قرآن پاک کے اٹھائیسویں پارے کا آغاز سورہ مجادلہ سے ہوتا ہے ۔سورہ مجادلہ کے شروع میں اللہ تعالیٰ نے سیدہ خولہ بنت ثعلبہ رضی اللّٰہ عنہا کا واقعہ ذکر کیا ہے کہ جن کے شوہر نے ناراضی میں ان کو کہہ دیا تھا کہ تم میرے لیے میری ماں کی پشت کی طرح ہو ۔وہ اس معاملے پر رہنمائی حاصل کرنے کے لیے رسول کریمﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوئیں تو آپ ﷺنے بھی اس مسئلے پر رخصت دینے سے انکار فرمادیا (سیدہ خولہ رضی اللّٰہ عنہا نے اس مسئلے پر آپ ﷺ سے مزید بات کرنا چاہی تو نبی کریمﷺ نے ان سے اعراض کرلیا) اس پر سیدہ خولہ رضی اللّٰہ عنہانے بارگاہ رب العٰلمین میں دعا مانگی کہ اے اللہ !اس سلسلے میں میری مدد فرما ۔اللہ تعالیٰ نے سیدہ خولہ رضی اللّٰہ عنہا کی فریاد کو سن لیا اور حضرت رسول کریم ﷺ پر وحی کو نازل فرمایا کہ اللہ نے اس عورت کی بات سن لی ہے ‘جو آپ ﷺ سے اپنے شوہر کے بارے میں بحث کررہی تھی اور اللہ تعالیٰ آپ دونوں کا مکالمہ سن رہا تھا ‘بے شک اللہ خوب سننے اور بڑا دیکھنے والا ہے ۔ اس کے بعد اللہ نے ''ظہار‘‘ کے کفارے کے لیے حکم نازل فرمادیا کہ جو لوگ اپنی بیویوں سے ''ظہار‘‘ کرلیں اورپھر اپنی کی ہوئی بات سے رجوع کرنا چاہیں تو انہیں یا تو ایک غلا م آزاد کرنا ہوگا یا دو ماہ کے مسلسل روزے رکھنے ہو ں گے اور ایسا کرنا ممکن نہ ہوتو ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانا ہوگا۔ اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے محبت اور نفرت کا معیار بھی بتایا کہ اللہ تعالیٰ سے محبت کرنے والا کوئی شخص ایسا نہیں‘ جس کے دل میں اللہ تعالیٰ کے دشمن کے بارے میں محبت ہو ۔جس کے دل میں اللہ تعالیٰ کے لیے محبت ہے ‘وہ ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے دشمنوں سے نفرت کرتا ہے‘ چاہے وہ اس کا قریبی عزیز ہی کیوں نہ ہو۔
سورہ مجادلہ کے بعد سورہ حشر ہے۔ سورہ حشر میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں‘ جو رسول اللہ ﷺ عطا کرتے ہیں اس کو پکڑ لیا کرو اور جس سے روکتے ہیں‘ اس سے رک جایا کرو۔ اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کے تین طبقوں کا ذکر کیا ہے ۔ایک طبقہ وہ کہ جنہوں نے انپے ایمان کی حفاظت کے لیے ہجرت کی اور اپنے گھر بار اور اموال کو اللہ تعالیٰ کے فضل اور خوشنودی کے حصول کے لیے خیر باد کہہ دیا اور دوسرا طبقہ انصاری صحابہ کا تھا ‘جو مہاجرین سے محبت کرتے تھے اور ان کو دیئے گئے مال کے بارے میں اپنے دل میں معمولی سی تنگی بھی محسوس نہیں کرتے تھے اور انہیں اپنے آپ پر ترجیح دیتے تھے‘ چاہے انہیں خود تنگی کا سامنا کرنا پڑتا۔اور تیسرا طبقہ مہاجرین اور انصار کے بعد آنے والے اہل ِایمان کا تھا‘ جنہوں نے مہاجرین اور انصار صحابہ کرام کے لیے یا اپنے سے پیشتر دنیا سے چلے جانے والے مومنوں کے لیے دعا مانگی کہ اے ہمارے رب ! تُو ہمیں اور ہمارے ان بھائیوں کو معاف فرما جو ہم سے پہلے ایمان لاچکے ہیں اورہمارے دلوں میں ایمان لانے والوں کے بارے میں کینہ پیدا نہ فرما ۔بے شک تو بڑی شفقت اور رحم کرنے والا ہے۔ اس سورت میں اللہ تعا لیٰ نے اس امر کا بھی ذکر کیا کہ اگر اللہ تعالیٰ قرآن مجید کو کسی پہاڑ پر نازل فرماتے تو پہاڑ اللہ تعالیٰ کے خوف سے ریزہ ریزہ ہو جاتا اور ان مثالوں کو اللہ تبارک و تعالیٰ غور و فکر کرنے والوں کے لیے بیان فرماتے ہیں ۔
سورہ حشر کے بعد سورہ ممتحنہ ہے ۔اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو اسلام کے دشمنوں سے برأت کرنے کاحکم دیا ہے اور اس کے بعد حضرت ابراہیم اور ان کے ساتھیوں کے کردار کو نمونے کے طور پر اہل ایمان کے سامنے رکھا ہے کہ جنہوں نے مشرکوں اور غیر اللہ کے پچاریوں سے کامل برأت کا اظہار کیا۔ اس سورت میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے یہ بھی بتلایا ہے کہ وہ کافر جو مسلمانوں کے ساتھ اچھا سلوک کرتے ہیں اور ان کے خلاف سازشیں نہیں کرتے ‘ان کے ساتھ اچھا سلوک کرنا چاہیے اور جو کافر مسلمانوں کے خلاف سازشیں کرتے رہتے ہیں ‘ان کے ساتھ سختی والا معاملہ کرنا چاہیے۔ اس سورت میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے مسلمان عورتوں کے نکاح کو کافر مردوں کے ساتھ ناجائز قرار دیا ہے اور یہ بھی بتلایا ہے کہ اگر کافر عورت‘ ہجرت کر کے اہل ایمان کے پاس آجائے ‘تو اہل ایمان کو حق مہر ادا کرنے کی صورت میں اس عورت کے ساتھ نکاح کرنے کی اجازت ہے ۔
اس کے بعد سورہ صف ہے۔ اس سورت میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں سے محبت کرتے ہیں ‘جو اللہ کے راستے میں سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح صف باندھ کر لڑتے ہیں ۔اس سورت میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے جناب موسیٰ علیہ السلام کے اس فرمان کا بھی ذکر کیا کہ انہوں نے اپنی قوم کے لوگوں کو کہا تھا کہ تم مجھے کیوں تکلیف دیتے ہو ‘جب کہ تمہارے علم میں ہے کہ میں اللہ کا رسول ہوں ۔جب وہ سیدھے راستے پر نہ آئے تو اللہ نے ان کے دلوں کو ٹیڑھا کر دیا ۔
اس کے بعد سورہ جمعہ ہے ۔سورہ جمعہ میں اللہ تعالیٰ نے یہود کے ان علماء کا ذکر کیا ہے جو توریت کو پڑھتے تو ہیں ‘لیکن اس پر عمل نہیں کرتے ۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ان کی مثال ایسی ہے‘ جیسے گدھے پر کتابوں کو لاد دیا جائے ۔جو کہ کتابوں کا بوجھ تو اٹھاسکتا ہے‘ لیکن اس کے معنی اور مفہوم کو سمجھ نہیں سکتا ۔اس میں اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو جمعہ کے آداب بتلائے ہیں کہ جب جمعہ کی اذان ہو تو کاروبار چھوڑ کر فوراًجمعہ کی طرف متوجہ ہو جانا چاہیے اور جب جمعہ کی نماز کو ادا کر لیا جائے تو کاروبار کرنے کی اجازت ہے۔ سورہ جمعہ کے بعد سورہ منافقون ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ نے اس امر کا ذکر کیا کہ منافق رسول ﷺ کے پاس آکے زبان سے شہادت دیتے تھے کہ آپ‘ اللہ کے رسول ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ اللہ کو پتا ہے کہ آ پ اس کے رسول ہیں‘ لیکن اللہ گواہی دیتا ہے کہ منافق جھوٹ بولتے ہیں اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے یہ بھی ذکر کیا کہ دنیا کا مال دولت اور ان کے جسموں کی کیفیت دیکھ کر انسان متاثر ہو تا ہے‘ لیکن منافقوں کے لیے آخرت میں کچھ بھی نہیں ہے۔ اس کے بعد سورہ تغابن ہے۔ سورہ تغابن میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ جو مصیبت بھی آتی ہے ‘اللہ کے حکم سے آتی ہے اور جو کوئی اللہ پر ایمان لاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی رہنمائی فرما دیتے ہیں۔اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ جس حد تک ممکن ہو‘ اللہ تعالیٰ کے ڈر کو اختیار کرنا چاہیے ۔
اس کے بعد سورہ طلاق ہے۔سورہ طلاق میں اللہ تعالیٰ نے طلاق کی مختلف عدتوں کا ذکر کیا ہے کہ بوڑھی عورت کی عدت تین ماہ ہے‘ جبکہ عام عورت کی عدت تین حیض ہے‘ جبکہ حاملہ کی عدت وضع حمل ہے‘ اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے تقویٰ کے فوائد کا بھی ذکر کیا کہ جو تقویٰ کو اختیار کرتا ہے‘ اللہ تعالیٰ اس کی تنگیوں کو دور فرماتے ہیں‘ اس کے معاملات کو آسان فرماتے ہیں اور اس کو رزق وہاں سے دیتے ہیں ‘جہاں سے انسان گمان بھی نہیں کر سکتا۔ اس کے بعد سورہ تحریم ہے ۔اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے کامیابی کوایمان و عمل سے مشرو ط کیا ہے اور ازواج ِ مطہرات اور اہل ایمان کو سیدنا نوح اورسیدنا لوط کی بیویوں کا حوالہ دیا ہے کہ وہ نبیوں کی رفاقت میں رہ کر بھی اپنی بد عملی کی وجہ سے ناکام ہوگئیں اور ان کے مد مقابل فرعون کی بیوی آسیہ سلام اللّٰہ علیہااورسیدہ مریم سلام اللّٰہ علیہا کامیا ب رہیں کہ جنہوں نے اللہ تبارک و تعالیٰ کی بندگی کو اختیار کیا اور اپنے کردار کو ہر طرح کی آلودگی سے بچالیا۔
اللہ تعالیٰ ہمیں قرآن مجید میں مذکورمضامین سے نصیحت حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔(آمین!)
سورہ تحریم میں اللہ تعالیٰ نے کامیابی کوایمان و عمل سے مشرو ط کیا ہے اور ازواج ِ مطہرات اور اہل ایمان کو سیدنا نوحؑ اورسیدنا لوطؑ ی بیویوں کا حوالہ دیا ہے کہ وہ نبیوں کی رفاقت میں رہ کر بھی اپنی بد عملی کی وجہ سے ناکام ہوگئیں اور ان کے مد مقابل فرعون کی بیوی آسیہ سلام اللّٰہ علیہااورسیدہ مریم سلام اللّٰہ علیہا کامیاب رہیں کہ جنہوں نے اللہ تبارک و تعالیٰ کی بندگی کو اختیار کیا اور اپنے کردار کو ہر طرح کی آلودگی سے بچالیا۔