"AIZ" (space) message & send to 7575

اکیسویں پارے کا خلاصہ

قرآنِ مجید فرقان حمید کے اکیسویں پارے کا آغاز سورہ عنکبوت سے ہوتا ہے ۔اکیسویں پارے کے آغاز میں اللہ تعالیٰ‘ اپنے حبیبؐ سے فرماتے ہیں کہ جو کتاب آپ پر نازل کی گئی ہے‘ اس کی تلاوت کریں اور نماز قائم کریں اور ساتھ ہی ارشاد فرمایا: بیشک نماز‘ فحاشی اور برے کاموں سے روکتی ہے۔اس کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ آپ پہلے سے نہ کوئی کتاب پڑھتے تھے‘ نہ اپنے ہاتھ سے لکھتے تھے‘ ورنہ اہل باطل شک کرتے ۔
اللہ کے حبیب ﷺ نے کسی مکتب یا مدرسے سے تعلیم حاصل نہیں کی‘اگر آپ ﷺ لکھنا پڑھنا جانتے ہوتے تو اہل باطل کے شک میں کوئی وزن ہوتا‘ لیکن آپﷺ کا بغیر کسی سابقہ تعلیم کے قرآن مجید جیسی کتاب کو پیش کرنا اس امر کی واضح دلیل تھی کہ آپﷺ ‘ اللہ کے نبی اور اس کے سچے رسول تھے اور ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ یہ واضح آیات ہیں‘ جن کو اللہ تعالیٰ نے اہل علم کے سینوں میں محفوظ فرمادیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کی آیات سے جھگڑنے والے لوگ ظالم اور کافر ہوتے ہیں ۔
اللہ تعالیٰ نے اس سورت میں مشرکین مکہ کی بد اعتقادی کا ذکر کیا کہ جب وہ سمندروں میں ہوتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کو پورے اخلاص سے پکارتے ہیں اور جب خشکی میں ہوتے ہیں تو وہ شرک کا ارتکاب کر تے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا انکار کرتے ہیں۔ اس سورت میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں‘ جو لوگ میرے راستے میں جدوجہد کرتے ہیں ‘میں ان کو اپنا راستہ ضرور دکھائوں گا اور بے شک اللہ تعالیٰ نیکو کاروں کے ساتھ ہے ۔
سورہ عنکبوت کے بعد سورہ روم ہے ۔ یہ سورت اس وقت نازل ہوئی جب روم کے اہل کتاب کو ایران کے آتش پرستوں سے شکست ہوئی۔ کفار مکہ ایرانیوں کی اس فتح پر دلی طور پر بہت خوش تھے ۔اللہ تعالیٰ نے اس سورت میں مومنوں کی دل جوئی کے لیے اس امر کا اعلان فرمایا کہ اہل روم مغلوب ہوگئے‘ قریب کی سرزمین (شام)میں اور اپنی مغلوبیت کے بعد چند ہی سالوں میں غالب آئیں گے ۔پہلے بھی ہر چیز کا اختیار صرف اللہ کے پاس تھا اور بعد میں بھی صرف اسی کے پاس رہے گا اور اس دن مومن خوش ہوجائیں گے ۔
جب ان آیات کا نزول ہوا مشرکین مکہ نے ظاہری حالات کو دیکھتے ہوئے اس کو ناممکن خیال کیا۔ابی بن خلف تو حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے ساتھ شرط لگا نے پر اتر آیا کہ ایسا ہونا نا ممکن ہے۔ کافر‘ اللہ تعالیٰ کی طاقت اور اختیارات سے نا واقف تھے ‘اس لیے کہ ان کی نگاہ صرف ظاہری حالات پر تھی ۔اللہ تعالیٰ نے ہجرت سے ایک سال قبل ایرانیوں کو کمزور کرناشروع کردیا اور 2ہجری میں ایرانیوں کا سب سے بڑا آتشکدہ بھی رومی فتوحات کی لپیٹ میں آگیا اور اسی سال بدر کے معرکے میں مسلمانوں کو اللہ نے غلبہ عطافرمایا اور مسلمانوںکی خوشیاں دو چند ہو گئیں کہ رومیوں کی فتح کی اچھی خبر بھی سننے کو مل گئی اور اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو بھی کافروں کے مقابلے میں فتحیاب فرمادیا ۔
اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو نصیحت کی کہ قرابت داروں‘مساکین اورمسافروں کا حق ان کو دینا چاہیے۔ یہ بہتر ہے ‘ان لوگوں کے لیے جو اپنے اللہ کی زیارت کرنا چاہتے ہیں اور یہی لوگ کامیاب ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ‘جو سود انسان کھاتا ہے ‘جس کا مقصد مالوں کو پرورش دینا ہوتاہے ‘اس سے مال پروان نہیں چڑھتا اور جو زکوٰۃ‘اللہ تعالیٰ کے لیے دی جاتی ہے‘ اللہ تعالیٰ اس میں اضافہ فرماتے ہیں ۔
سورہ روم کے بعد سورۃ لقمان ہے ۔سورہ لقمان میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے بتلایا ہے کہ کامیابی حاصل کرنے والے لوگ‘ نمازوں کو قائم کرنے والے ‘زکوٰ ۃ کو ادا کرنے والے اور آخرت پر پختہ یقین رکھنے والے ہوتے ہیں ۔
سورہ لقمان میں اللہ تعالیٰ نے بتلایا ہے کہ بعض لوگ لغو باتوں کی تجارت کرتے ہیں اور ان کا مقصد صرف لوگوں کو گمراہ کرنا ہو تا ہے۔ لغو باتوں میں موسیقی ‘بے راہ روی پیدا کرنے والا لٹریچر ‘مخرب الاخلاق افسانے اور ناول وغیرہ سبھی شامل ہیں اور ایسے لوگوں کے لیے اللہ تبارک و تعالیٰ نے ذلت والے عذاب کو تیار کر دیا ہے ۔
سورہ لقمان میں اللہ تعالیٰ نے جناب لقمان کا ذکر بھی کیا ہے کہ جن کو اللہ تعالیٰ نے دانائی سے نوازا تھا۔ حضرت لقمان نے اپنے بیٹے کوکچھ قیمتی نصیحتیں کی تھیں ‘ان کا خلاصہ درج ذیل ہے :
جناب لقمان نے اپنے بیٹے کو کہا کہ بیٹے شرک نہ کرنا ‘شرک بہت بڑا ظلم ہے اور انہوں نے اپنے بیٹے کو والدین کی خدمت کی بھی تلقین کی‘ نیز اللہ کے علم کی وسعتوں سے آگا ہ کرتے ہوئے فرمایاکہ اے میرے بیٹے! اگر رائی کے دانے کے برابر کوئی چیز کسی چٹان کے اندر یا آسمان و زمین میں ہوتو اللہ تعالیٰ اس کوبھی سامنے لائے گا۔ بے شک اللہ بڑا باریک بین باخبر ہے ۔اس نصیحت کا مقصد یہ تھا کہ انسان کو کوئی بھی عمل کرتے ہوئے یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ انسان کو بڑی باریک بینی سے دیکھ رہا ہے ۔آپ نے اپنے بیٹے کو یہ بھی حکم دیا کہ اے میرے بیٹے !نماز قائم کر ‘بھلائی کا حکم دے اور برائی سے روک اور تجھے جو تکلیف پہنچے اس پر صبر کر ۔بے شک یہ بڑی ہمت والے اور ضروری کام ہیں ۔آپ نے اپنے بیٹے کو مزید یہ نصیحت کی کہ لوگوں سے اپنا چہرہ پھیر کر بات نہ کر اور زمین پر اکڑ کر نہ چل۔ بے شک اللہ تبارک و تعالیٰ‘ اکڑ کر چلنے والے متکبرین کو پسند نہیں کرتا اور اپنی چال میں میانہ روی اختیار کر اور اپنی آواز پست رکھ۔بے شک بدترین آواز گدھے کی آواز ہے ۔
اس سورت کے آخر میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان پانچ غیب کی باتوں کا ذکر کیا ہے‘ جن کو صرف وہ جانتا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتے ہیں کہ بے شک اس کے پاس قیامت کا علم ہے اور وہ جانتا ہے بارش کب ہو گی اور وہ جانتا ہے ‘جو ماں کے رحم میں ہے اور کسی نفس کو نہیں پتا کہ وہ کل کیا کر سکے اور کوئی نہیں جانتا ‘وہ کس زمین میں مرے گا؟ ان تمام باتوں کا علم صرف باخبر اور علم رکھنے والے اللہ کے پاس ہے ۔
اس کے بعد سورہ سجدہ ہے۔سورہ سجدہ میں اللہ تعالیٰ نے بتلایاگیا ہے کہ اس نے ملک الموت کی ڈیوٹی انسانوں کی ارواح قبض کرنے پر لگائی ہے ۔اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے جنت کی نعمتوں کا ذکر کر تے ہوئے بتلایا کہ کسی انسان کو علم نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس کی آنکھوں کی ٹھنڈک کے لیے کیا اہتمام فرمایا ہے ۔اللہ تعالیٰ نے اس سورت میں بتلایا ہے کہ مومن اور گناہ گار برابر نہیں ہو سکتے ۔مومن کا مقدر جنت ‘جبکہ سرکشی اور نافرمانی اختیار کرنے والے کا مقدر جہنم کے انگارے ہیں ۔
سورہ سجدہ کے بعد سورۃ احزاب ہے ۔سورت احزاب میں اللہ تعالیٰ نے جنگِ خندق کا ذکر کیا ہے کہ جس میں کافروں کی افرادی قوت دیکھ کر منافقین کے دلوں پر ہیبت طاری ہوگئی تھی ‘جبکہ اہل ایمان پوری استقامت سے میدان میں ڈٹے رہے ۔چوبیس ہزار کے لشکر جرار نے مدینے پر حملہ کیا۔ رسول کریمﷺ کے ساتھ صحابہ کرام کے علاوہ سترہ سو یہودی حلیف تھے ۔سترہ سو حلیف اتنی بڑی فوج کو دیکھ کر بھاگ گئے ۔اب ‘رسول کریمﷺ کے ہمراہ صرف جانباز مسلمانوں کی ایک مختصر جماعت تھی ۔ مسلمانوں نے جب اللہ تعالیٰ کی ذات پر بھروسہ کیا تو اللہ تعالیٰ نے تیز آندھیوں اور فرشتوں کی جماعتوں کے ذریعے اہل ایمان کی مدد فرمائی اور کافر کثرت ِتعداد اور وسائل کی فراوانی کے باوجود ذلت اور شکست سے دوچار ہوکر بھاگ کھڑے ہوئے ۔
اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ جس کو اللہ تعالیٰ سے ملاقات اور یوم حساب کی آمد کا یقین ہے‘ اس کے لیے رسول اللہﷺ کی زندگی بہترین نمونہ ہے ۔رسول کریمﷺ ہرشعبہ زندگی میں ہمارے لیے نمونے کی حیثیت رکھتے ہیں اور گھریلو زندگی‘ سماجی زندگی‘ انفرادی زندگی‘ اجتماعی زندگی میں ان کی ذات ہی ہمارے لیے بہترین نمونہ ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں قرآن مجیدمیں بیان کردہ مضامین سے عبرت اور نصیحت حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔(آمین !)

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں