور خچر کو پیدا فرمایا۔ علاوہ ازیں سمندری سفر کے لیے کشتیاںـ اور بحری جہاز بنانے کا طریقہ بتا دیا۔ وقت کے ساتھ ساتھ انسان کی فنی مہارت میں اضافہ ہوا تو فاصلوں کو سمیٹنے کے لیے انسان نے گاڑیاں ،بحری اور ہوائی جہازایجاد کرلیے ‘ جن کی مدد سے سینکڑوں اور ہزاروںمیل کے سفر آناً فاناً طے ہو رہے ہیں۔
انسان کو اپنی ضروریات کی تکمیل کے لیے الفاظ اور ابلاغ کی ضرورت تھی اللہ تعالیٰ نے انسان کو قوت گویائی اور تخیل کی عظیم نعمت سے نواز دیا ۔ روشنی کی رفتار سے زیادہ تیزی سے سفر کرنے والے اس تخیل نے سماج اور علوم کی ترقی میں کلیدی کردار ادا کیا۔
ان مادی نعمتوں کی فراوانی کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ نے روحانی ضروریات کو بھی بطریق احسن پورا فرمایا۔ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی رہنمائی کے لیے ہر بستی میں انہی کی زبان بولنے والے نبی کو مبعوث فرما دیا۔ جنہوں نے انسانوں کو زندگی گزارنے کا پورا طریقہ سمجھا دیا۔ سب سے آخر میں جمیع انسانیت کی فلاح وبہبود کے لیے اپنی آخری کتاب قرآن مجید کو حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب اطہر پر نازل فرما دیا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھٹکتی انسانیت کو اس کی منزل کا پتہ دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتوں کے آستانوں پر جھکنے والے سروں کو اللہ کی چوکھٹ پر جھکادیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیٹیوں کو زندہ در گور کرنے والوں کو کائنات کی ہر بیٹی کی زندگی اور عزت کا رکھوالا بنادیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام کھانے والوں کو رزق طیب کی لذت سے آشنا کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نشے میں دھت رہنے والوں کو ایسا ہوش وخرد عطا فرمایا کہ وہ دنیا کی الجھنوںاور مدہوشیوں کو دور کرنے والے بن گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سماج سے بے حیائی اور بدکرداری کو ختم کرکے معاشروں کو شرم وحیا کے اعلیٰ اور ارفع ترین اصولوں سے روشناس فرما دیا۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ اللہ تعالیٰ کی تمام نعمتیں ہی قابل قدر ہیں لیکن زندگی گزارنے کے لیے ایک نمونہ جو اہل کائنات کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شکل میں ملا اس نعمت بے پایاں کا مقابلہ کسی اور نعمت سے نہیں کیا جا سکتا ۔ اللہ تعالیٰ نے سورہ ابراہیم میں اعلان فرما دیا کہ ''اگر تم میری نعمتوں کا شکر ادا کرو گے تو انہیں مزید بڑھا دوں گا اور اگر تم نے کفرانِ نعمت کیا تو میرا عذاب بہت شدید ہے‘‘۔ انسان کو چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملنے والی مادی اور روحانی نعمتوں پر شکر گزاری کا راستہ اختیار کرے تاکہ اللہ تعالیٰ اپنی نعمتوں اور عنایات کو ہمیشہ قائم و دائم رکھیںاور ناشکری کے راستے سے کلی اجتناب کرے تاکہ اللہ تعالیٰ کی ناراضگی اور عذاب سے بچا جا سکے۔