"AIZ" (space) message & send to 7575

زلزلوں اور قدرتی آفات کے اسباب

پاکستان عرصے سے قدرتی آفات کی زد میں ہے ۔8اکتوبر 2005ء میں کشمیر اور سرحد میں آنے والے زلزلے میں ہزاروں افراد جاں بحق اور ایک لاکھ سے زائد زخمی ہوئے اور بڑی تعداد میں مکانات اور عمارتیں بھی منہدم ہوئیں۔اسی طرح 26 اکتوبر کو آنے والے زلزلے نے بھی پوری قوم کو متاثر کیا سینکڑوں کی تعدادمیں لوگ ہلاک اور زخمی ہوئے ۔ اس جانی و مالی نقصان پر پوری قوم سوگوار ہے۔ عموماً قدرتی آفات کا سائنسی تجزیہ کیا جاتا ہے لیکن ضرورت اس امرکی ہے کہ ان آفات کو قرآن وسنت کی روشنی میں سمجھا جائے اللہ اور اس کے رسول ؐکے فرامین سے ان آفات سے بچاؤ کے لیے رہنمائی لی جائے۔ قرآن کریم پر گہرے غورو فکر سے پتا چلتا ہے کہ قدرتی آفات کی وجوہ یہ ہیں : 
1۔ آزمائش: سورہ بقرہ کی آیت 155، 156 میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں ''اور البتہ یقینا ہم تمہیں آزمائیں گے کچھ خوف ، کچھ بھوک ، کچھ مالی وجانی اور پھلوں کے نقصان کے ذریعے اور بشارت دو صبر کرنے والوں کو ، کہ جب ان کو مصیبت پہنچتی ہے تو وہ کہتے ہیں بے شک ہم اللہ کے لیے ہیںاور ہم نے اسی کی طرف پلٹ کر جانا ہے ‘‘۔ نیکو کار افراد کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنے والی آزمائشوں پر ثابت قدم رہنا چاہیے اور ہر طرح کی تکالیف کو خندہ پیشانی سے برداشت کرنا چاہیے۔ 
2۔گناہوں کی کثرت : قرآن مجید نے گناہوں اور آفات کے باہمی تعلق کو مختلف مقامات پر واضح کیا ہے۔ سورہ شوریٰ کی آیت نمبر 30 میں ارشاد ہوا : ''اور جو مصیبت تمہیں پہنچتی ہے وہ تمہارے ان اعمال کی وجہ سے ہے‘جو تمہارے ہاتھوں نے کمائے ہیں اور وہ بہت سے قصوروں سے درگزر کرتا ہے‘‘۔ اس طرح سورہ روم کی آیت نمبر 41 میں ارشاد ہوا: ''خشکی اور سمندر میں فساد برپا ہو گیا لوگوں کے ہاتھوں کی کمائی کی وجہ سے تاکہ اللہ ان کو ان کے کیے بعض کاموں کا مزہ چکھائے شاید کہ وہ واپس پلٹ جائیں‘‘۔ ان آیات سے یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ انسانوں کے گناہوں کے نتیجے میں معاشرے آفات کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ان اقوام کا بھی ذکر کیا جو اپنے گناہوں کی وجہ سے تبا ہ ہو گئیں ۔
آج اگر ہم اپنے گردوپیش دیکھیں تو ہمارے معاشرے میں اقوام ِ سابق والی تمام برائیاں موجود ہیں۔ بداعتقادی کی کیفیت یہ ہے کہ ستارہ پرستی سے لے کر جادو ٹونے تک قوم مختلف قسم کے توہمات میں پھنسی ہوئی ہے۔ بے حیائی کا چلن عام ہے، جسم فروشی کا دھندہ عروج پر ہے، قسم قسم کے جنسی جرائم وجود میں آچکے ہیں، معصوم بچے بھی بداخلاقی سے محفوظ نہیں ۔ کاروباری معاملات میں اللہ اور اس کے رسولﷺ کی تعلیمات کو پامال کیا جارہا ہے۔ شراب کی خریدو فروخت اور سودی لین دین کے ذریعے فوائد حاصل کئے جا رہے ہیں۔ ریس کے جوئے سے کرکٹ پر شرطیں باندھنے تک بڑے پیمانے پر احکام شریعت کی کھلم کھلا خلاف ورزی کی جارہی ہے۔ ان حالات میں اگر ہمارا معاشرہ آفات کا شکار اور ہمارا ملک مسائل کی دلدل میں دھنسا ہوا ہے تو اس میں اچنبھے والی بات کون سی ہے۔ اگر ہم ان آفات سے نجات حاصل کرنا چاہتے ہیں توہمیں کم ازکم تین تدابیراختیار کرنا ہوں گی: 
الف ۔ توبہ : اگر انسان توبہ کرے تو اللہ تعالیٰ اس کے بڑے سے بڑے گناہوں کو معاف فرما دیتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے سورہ فرقان کے آخری رکوع میں شرک ، زنا اور قتل جیسے کبیرہ گناہوں کا ذکرکیا : ''اور جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو نہیں پکارتے اور جس جان کو اللہ تعالیٰ نے حرام کیا اُسے قتل نہیں کرتے مگر حق کے ساتھ اور وہ زنا نہیں کرتے اور جو شخص یہ کام کرے گا وہ اپنے گناہوں کی سزا پائے گا ۔ قیامت کے دن اس کو دوگنا عذاب دیا جائے گا اور اسی میں ہمیشہ ذلیل ہو کر رہے گا مگر جو شخص توبہ کرے، ایمان لائے اور نیک عمل کرے تو ایسے لوگوں کی برائیوں کو اللہ تعالیٰ نیکیوں کے ساتھ بدل دے گا ‘‘۔ اسی طرح سورہ زمر کی آیت نمبر 53 میں ارشاد فرمایا:''کہہ دو کہ اے میرے بندو جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس نہ ہوں، یقینا اللہ تعالیٰ سب گناہوں کوبخش دیتا ہے‘‘۔
ب ۔ اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کرنا : توبہ کے علاوہ انسان کو اللہ تعالیٰ سے بخشش اور مغفرت طلب کرتے رہنا چاہیے۔ استغفار بڑا بابرکت عمل ہے، حضرت نوح علیہ السلام نے اپنی قوم کو اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کرنے کی تلقین کی اور ان کو اس عمل کے فوائد سے آگاہ کیا۔ سورہ نوح میں فرمایا : ''پھر میں نے کہا اپنے رب سے معافی مانگو یقیناً وہ بڑا معاف کرنے والا ہے ۔وہ آسمان سے تم پرخوب بارشیں برسائے گا ، مال اور بیٹوں کے ساتھ تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے لیے باغات پیدا کرے گا اور تمہارے لیے نہریں جاری کر دے گا‘‘۔ 
ج۔ پرہیز گاری اختیار کرنا : جو شخص اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہوئے نافرمانی سے اجتناب کرتا ہے اس کے لیے اللہ تعالیٰ آسمان اور زمین سے برکتوں کے دروازے کھول دیتے ہیں۔ سورہ اعراف میں ارشاد ہوا : ''اور اگر بستیوں کے لوگ ایمان لاتے اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین سے برکتیں کھو ل دیتے لیکن انہوں نے جھٹلایا پھر ہم نے ان کو اس کے بدلے میں پکڑ لیا جو وہ کماتے تھے‘‘۔ سورہ طلاق کی دوسری اور تیسری آیت میں تقویٰ کے یہ فوائد بیان ہوئے :''اور جو کوئی اللہ تعالیٰ سے ڈرتا رہے گا اللہ تعالیٰ اس کے لیے نکلنے کا کوئی راستہ پیدا کر دے گا اور اس کو رزق وہاں سے دے گا جہاں سے اس کا گمان بھی نہیں ہوگا‘‘۔
3 ۔ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی ناشکری : بستیوں ، شہروں اور اقوام کو جن وجوہ کی بنا پر آفات و مصائب کا سامنا کرنا پڑتا ہے ان میں سے ایک بڑی وجہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی ناشکری بھی ہے ۔ کفرانِ نعمت سے اللہ تعالیٰ ناراض ہو جاتا ہے۔ سورہ ابراہیم میں ارشاد ہوا:''اور جب تمہارے رب نے خبردار کیا تھا کہ اگر تم شکر ادا کرو گے تو میں تمہیں ضرور اور زیادہ دوں گا اور اگر تم ناشکری کرو گے تو یقیناً میرا عذاب بڑا سخت ہے‘‘۔ قرآن مجید میں سبا کی بستی کا ذکر ہواجو ناشکری کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے غضب کا نشانہ بنی۔ سورہ نمل میں فرمایا: ''اور اللہ تعالیٰ ایک بستی کی مثال بیان کرتے ہیں جو پر امن اور مطمئن تھی۔ اس کا رزق بہ فراغت اس کے پاس ہر جگہ سے آرہاتھا پھر(اُس بستی نے) اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی ناشکری کی‘ تو اللہ تعالیٰ نے اسے بھوک اور خوف کا مزا چکھایا ان(بستی والوں) کے اعمال کے سبب جو وہ کر رہے تھے‘‘۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ہمیں پاکستان کی شکل میں آزادی کی نعمت سے نوازا۔ خوبصورت موسم، زراعت اور معدنیات کی نعمتوں بھرا ملک عطا فرمایا لیکن ہم نے ناشکری کی جس کے نتیجے میں مسائل کی دلدل میں دھنس گئے۔اگر ہم اپنے مسائل اور قدرتی آفات سے چھٹکارا چاہتے ہیں تو ہمیں شکر گزار بننا چاہیے۔ ارشاد ہوا :''اللہ تعالیٰ تمہیں عذاب دے کرکیا کرے گا اگر تم شکرگزاری کرو اور ایمان لاؤ؟‘‘۔(سورۃ النسآء:147)
4 ۔ رسول اللہﷺکے طریقے سے انحراف : رسول اللہﷺ کی حیات مبارکہ امت مسلمہ کے لیے بہترین نمونہ ہے۔ آپ فرد کی زندگی سے لے کر سماج کی زندگی تک اور معاشرتی معاملات سے لے کر ریاستی معاملات تک ہمارے لیے عمدہ مثال کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ آپ کے طریقے سے انحراف کی وجہ سے امت مسلمہ اور بالخصوص پاکستان بحرانوں کا شکار ہے۔ اللہ تعالیٰ سورہ نورکی آیت نمبر 63میں ارشادفرماتے ہیں : ''پھر جو لوگ رسول اللہﷺکے حکم کی نافرمانی کرتے ہیں ان کو ڈرنا چاہیے کہ ان پر کوئی آزمائش یا دردناک عذاب آجائے‘‘۔ ان ساری آفات سے بچنے کے لیے ہمیں آپﷺ کی غیر مشروط اتباع کرنا ہوگی ۔ سورہ آل عمران کی آیت نمبر 21 میں ارشاد ہوا : ''آپ کہہ دیں کہ اگر تم اللہ تعالیٰ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو،اللہ تعالیٰ تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہ معاف کر دے گا ‘‘۔
5۔ مجرموں کے لیے عذاب : اگرچہ گناہ گاروںکے لیے اللہ تعالیٰ نے آخرت میں جہنم کے عذاب کو تیار کر رکھا ہے لیکن زمین پر فساد پھیلانے والے اوراللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں ہر حد کو عبور کرنے والے لوگ کئی مرتبہ قدرتی آفات کی زد میں بھی آجاتے ہیںجیسے ماضی میں قوم نوح، قوم عاد، قوم ثمود، قوم لوط اور اصحاب مدین اللہ تعالیٰ کے غضب کا نشانہ بنے۔ اسی قبیل کے باغی لوگ بھی قدرتی آفات کی زد میں آکر اللہ کے غضب کا نشانہ بن کر بعد آنے والی اقوام کے لیے عبرت کی علامت بن جاتے ہیں۔ من حیث القوم قرآن وسنت میں مذکور تعلیمات سے روشنی حاصل کر کے ہم نہ صرف قدرتی آفات کا درست تجزیہ کر سکتے ہیں بلکہ ان پر قابو بھی پا سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں قرآن و سنت کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے ۔ (آمین)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں