"AIZ" (space) message & send to 7575

گیارہویں پارے کا خلاصہ

گیارہویں پارے کا آغاز سورہ توبہ سے ہوتا ہے ۔سورہ توبہ میں اللہ تعالیٰ نے مہاجر اور انصار صحابہؓ میں سے ایمان پر سبقت لے جانے والے صحابہ کرام کا ذکر کیا ہے کہ اللہ ان سے راضی ہو ااور وہ اللہ تعالیٰ سے راضی ہوئے اور اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے اپنی جنتوں کو تیار کر دیا ہے‘ جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی اور یہ بہت بڑا اجر ہے۔
اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے اس حقیقت کا بھی ذکر کیا کہ مدینہ میں رہنے والے بہت سے لوگ منافق ہیں اور بہت سے لوگ منافقت کی موت مر رہے ہیں؛ اگر چہ رسول اللہ ﷺ ان کو نہیں جانتے تھے‘ مگر اللہ تعالیٰ ان سے اچھی طرح واقف ہیں ۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میں ایسے لوگوں کو عام لوگو ں کے مقابلے میں دوگنا عذاب دوں گا ۔
گیارہویں پارے میں اللہ نے ان منا فقین کا ذکر کیا ہے‘ جو بغیر کسی سبب کے جنگ ِ تبوک میں شریک نہ ہوئے۔ ان منافقوں کے ذہن میں یہ بدگمانی موجود تھی کہ مسلمان تبوک کے محاذ پر شکست سے دوچار ہوں گے ۔اللہ نے اہل ِایمان کی مدد فرمائی اور اپنے فضل ِخاص سے ان کو فتحیاب فرمادیا۔اللہ تعالیٰ نے پیشگی اپنے نبیؐ کو اس بات کی اطلاع دی کہ آپ ان کے پاس پہنچیں گے تو وہ آپ کے سامنے عذر پیش کریں گے ۔اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے حبیبؐ پر اس وحی کو نازل کیا کہ آپ انہیں کہیں کہ بہانے نہ بنائو‘ ہم تم پر یقین نہیں کریں گے ۔اللہ نے تمہاری خبریں ہم تک پہنچادی ہیں اورآئندہ بھی اللہ اور اس کے رسول ﷺ تمہاری حرکتوں پر نظرر کھیں گے ‘پھرتم اس ذات کی طرف لوٹائے جائو گے‘ جو حاضر اورغائب سب کا جاننے والا ہے تو وہ تمہیں تمہارے اعمال کی اصلیت سے آگاہ کرے گا ۔
اس سورت میں اللہ تعالی نے اس بات کابھی ذکرکیاہے کہ نیکی کرنے والوں نے اگراللہ کی راہ میں کوئی چھوٹی بڑی رقم خرچ کی یاکسی وادی کوطے کیاتواس عمل کوان کے نامہ اعمال میں لکھ دیاگیاہے ‘تاکہ اللہ تعالی ان کے کاموں کاان کواچھابدلہ عطافرمائے ۔
رسول اللہ ﷺ نے غزوہ تبوک کے موقع پرصحابہ کرامؓ سے مالی تعاون کاتقاضاکیاتوحضرت عثمان  نے سات سواونٹ مع سامان‘ اللہ کے راستے میں خرچ کردیے تھے۔ حضرت عمر صنے اپنے مال کانصف حصہ اللہ کے راستے میں وقف کردیا‘جبکہ جناب ابوبکر ص نے اپناسارامال رسول اللہ ﷺکی خدمت میں پیش کردیا ۔ رسول اللہ ﷺ نے پوچھاگھرمیں کیاچھوڑ کرآئے ہوتوجناب ابوبکر صنے جواب دیا گھرمیں اللہ اوراس کے رسول ﷺ کی محبت کوچھوڑ کرآیاہوں ۔
اس پارے میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ بے شک اللہ نے مومنوں سے ان کی جانوں اور مالوں کے بدلے جنت کا سودا کر لیا ہے۔ وہ اللہ کے راستے میں جہاد کرتے ہیں‘ اللہ کے دشمنوں کو مارتے ہیں اور خود بھی اللہ تعالیٰ کے راستے میں قتل ہو تے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس تجارت کو انتہائی فائدہ مند تجارت قرار دیا۔
اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرامؓ کے بعض امتیازی اوصاف کا بھی ذکر کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ صحابہ کرام رضی اللہ علیہم اجمعین توبہ کرنے والے‘ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے والے‘ اللہ کی حمد کرنے والے‘ زمین میں پھرنے والے ‘اللہ کے سامنے جھکنے والے‘ اس کی بارگاہ میں سجدہ کرنے والے ‘نیکی کا حکم دینے والے ‘برائی سے روکنے والے اور اللہ تعالیٰ کی حدود کی حفاظت کرنے والے تھے اور ایسے ہی مومنوں کے لیے خوشخبری ہے۔
اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے دینی علم کا بھی فرض کفایہ قرار دیا اور ارشاد ہوا کہ تمام مومنوں کے لیے ضروری نہیں کہ اپنے آپ کو دینی تعلیم کے لیے وقف کریں‘ بلکہ مسلمانوں کو چاہیے کہ ہر گروہ میں سے کچھ لوگ اپنے آپ کو دینی تعلیم کے لیے وقف کریں ‘تاکہ جب اپنی قوم کی طرف واپس پلٹیں تو ان کو اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرا سکیں ۔
اس سورت کے آخر میں جاکر اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کی صفات کا ذکرکیا کہ تم میں سے ایک رسول تمہارے پاس آیا جو کہ کافروں پر زبردست ہے‘ مسلمانوں پر لالچ رکھتا ہے کہ وہ جنت میں چلے جائیں اور مومنوں پر رحم کرنے والا ہے۔ پس‘ اگر وہ رسول اللہ ﷺ کی ذات اور ان کے پیغام سے رو گردانی کر یں تو رسول اللہ ﷺ اعلان فرما دیں کہ میرے لیے اللہ کافی ہے ‘جس کے سوا کوئی معبود نہیں اس پر میرا بھروسہ ہے اور وہ عرش عظیم کا پروردگار ہے ۔
اس پارے میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کیا انسانوں کے لیے یہ تعجب کی بات ہے کہ انہی میں سے ایک مرد پر وحی کو نازل کیا جائے‘ جو اللہ تعالیٰ کی وحی کے ذریعے ان کو ڈرائے ۔اس کے بعد اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے سورج اور چاند کو روشنی عطا کی اور چاند کی منازل کو بھی طے کیا ‘تا کہ تم اسکے ذریعے سالوں اور مہینوں کا حساب لگائو۔ اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ بھی بتلایا کہ بے شک زمین اور آسمان کی تخلیق اور رات اور دن کے آنے جانے میں اللہ سے ڈر نے والوں کے لیے نشانیاں ہیں ۔
اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کو مخاطب ہو کر کہا کہ اے لوگو !تم تک تمہارے رب کی نصیحت آپہنچی ہے ‘جو شفا ہے‘ سینے کی بیماریوں کے لیے اور ہدایت اور رحمت ہے اہل ایمان کے لیے۔ اے حبیبؐ! اعلان فرمائیں‘ اللہ کے فضل اور اس کی رحمت سے اہل ایمان کو خوش ہو جانا چاہیے اور یہ قرآن ہر اس چیز سے بہتر ہے ‘جسے تم اکٹھا کرتے ہو ۔ اللہ تعالیٰ نے یہ بھی بیان فرما دیا کہ'' خبردار اللہ کے دوستوں کو نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ کوئی غم‘‘ اور ان کی نشانی یہ ہے کہ وہ ایمان والے اور تقویٰ کو اختیار کرنے والے ہوں گے۔
اس کے بعد سورہ یونس ہے اورسورہ یونس میں اللہ تعالی نے فرعون کاذکرکیاہے کہ اس کے خوف کی وجہ سے بنی اسرائیل کے لوگ ایمان لانے سے کتراتے تھے۔ بنی اسرائیل کی مرعوبیت دیکھ کرحضرت موسیٰ علیہ السلام نے دعامانگی ''اے ہمارے پروردگار! تونے فرعون اوراس کے مصاحبوں کودنیاکی زینت اورمال عطاکیاہے ‘تاکہ وہ لوگوں کوتیرے راستے سے برگشتہ کرے ۔ اے پروردگار!توان کے مال اوردولت کونیست ونابود فرمااوران کے دلوں کوسخت بنا‘تاکہ اس وقت تک ایمان نہ لائیں جب تک کہ دردناک عذاب کونہ دیکھ لیں‘‘۔ 
اللہ نے موسیٰ علیہ السلام کی دعاکو قبول فرمالیااورہرطرح کاعذاب دیکھنے کے باوجود بھی فرعون ہدایت کوقبول کرنے پر آمادہ نہ ہوا یہاں تک کہ جب موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کے لوگوں کولے کرنکلے تواس نے اپنے لشکرسمیت ان کاتعاقب کیا۔ جب موسیٰ علیہ السلام سمندرکوپارکرگئے تواللہ نے سمندر کی لہروں کوآپس میں ملادیا ۔ فرعون سمندرکے وسط میں غوطے کھانے لگا۔ اس حالت میں فرعون نے پکار کرکہا: ''میں ایمان لایاکہ کوئی معبود نہیں‘ اس کے سوا کہ جس پربنی اسرائیل ایمان لائے اورمیں فرمانبرداروں میں سے ہوں‘‘۔ اللہ نے فرعون کے ایمان کوقبول کرنے سے انکارکردیا اورکہاکہ کیااب ایمان لائے ہو ؟ اس سے پہلے تک توتوُنافرمانی اور فساد برپاکرنے والوں میں سے تھا۔پس‘ آج ہم تیرے جسم کوسمندرسے نکال لیں گے ‘تاکہ تو اپنے بعد میں آنے والے لوگوں کے لیے اللہ کے عذاب کی نشانی بن جائے اور بہت سے لوگ ہماری آیات سے غافل ہیں ۔اس واقعے سے ہمیں نصیحت حاصل ہوتی ہے کہ انسان کو دنیا اور اقتدار کے نشے میں اندھے ہوکر اپنے انجام اور آخرت کو فراموش نہیں کردینا چاہیے اس لیے کہ اللہ کی پکڑ بڑی شدید ہے ۔اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے قوم یونس علیہ السلام کا بھی ذکر کیا ہے کہ جب یونس علیہ السلام اپنی قوم کی نافرمانیوں پر ناراض ہوکر ان کو خیرباد کہہ دیتے ہیں تو وہ اللہ کی بارگاہ میں آکر باجماعت اپنے گناہوں پر معافی مانگتے ہیں۔اللہ تعالیٰ ان کی اجتماعی توبہ اور استغفار کی وجہ سے ان کے گناہوں کو معاف فرما دیتے ہیں ۔جب بھی اللہ تعالیٰ کسی قوم پر ناراض ہوجائیں اور وہ اللہ کی خوشنودی کے لیے اجتماعی توبہ کاراستہ اختیارکرے تواللہ تعالی اس کی خطاؤں کومعاف کردیتاہے۔ 
دعاہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی اپنی بارگاہ میں آکراجتماعی توبہ کرنے کی توفیق دے‘ تاکہ ہماری اجتماعی مشکلات کاخاتمہ ہوسکے۔ اللہ ہمیں قرآن پاک میں مذکورمضامین سے نصیحت حاصل کرنے کی توفیق دے۔(آمین!)

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں