"AIZ" (space) message & send to 7575

خلیفہ اوّل حضرت ابو بکر صدیق ؓ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عقیدہ وعمل کی اصلاح کے ساتھ ساتھ اپنی حیاتِ طیبہ میں اسلامی ریاست کی بنیاد بھی رکھی۔ اس اسلامی ریاست کی مضبوطی اور توسیع کے لیے خلفائے راشدین نے مثالی کردار ادا کیا۔ خلفائے راشدین میں سے جس شخصیت کو سب سے پہلے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جانشینی کا شرف حاصل ہوا وہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں۔ آپ کے شرف اور مقام کو سمجھنے کے لیے قرآن مجید کی سورہ نساء کی آیت نمبر29 کا مطالعہ کرنے سے انسان کو آپ کی شان اور عظمت کا اندازہ ہوتا ہے۔ 
اللہ تعالیٰ نے سورۃ النساء کی آیت 29 میں انعام یافتہ لوگوں کے چارگروہوں کا ذکرکیا ہے جن میں سر فہرست انبیاء ہیں جبکہ انبیاء علیہم السلام کے علاوہ صدیقین، شہداء اور صلحاء بھی اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی تابع فرمانی کی وجہ سے کامیابی و کامرانی کے حق دار قراردیے گئے ہیں۔اللہ تعالیٰ نے نبوت و رسالت کے سلسلے کو حضرت محمدرسول اللہ ﷺ کی ذات اقدس پر تمام کر دیااور سورۃ الاحزاب کی آیت 40 میں واضح فرما دیا کہ نبی کریم ﷺ کے بعد کوئی بھی شخص منصب نبوت پر فائز نہیں ہو سکتا، لیکن آپ کے بعد صدیقین ، شہداء اور صلحاء آسکتے ہیں۔حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یہ عظمت اور شان حاصل ہے کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زبان رسالت مآب سے آپ کو صدیق قرار دیا۔ بہت سے مفسرین کے مطابق حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی کے بارے میں سورۃ الزمرکی آیت 33 میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ آپ ؓ نے نبی کریم ﷺ کے ذریعے ملنے والے پیغام حق کی تصدیق کی۔ حضرت ابو بکر صدیقؓ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ آپ ؓ نے مردوں میں سب سے پہلے اسلام قبول کیا اور آپ نے اس دور میں دین حق سے وابستگی اختیارکی جب دین کو قبول کرنا انگاروں پر چلنے کے مترادف تھا۔ اسلام قبول کرنے والے لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے اسلام کی جانچ پڑتال کی اور نبی کریم ﷺ سے نشانی یا معجزات طلب کیے‘ لیکن حضرت ابو بکر صدیق ؓ چونکہ نبی کریم ﷺ کی سیرت مبارکہ اور اوصاف حمیدہ سے پور ی طرح آگاہ تھے‘ اس لیے جب نبی ﷺ نے اسلام کی دعوت دی تو آپ نے اسے بلا چون وچرا قبول کر لیا۔ امام بخاری ؒ نے حضرت ابو بکر صدیق ؓ کے قبول اسلام کے حوالے سے یہ روایت نقل کی ہے کہ حضرت ابودرداء ؓ فرماتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا '' اے لوگو! جب میں نے کہا کہ میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں تو سب نے میری تکذیب کی جبکہ ابو بکر ؓ نے میری تصدیق کی‘‘۔ 
