"AIZ" (space) message & send to 7575

آٹھویں پارے کا خلاصہ

آٹھویں پارے میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: اگر ہم ان پر فرشتے اتار دیتے اور ان سے مردے بات کرنے لگتے اور ہر چیز کو ان کے سامنے لاکھڑا کر دیتے تو وہ ایمان لانے والے نہیں تھے سوائے اس کے کہ اللہ چاہے۔ یہ آیت اس وقت نازل ہوئی‘ جب مشرکین مکہ اور کفار عرب نے رسول کریمﷺسے مختلف طرح کی نشانیوں کو طلب کرنا شروع کیا۔ کبھی وہ کہتے کہ ہمارے اوپر فرشتے اترنے چاہئیں ‘کبھی وہ کہتے کہ اگر تم سچے ہوتو ہم اپنے پروردگار کو خود اپنی آنکھوں سے دیکھنا چاہتے ہیں اور کبھی وہ کہتے کہ ہمارے آبا جودنیا سے چلے گئے ہیں ان کو دوبارہ زندہ کرو۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے رسول کریم ﷺکو کافروں کی سرشت سے آگاہ کیا کہ ان کافروں کی نشانیاں طلب کرنے والی بات کوئی حق پرستی پر مبنی نہیں‘ بلکہ یہ تو صرف اور صرف حق سے فرار حاصل کرنے کے لیے اس قسم کے مطالبات کر رہے ہیں۔ 
جناب ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے بغیر کسی نشانی کے اسلام کو قبول کر لیا‘ جبکہ مکہ کے بہت سے کافر متعدد نشانیوں کو دیکھ کر بھی مسلمان نہ ہوئے۔اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ بھی ارشاد فرمایا ہے کہ زمین پر رہنے والوں کی اکثریت کی پیروی کرنے سے انسان گمراہ ہو جا تا ہے۔ اس پارے میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں‘ جس چیز پر غیر اللہ کا نام لیا جائے ‘اُسے کھانا درست نہیں۔ اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ بھی بتلایا ہے کہ اللہ نے یہودیوں پر ان کی بغاوت اور سرکشی کی وجہ سے ہر ناخن والا جانور حرام کر دیا اور گائے اور بکری کی پیٹھ پر لگی چربی کے علاوہ باقی چربی کو بھی ان پر حرام کر دیا‘ لیکن یہودیوں کی سرکشی کا عالم یہ تھا کہ وہ چربی بیچ کر کھانا شروع ہو گئے۔ بخاری ومسلم نے ابوہریرہص سے اس روایت کو نقل کیا ہے کہ رسول کریم ﷺنے فرمایا: ''اللہ کی مار ہو یہود پر جب چربی ان کے لیے حرام کر دی گئی تو اسے پگھلا کر بیچ دیا اور اس کی قیمت کھا گئے۔‘‘
اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے اولاد کے قتل کی شدید مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ وہ لوگ گھاٹے میں ہیں ‘جنہوں نے اپنی اولادوں کو بے وقوفی کے ساتھ قتل کردیا اور اپنی مرضی سے اللہ تعالیٰ کے جائز کیے ہو ئے رزق کو حرام قرار دیا ۔
اس پارے میں اللہ تعالیٰ یہ بھی ارشاد فرماتے ہیں کہ جب فصلوں کی کٹائی کا دن آئے ‘اس دن اللہ تعالیٰ کے حق کو ادا کیا کرو ۔جب اللہ تعالیٰ ہر چیز عطافرماتے ہیں تو اس کا حق بھی بروقت ادا ہونا چاہیے۔ اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے رزق کی‘ ان چار بڑی اقسام کا بھی ذکر کیا‘ جو انسانوں پر حرام ہیں۔ پہلا رزق‘ جو انسانوں پر حرام ہے ‘وہ مردار ہے‘ اسی طرح بہتا ہوا خون انسانوں پر حرام ہے‘ اسی طرح خنزیر کا گوشت بھی انسانوں پر حرام ہے اور اسی طرح غیر اللہ کے نام کا ذبیحہ بھی انسانوں پر حرام ہے ۔
اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے مشرکین کے اس غلط عذر کو بھی رد کیا کہ وہ اپنے اور اپنے آباواجداد کے بارے میں کہیں گے‘ اگر اللہ تعالیٰ چاہتا توہم اور ہمارے آباواجداد ہرگز شرک نہ کرتے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں یہ اور ان سے پہلے لوگ بھی اسی طرح جھوٹ تراشتے رہے اللہ تعالیٰ مزید کہتے ہیں کہ اے نبی آپ ان کو کہہ دیجئے کہ( جو اللہ نے تحریر کیا ہے)کیا تم اس کو جانتے ہو؟اگر جانتے ہو تو اس کو ہمارے سامنے پیش کرو ۔ گویا کہ اللہ تعالیٰ یہ ارشاد فرما رہے ہیں کہ لوگ غلطی تو خود کرتے ہیں‘ لیکن خو اہ مخواہ اللہ تعالیٰ کی ذات کو موردِ الزام ٹھہراتے ہیں ۔
اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے بعض کبیرہ گناہوں کا بھی ذکر کیا کہ اللہ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ شرک نہیں کرنا چاہیے‘ والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنا چاہیے‘ اپنی اولاد کو بھوک کے خوف سے قتل نہیں کرنا چاہیے‘ فحاشی چاہے چھپی ہوئی ہو ‘چاہے علانیہ ہو‘ اس کے قریب بھی نہیں جانا چاہیے ‘کسی کو ناحق قتل نہیں کرنا چاہیے‘ یتیم کے مال کو نا جائز طریقے سے استعمال نہیں کرنا چاہیے‘ ترازو کو صحیح طریقے سے پکڑ نا چاہیے‘ جب بات کی جائے عدل سے کرنی چاہیے‘ چاہے قریبی عزیز بھی اس کی زد میں آئے اور اللہ تعالیٰ سے کیے گئے یا اس کے نام پر کیے گئے وعدوںکو پُوراکرنا چاہیے اور ان تمام نصیحتوں کا بنیا دی مقصد انسانوں میں عقل اور تقویٰ کو پیدا کرنا ہے ۔
اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کی بھی بڑی شدت سے مذمت کی ہے ‘جو اپنے دین میں تفرقہ پیدا کرتے اور گروہوں میں بٹ جاتے ہیں۔ ایسے لوگوںکا معاملہ اللہ کے ذمہ ہے اور اللہ تعالیٰ ان کو اپنے کیے سے آگاہ کرے گا۔ اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے اپنی بے پایاں رحمت کا بھی ذکر کیا ہے کہ جو ایک بُرائی کرے گا‘ اس کو ایک ہی کا بدلہ ملے گا‘ لیکن جو ایک نیکی کرے گا ‘اُسے اس جیسی دس نیکیاں ملیں گی اور انسانوں پر ظلم نہیں کیا جائے گا ۔
اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب علیہ السلام کو حکم دیا ہے کہ وہ اعلان فرمائیں کہ بے شک میری نمازیں میری قربانیاں میرا جینا اور میرا مرنا سبھی کچھ اللہ رب العالمین کے لیے ہے ‘اس کا کوئی شریک نہیں اور مجھے اسی کا حکم دیا گیا اور میں سب سے پہلے اپنے آپ کو اللہ کے سپرد کرنے والا ہوں ۔
اس کے بعد سورہ اعراف ہے اور اس سورت کے آغاز میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ پیارے حبیب علیہ السلام جو قرآن آپ پر نازل کیا گیا ہے‘ آپ اس کی پیروی کریں ۔اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے قیامت کے دن کے وزن کا ذکر کیا ہے کہ کل قیامت کو وزن حق اور انصاف کے ساتھ ہو گا تو جس کا پلڑا بھاری ہو گا وہ کامیاب ہو گا اور جس کا پلڑا ہلکاہو گا تو یہ وہ لوگ ہیں‘ جنہوں نے ہمارے آیات کو رد کر کے اپنی ہی جانوں کا نقصان کیا ۔اس سورہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے ایک بہت بڑے انعام کا بھی ذکر کیا کہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو زمین پر ٹھہرایا اوران کے لئے مختلف طرح کے پیشے بھی بنائے اور پھر بھی کم ہی انسان ہیں جو شکر گزار ہیں ۔
اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے مسجدوں میں آنے کے آداب کا بھی ذکر کیا کہ مسجد میں آتے ہوئے انسانوں کو اپنی زینت کو اختیار کرنا چاہیے اور اچھا لباس پہن کر مسجد میں آنا چاہیے ۔
اسی سورت میں اللہ تعالیٰ نے جہنم کے مناظر کا بھی ذکر کیا ہے کہ اہل جنت جہنمیوں سے مخاطب ہو کر کہیں گے ہم پا چکے ہیں‘ جس کا وعدہ ہمارے رب نے کیا تھا کیا تم کو بھی وہ کچھ مل گیا ‘جس کا تمہارے رب نے وعدہ کیا تھا ‘تو وہ جواب میں کہیں گے ہاں۔ اس پر ایک پکارنے والا پکار کر کہے گا: اللہ کی لعنت ہو ظالموں پر‘ اسی طرح اہل ِنار جہنمیوں سے تقاضا کریں گے کہ جو اللہ نے ان کو پانی اور رزق عطا کیا ہے۔ اس میں سے ان کو بھی دیا جائے تو اہل جنت کہیں گے اللہ نے اس کھانے اور پینے کو اہل نار پر حرام کر دیا ہے۔
اللہ نے اس پارے میں اصحاب اعراف کا بھی ذکر کیاہے۔اصحاب اعراف ایسے لوگ ہوں گے‘ جو جہنم کے عذاب سے محفوظ ہوں گے‘ لیکن اعمال میں کمزوری کی وجہ سے جنت حاصل کرنے میں ناکام ہوجائیں گے ۔ایک مخصوص مدت گزارنے کے بعد اللہ تعالیٰ ان کو جنت میں داخل فرما دے گا ۔ اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو حکم دیا ہے کہ خوف اور طمع کے ساتھ اللہ کو پکارتے رہنا چاہیے ۔بے شک اللہ کی رحمت نیکوکاروں کے قریب ہے ۔اس پارے کے آخری حصہ میں اللہ تعالیٰ نے ان قوموں کا ذکر کیا ہے ‘جو اپنی بد اعمالیوں کی وجہ سے تباہ و برباد ہوئیں‘ ان کا تفصیلی ذکر سورہ ہود میں ہو گا۔ اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں قرآن پڑھنے‘ سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق دے ۔(آمین)
آٹھویں پارے میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: اگر ہم ان پر فرشتے اتار دیتے اور ان سے مردے بات کرنے لگتے اور ہر چیز کو ان کے سامنے لاکھڑا کر دیتے تو وہ ایمان لانے والے نہیں تھے‘ سوائے اس کے کہ اللہ چاہے۔ یہ آیت اس وقت نازل ہوئی‘ جب مشرکین مکہ اور کفار عرب نے رسول کریمﷺسے مختلف طرح کی نشانیوں کو طلب کرنا شروع کر دیا تھا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں