چودھویں پارے کا آغاز سورۃ الحجر سے ہوتا ہے ۔چودھویں پارے کے شروع میں اللہ تعالیٰ نے اس امر کا ذکر کیا ہے کہ کافر رسول اللہﷺکی ذات کو تنقید کا نشانہ بناتے اور کہتے کہ اگر آپ سچے ہیں تو ہمارے لیے فرشتوں کو کیوں لے کر نہیں آتے تو اللہ تعالیٰ نے ان کے اعتراض کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ فرشتوں کو تو ہم عذاب دینے کے لیے اتارتے ہیں اور جب فرشتوں کا نزول ہوجاتا ہے تو اقوام کو مہلت نہیں دی جاتی ‘ قرآن مجید کے نزول پر شک اور اعتراض کرنے والے کافروں کو مخاطب ہو کر اللہ تعالیٰ نے کہا کہ بے شک ہم نے ہی ذکر (مراد فرقان حمید) کو نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔
اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے ستاروں کی تخلیق کے مقاصد بھی بیان فرمائے ۔اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ ہم نے آسمانِ دنیا کو ستاروں سے مزیّن کیا اور ان کو شیطان کے شر سے محفوظ کیا‘ مگر جو آسمان کی بات کو چرا کر زمین پر لانا چاہے تو اس کو اللہ تعالیٰ شہاب ثاقب سے نشانہ بناتے ہیں۔
اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے قوم لوط کی طرف روانہ کیے جانے والے فرشتوں کا بھی ذکر کیا ہے۔ یہ فرشتے جناب لوط کی طرف جانے سے قبل جناب ابراہیم کے پاس آئے۔ انہوں نے جناب ابراہیم علیہ السلام کو ایک عالم فاضل بیٹے کی بشارت دی اور انہیں بتلایاکہ ہم ایک مجرم قوم کو ہلاک کرنے کے لیے بھیجے گئے ہیں۔ اس قوم میں سے لوطں کے گھرانے کے علاوہ ہر شخص کو ہلاک کردیا جائے گا سوائے لوط کی بیوی کے کہ جس کے بارے میں ہمارا فیصلہ ہے کہ وہ ضرور مجرموں کے ساتھ پیچھے رہ جائے گی۔ اللہ کے فرشتوں نے لوط علیہ السلام کی پوری بستی کو بلندی پر لے جا کر الٹ دیا اور ان پر پتھروں کی بارش کر دی اورپتھر ہر مجرم کو نشانہ بنا کر لگ رہے تھے۔
اس سورۃ میں اللہ تعالیٰ نے اس امر کا بھی اعلان فرمایا کہ جو رسول اللہﷺکا مذاق اڑاتا ہے تو اس سے نبٹنے کے لیے خود اللہ کی ذات کافی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہﷺکے ہر دشمن کو ذلت اور عبرت کا نشان بنا دیا۔ ابوجہل‘ عتبہ‘ شیبہ‘ ولید‘ امیہ بن خلف اور عقبہ بن ابی معیط رسول اللہﷺکو مذاق کا نشانہ بناتے تھے۔ اللہ نے میدان بدر میں ان کو حسرت ناک انجام سے دوچار کر دیا۔ ابولہب کے ایک بیٹے نے رسول اللہﷺکا استہزاء کیا تو نبی کریمﷺ نے بددعا کی کہ اس کو جنگل کا جانور کھا جائے۔ نبی کریم کی بددعا پوری ہوئی اور ایک کاروباری سفر کے دوران جنگل کا شیر اس کو کھا گیا۔
اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرمایا کہ رسول اللہﷺکو سات بار بار پڑھی جانے والی آیات اور قرآن عظیم‘ یعنی سورہ فا تحہ عطا کی گئی ہے ۔
سورۃ الحجر کے بعد سورۃ النحل ہے ۔سورۃ النحل میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے جس بندے پر چاہتے ہیں روح الامین کو فرشتوں کے ہمراہ نازل فرماتے ہیں تا کہ وہ لوگوں کو ڈرائے کہ اللہ کے سوا کو ئی معبود نہیں۔ سورۃ النحل میں اللہ تعالیٰ نے یہ بھی بیان کیا کہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے لیے انواع و اقسام کی سواریوں کو پیدا فرمایا۔اللہ تعالیٰ نے گھوڑوں ‘خچر وں اور گدھوں کو پیدا کیااور وہ کچھ پیدا فرمایا جس کو انسان نہیں جانتا ۔
اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے دو خدائوں کے تصور کی بھی نفی کی اور کہا انسانوں کو دو الٰہ نہیں پکڑنے چاہئیں بے شک وہ اکیلا اللہ ہے ۔ثنویت کا عقیدہ آتش پرستوں میں موجود تھا اور وہ دو خدائوں کی بات کیا کرتے تھے ۔اللہ تعالیٰ نے ان کے عقیدے کو رد کیا اور ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا کہ اگر زمین و آسمان میں دو الٰہ ہوتے تو ہر طرف فساد ہوتا‘ یعنی دو معبود وں کے احکامات ٹکراتے اور کہیں اعتدال نہ ہوتا۔
اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے انسانوںکی توجہ مویشیوں کی طرف بھی مبذول کروائی اور کہا کہ چوپایوں میں انسانوں کے لیے عبرت ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان کے پیٹوں سے خالص دودھ پلاتے ہیں جو کہ خون اور گوبر کے درمیان سے نکلتا ہے لیکن اس میں نہ خون کی رنگت ہوتی ہے اور نہ فضلے کی گندگی۔ اور فلٹریشن کا یہ غیر معمولی پلانٹ خالق ِکائنات کی کاریگری کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ بھی بیان کیا کہ پرندے کو فضائے بسیط میں اللہ تعالیٰ ہی سہارا دیتے ہیں ۔اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے گھروں کو ہمار ے لیے جائے سکونت بنایا ہے جو سکون انسان کو اپنے گھر میں حاصل ہوتا ہے وہ کسی دوسرے مقام پر حاصل نہیں ہوتا ۔
ا س پارے میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے یہ بھی بتلایا کہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ پر قرآن مجید کو اس لیے نازل فرمایا‘ تا کہ وہ لوگوں کو بیان کریں جو ان پر نازل کیا گیا ہے ‘گویا کہ رسول اللہ ﷺ کے فرامین اور آپ کی سنتیں قرآن مجید کے بیان کی حیثیت رکھتی ہیں ۔
اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے کافروں کی ہرزہ سرائی کا ذکر کیا ہے کہ وہ کہا کرتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ پر قرآن اللہ کی طرف سے نازل نہیں ہوا ‘بلکہ محمدﷺ روم کے ایک نومسلم (مراد صہیب رومیؓ) سے سن کر اس کو آگے لوگوں کو سناتے ہیں۔ رسول اللہﷺکی طرف سے اللہ نے خود جواب دیا کہ جس آدمی کے بارے میں ان کا یہ گمان ہے کہ وہ رسول اللہﷺکو سکھلاتا ہے وہ تو عجمی ہے ‘جبکہ رسول اللہﷺپر نازل ہونے والے قرآن کی زبان تو عربیِ مبین (صاف صاف) ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ بھی بتلایا کہ قرآن مجید کو روح القدس نے رسول اللہ ﷺکے قلب پر نازل کیا تاکہ مومنوں کو ثابت قدم رکھا جائے اور اس میں مسلمانوں کیلئے ہدایت اور بشارت ہے ۔
اس سورت میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے سبا کی بستی کا بھی ذکر کیا ہے کہ جس کو اللہ تبارک و تعالیٰ نے رزق اور امن کی جملہ نعمتوں سے نواز رکھا تھا‘ لیکن وہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی ناشکری اور نافرمانی کے کاموں میں مشغول ہو گئے تو اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان سے امن کو چھین کر خوف اور رزق کو چھین کر بھوک میں مبتلا کر دیا تھا۔
اس واقعے سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ قوموں کے امن اور معیشت کا تعلق اللہ تبارک و تعالیٰ کی فرمانبرداری کے ساتھ ہے اور جب کوئی قوم اللہ کی نافرمانی اور ناشکری کا ارتکاب کرتی ہے تو اللہ تعالیٰ ان کو بدامنی اور بھوک میں مبتلا کر دیتے ہیں ۔
اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے جناب ابراہیم علیہ السلام کی تعریف کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ بے شک ابراہیم علیہ السلام اکیلے ہی امت تھے۔ وہ اللہ کے تابع فرمان اور یکسو مسلمان تھے انہوں نے کبھی بھی شرک نہیں کیا ۔اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شکریہ ادا کرنے والے تھے ۔اللہ تعالیٰ نے ان کو قبول کر لیا تھا اور ان کو سیدھے راستے پر چلا دیا تھا ۔
اس پارے میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے دعوت و تبلیغ کا طریقہ بھی بتلایا کہ دعوت دین کا کام بڑی حکمت اور اچھی نصیحت کے ساتھ ہو نا چاہیے بے شک اللہ کو پتا ہے کہ کون اس کے راستے سے بھٹکا ہوا اور کون ہدایت پر ہے ۔
اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے اعدائے دین کی تکلیفوںپر صبر کرنے کو اچھا عمل قرار دیا ہے اور یہ بھی بتلایا ہے کہ صبر اللہ تبارک و تعالیٰ کی ذات پر یقین رکھ کر ہی ہو سکتا ہے ۔
اس پارے کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ بے شک اللہ تقویٰ اختیار کرنے والوں اور نیکوکاروں کے ساتھ ہیں۔اللہ تعالیٰ کی تائید حاصل کرنے کے لیے اللہ تبارک و تعالیٰ کا ڈر اور نیکی کے راستے پر استقامت درکار ہے‘ جس انسان کو یہ دو چیزیں حاصل ہو جائیں گی ‘یقینا اس کو اللہ کی تائید بھی حاصل ہو جائے گی ۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں قرآن مجید پڑھنے ‘ سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمادے۔ (آمین)
اس پارے کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ بے شک اللہ تقویٰ اختیار کرنے والوں اور نیکوکاروں کے ساتھ ہیں۔اللہ تعالیٰ کی تائید حاصل کرنے کیلئے اللہ تعالیٰ کا ڈر اور نیکی کے راستے پر استقامت درکار ہے‘ جس انسان کو یہ دو چیزیں حاصل ہو جائیں گی ‘یقینا اس کو اللہ کی تائید بھی حاصل ہو جائے گی ۔