حضرت ابو بکر صدیق ؓکو اسلام قبول کرنے کی پاداش میں بہت سی تکالیف سہنا پڑیں جنہیں آپ ؓ نے خندہ پیشانی سے برداشت کیا اور صرف خود ہی اسلام پر ایمان واستقامت اختیار نہیں کی بلکہ بہت سے ان لو گوں کی ڈھارس بھی بندھاتے رہے جو اسلام لانے کی وجہ سے مصائب کا شکار ہوئے۔ آپ ؓ نے ان کی دلجوئی کے لیے گاہے اپنا مال واسباب بھی خرچ کیا۔ اللہ کی رضا اور خوشنودی کے لیے مال خرچ کرنے کی وجہ سے سورۃ اللیل کی آیات 17 سے 21 میں اللہ تعالیٰ نے حضرت ابو بکر صدیق ؓکی توصیف کرتے ہوئے ارشاد فرمایا''جو پاکی حاصل کرنے کے لیے اپنا مال دیتا ہے،کسی پر اس کا کوئی احسان نہیں کہ جس کا بدلہ دیا جا رہا ہو بلکہ اس کو صرف اپنے بزرگ و بلند پروردگارکی رضا مطلوب ہے اور عنقریب اللہ بھی اس سے راضی ہو جائیںگے‘‘۔ حضرت ابو بکر صدیق ؓ ہر وقت حضرت رسول اللہ ﷺ کے حکم کے منتظر رہتے تھے کہ آپ کا حکم ہو اور آپؓ اپنے نبی ﷺ کے حکم کی تعمیل میں اپنا مال خرچ کر سکیں۔ مسند احمد میں ایک روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ایک موقع پر ارشاد فرمایا: ''کسی کے مال نے مجھے ابو بکرکے مال جتنا فائدہ نہیں پہنچایا‘‘۔ آپ کے اس فرمان پر حضرت ابو بکر صدیق ؓ رو پڑے اور عرض کی : ''اے اللہ کے رسول میں اور میرا مال تو آپ ہی کا ہے‘‘۔ 
امام ابن عساکرؒ نے روایت نقل کی ہے حضرت عروہ بن زبیراور حضرت عائشہؓ فرماتے ہیں: ''جس دن حضرت ابو بکر صدیق ؓ نے اسلام قبول کیا ان کے پاس چالیس ہزار دینار تھے اور ایک دوسری روایت کے مطابق چالیس ہزار درہم تھے جن کو آپ ؓ نے اللہ کے نبی ﷺ پر خرچ فرمادیا تھا‘‘۔ اور امام ابن عساکرؒ ہی نے ایک موقع پر حضرت عائشہ ؓ سے روایت نقل کی کہ''حضرت ابو بکر صدیق ؓ نے ایسے 7 غلاموں کو آزاد کروایا جن میں سے ہر ایک کو اللہ کی تو حیدکی وجہ سے اذیت کا نشانہ بنایا جارہا تھا‘‘۔ 
مکہ کی زمین کو جب مسلمانوں پر تنگ کر دیا گیا تو نبی کریم ﷺ کے حکم پر مسلمانوں کی ایک جماعت حبشہ ہجرت کر گئی جبکہ نبی کریم ﷺ خود اللہ کے حکم کے منتظر رہے کہ جب اللہ کا امر ہو تو آپ بھی سرزمین مکہ کو دیگر مسلمانوں کے ہمراہ خیر باد کہیں۔ جب اللہ تعالیٰ نے نبی ﷺ کو ہجرت کی اجاز ت دی تو آپ ﷺ کی رفاقت کے لیے حضرت ابو بکر صدیق ؓ کو منتخب فرمایا۔ مکہ مکرمہ سے مدینہ جاتے ہوئے سفر کی تمام تکلیفوں میں حضرت ابو بکر صدیق ؓ نبی ﷺ کے ہمراہ تھے۔ غار ثورکی تنہائیوں میں حضرت ابوبکر ؓکو اس بات کی فکر تھی کہ کہیں کافر آپ ﷺکو نقصان نہ پہنچادیں۔ اللہ تعالیٰ کو حضرت ابو بکر صدیق ؓ کی جانثارانہ ادائیں اتنی پسند آئیںکہ اللہ نے قیامت تک ان کو اپنے کلام کا حصہ بنا دیا۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃالتوبہ کی آیت 40 میں ارشاد فرمایا:'' اگر تم ان کی مدد نہ کرو تو اللہ ہی نے ان کی مدد کی‘ اس وقت جب کافروں نے ان کو دیس سے نکال دیا تھااور دو میں سے دوسرے ان کے ہمراہ تھے‘ جبکہ وہ دونوں غار میں تھے، جب آپ ﷺ اپنے ساتھی سے کہہ رہے تھے کہ غم نہ کرو اللہ ہمارے ساتھ ہے‘‘۔ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ کو حضرت ابو بکر صدیقؓ کی ہمراہی میں بحفاظت مدینہ منورہ منتقل فرمادیا، لیکن مدینہ طیبہ کا قیام بھی اہل اسلام کے لیے پھولوں کی سیج ثابت نہ ہوا ۔کفار مکہ حسد اور انتقام کے جذبے سے مغلوب ہوکر بار بار مدینہ پر فوج کشی کرتے رہے۔ اللہ کے رسولﷺ نے بھرپور جرأت اور بہادری سے اپنے صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کی ہمراہی میں کافروں کا مقابلہ کیا۔ اسلامی ریاست کے دفاع اور استحکام کے لیے لڑی جانے والی ان تمام جنگوں میں حضرت ابو بکر صدیق ؓ رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ ہوا کرتے تھے۔ رومی سیکٹر پر لڑی جانے والی جنگ ، جنگ تبوک میں نبی ﷺ نے مسلمانوں کو بڑھ چڑھ کر اپنا مال خرچ کرنے کی تلقین کی جس پر حضرت ابو بکر صدیق ؓ نے اپنے گھرکا سارا سامان اللہ کی رضا کے لیے وقف کر دیا۔ شاعر مشرق علامہ محمد اقبالؒ نے اسی حوالے سے ارشاد فرمایا:
پروانے کو چراغ ہے‘ بلبل کو پھول بس
صدیق کے لیے ہے خدا کا رسول بس!
آپ ؓ نے حضرت خدیجۃالکبریٰ ؓ کے انتقال کے بعد بھی نبی کریمﷺ سے والہانہ محبت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی لخت جگر حضرت عائشہؓ کو آپ ﷺ کے حرم پاک میں داخل فرمادیا۔ گو کہ سیدہ خدیجۃ الکبری ؓ کاخلا اور کمی پوری نہ ہو سکی لیکن حضرت عائشہ کی شکل میں نبی کریم ﷺ کو بہت زیادہ محبت اور خدمت کرنے والی شریک زندگی میسر آگئی۔ نبی کریم ﷺ کی حیات مبارکہ کے آخری ایام میں حضرت ابو بکر صدیقؓ کو مسلمانوں کی امامت کا حکم دیا گیا اورنبی کریمﷺ آپؓ کی امامت میں لوگوں کو جمع فرماکر ہی دنیا سے رخصت ہوئے۔ آپ ﷺ کے انتقال کے بعد حضرت ابوبکر صدیق ؓ خلیفۃ المسلمین بنے اور حضرت رسول اللہ ﷺ کی سیرت و تعلیمات کے مطابق حکومت کرتے رہے۔ آپؓ نے اپنے عہد مبارک میں مرتدین کی سرکوبی کی، مانعین زکوٰۃ سے زکوٰۃ وصول کی، مسیلمہ کذاب کے فتنے کا قلع قمع کیا، سادگی اور قناعت کی اعلیٰ مثالیں قائم کیں اور اسلامی سلطنت کو درپیش چیلنجزکا پورے وقاراور حوصلے سے مقابلہ کیا۔
دو سال دو مہینے کے قلیل عرصے میں مستحکم اور منظم اسلامی حکومت قائم کر کے 22 جمادی الثانی کو اس دار فانی سے کوچ کرگئے۔ آپ ؓ کے شرف اور خوش نصیبی کا کیا کہنا کہ آپؓ کوآغاز اسلام میں سفر ہجرت سے رسول اللہ ﷺکی ہمراہی حاصل رہی۔ غار کی رفاقت کے دوران نبی ﷺ کی غیر معمولی قربت کا جوامتیازی اعزاز آپؓکو حاصل ہوا وہ انتقال کے بعد بھی برقرار رہا اور آپ ؓتا قیامت نبی کریم ﷺ کے حجرہ مبارک میں آپ ہی کے دامن میں محوخواب ہوگئے۔ اس طرح آپؓ کی نبی کریمﷺ سے محبت اور رفاقت پر مہر تصدیق ثبت کر دی گئی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں