"AIZ" (space) message & send to 7575

بیٹی کی حق تلفی

اولاد اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے اور ہر شخص کو اس نعمت کی قدر کرنی چاہیے۔ انسان کے بیٹے اور بیٹیاں اس کے حسن سلوک کے مستحق ہیں‘ لیکن دیکھنے میں آیا ہے کہ کئی لوگ بیٹیوں کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کرتے۔ کئی مرتبہ اخبارات میں سگے باپ کے ہاتھوں بیٹی کے قتل تک کی خبریں پڑھنے کو ملتی ہیں۔ بالخصوص ایسی خبریں ہم آئے روز پڑھتے رہتے ہیں کہ باپ نے غیرت کے نام پر بیٹی کو قتل کر دیا۔ کئی بار اس طرح کی خبریں بھی پڑھنے کو ملتی ہیں کہ بیٹی کی پیدائش پر شوہر نے غضبناک ہو کر بیوی کو قتل کر ڈالا۔ ایسے ناحق خون کا سب سے بڑا المیہ یہ ہوتا ہے کہ اکثر ان واقعات کی تفتیش نہیں ہوتی۔ گھریلو اور خاندانی سطح پر ہونے والے گٹھ جوڑ کے نتیجے میں مجرم یا تو گرفتار نہیں ہوتا اور اگر گرفتار ہو جائے تو اسے قرار واقعی سزا نہیں ملتی۔ زمانہ جاہلیت میں بیٹی کے ساتھ بُرا سلوک کیا جاتا تھا۔ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بیٹیوں کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا اور بیٹیوں کو زندہ درگور کرنے کی رسم بد کا خاتمہ کیا۔ 
اگرچہ کہنے کو تو ہمارا معاشرہ بہت ترقی کر چکا ہے، لیکن آج بھی درجنوں طریقوں سے عورت کا استحصال جاری ہے اور ہمارے طرز عمل سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہم اب بھی دور جاہلیت کے غلط نظریات اور تصورات سے نجات حاصل نہیں کر سکے۔ کئی گھرانوں میں بیٹی کی پیدائش سے قبل ہی اس کا استحصال شروع ہو جاتا ہے۔ جاہل شوہر دوٹوک انداز میں بیوی سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اسے ہر صورت میں بیٹے کو جنم دینا چاہیے، بچی کی پیدائش کی صورت میں اسے سنگین نتائج کی دھمکیاں دی جاتی ہیں۔ شوہر اس بات کو فراموش کر دیتے ہیں کہ بیٹے یا بیٹی کی پیدائش عورت کے اختیار میں نہیں ہوتی، یہ خالق و مالکِ کائنات کا فیصلہ ہوتا ہے، وہ جسے چاہتا ہے بیٹی دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے بیٹا عطا فرماتا ہے۔ بیٹی کی پیدائش پر مغموم ہونا اہل ایمان کا طریقہ نہیں بلکہ کافرانہ ادا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کی سورہ نحل کی آیت نمبر 58 اور 59 میں کافروں کے طریقے کا ذکر کیا ہے: ''جب ان میں سے کسی کو لڑکی کی خوش خبری دی جاتی ہے تو اس کا چہرہ سیاہ ہو جاتا ہے اور وہ غم سے بھرا ہوتا ہے۔ اس خوشخبری کی وجہ سے لوگوں سے چھپتا پھرتا ہے۔ آیا ذلت کے باوجود اسے (اپنے پاس) رکھے یا مٹی میں گاڑ دے۔ آ گاہ رہو اس کا فیصلہ بہت برا ہے‘‘۔ اسی طرح سورہ زخرف کی آیت نمبر 17 میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: ''اور جب ان میں سے کسی کو اُس چیز کی خوش خبری دی جائے کہ جس کی اس میں رحمن کے لئے مثال بیان کی ہے تو اس کا چہرہ سیاہ ہو جاتا ہے اور وہ غم سے بھرا ہوتا ہے‘‘۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو بیٹیوں کی پیدائش پر غم زدہ ہونے سے منع فرمایا ہے۔ امام احمد اور امام طبرانی رحمھما اللہ نے عقبہ بن عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت نقل کی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ''بیٹیوں کو ناپسند نہ کرو کیونکہ وہ تو پیارکرنے والی قیمتی چیزیں ہیں‘‘۔ 
بیٹیوں کی پیدائش پر غم کرنے والے لوگ زندگی کے طویل برسوں کے دوران بھی ان سے شفقت کا وہ سلوک نہیں کرتے جس کی وہ مستحق ہوتی ہیں اور عام طور پر ان کی ضروریات کو بھی خندہ پیشانی سے پورا نہیں کیا جاتا۔ یہ رویہ ہر اعتبار سے قابل مذمت ہے۔ اہل ایمان کو ہر حال میں بیٹیوں کے ساتھ پیار اور محبت والا معاملہ رکھنا چاہیے اور کھلے دل سے ان کی ضروریات کو پورا کرنا چاہیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیٹیوں کے ساتھ حسن سلوک کرنے والے باپ کی مختلف انداز میں تحسین فرمائی ہے۔ بخاری اور مسلم شریف میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ''جس شخص کو تین بیٹیوں کے ساتھ آزمائش میں ڈالا گیا اور اس نے ان کے ساتھ احسان کیا تو وہ اس کے لیے آگ کے مقابلے میں رکاوٹ ہوں گی‘‘۔ یہ بیٹیاں اپنے نیک باپ کو صرف آگ سے ہی نہیں بچائیں گی بلکہ اس کو جنت میں بھی داخل کروائیں گی۔ اسی طرح امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ادب مفرد اور امام ابن ماجہ رحمۃ اللہ علیہ نے سنن ابن ماجہ میں ایک اور حدیث کو نقل فرمایا ہے کہ ''کوئی شخص ایسا نہیں ہے کہ جس کے ہاں دو بیٹیاں ہوں اور وہ دونوں جب تک اُس کے ساتھ رہیں یا وہ ان کے ساتھ رہے، احسان کرتا رہے تو وہ دونوں اس کو جنت میں داخل کروائیں گی‘‘۔ 
بعض اوقات باپ تو بیٹیوں سے حسن سلوک کرتا ہے لیکن مائیں ان کے ساتھ بخل کا مظاہرہ کرتی ہیں۔ وہ ماں جو اپنی بیٹیوں کے ساتھ ایثار والا معاملہ کرتی ہے وہ بھی حدیث کے مطابق جنت کی مستحق ٹھہرے گی۔ امام مسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت نقل کی ہے کہ انہوں فرمایا: ''میرے ہاں ایک مسکین عورت اپنی دو بیٹیوں کو اُٹھائے ہوئے آئی، میں نے اسے کھانے کے لیے تین کھجوریں دیں، اس نے دونوں بیٹیوں کو ایک ایک کھجور دے دی اور ایک کھجور کو خود کھانے کے لیے منہ کی طرف اُٹھایا تو دونوں بیٹیوں نے اس سے وہ کھجور مانگ لی تو اس نے وہ کھجور بھی دونوں میں تقسیم کر دی۔ اس عورت کے طور طریقے نے مجھے حیرت زدہ کر دیا۔ میں نے اس کے طرز عمل کا ذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے روبرو کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ''یقیناً اللہ تعالیٰ نے (اس کے اس عمل)کی وجہ سے اس پر جنت کو واجب کر دیا‘‘۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مقام پر بیٹیوں کے ساتھ حسن سلوک کرنے والے کو قیامت کے روز اپنی معیت اور قربت کی بشارت دی ہے۔ امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت انس ؓ سے روایت نقل کی ہے کہ ''جس شخص نے دو بیٹیوں کی بلوغت کو پہنچنے تک تربیت کی، وہ قیامت کے دن (اس طرح) آئے گا کہ میں اور وہ (اکٹھے ہوں گے) اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگلیوں کو ملا دیا‘‘۔ 
بعض لوگ رشتہ کرتے وقت اپنی بیٹیوں کی پسند ناپسند کا خیال نہیں کرتے۔ انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ نکاح کے وقت جہاں ولی کا ہونا ضروری ہے وہیں عورت کی رائے کا معلوم ہونا بھی ضروری ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیات مبارکہ میں ایسا نکاح منسوخ کر دیا تھا جس میں عورت کی رضا مندی شامل نہیں تھی۔ بعض لوگ تحفے تحائف دیتے وقت بیٹے اور بیٹیوں میں تفریق کر تے ہیں، یہ بھی بیٹی کا استحصال ہے۔ از روئے شریعت ہدیہ دیتے وقت بیٹے اور بیٹیوں میں مساوات ہونی چاہیے۔ بیٹیوں کے استحصال کا ایک اور انداز ان کو وراثت سے محروم کرنا ہے۔ وراثت اللہ کا حکم ہے اور اس کو حیلے بہانے سے ہڑپ کرنے والے قیامت کے دن اللہ کی بارگاہ میں جواب دہ ہوں گے۔ اسلام کی آفاقی تعلیمات کا مطالعہ کرنے کے بعد اس بات کو سمجھنا چنداں مشکل نہیں کہ جدید قوانین و نظریات کے ذریعے عورت کے حقوق کا تحفظ کرنے کی کوئی بھی کوشش عورت کے استحصال کو نہیں روک سکتی۔ عورت کا استحصال روکنے کا بہترین اور واحد طریقہ یہی ہے کہ ہم انفرادی اور اجتماعی زندگیوں کو قرآن و سنت کے سانچے میں ڈھالیں اور ہر خاص و عام کو اسلام کی تعلیمات سے آگاہ کرنے کی کوشش کریں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں